شعور سے اتنا ڈر کیوں؟

تحریر: ڈاکٹر شکیل بلوچ
شعور سے مراد خودشناسی اور اپنے ارد گرد ہونے والے معاملات سے باخبر رہنے کا نام شعور (Consciousness) ہے۔ جب انسان میں شعور آجاتا ہے تو وہ معاشرے کی پیچیدگیوں کا ادراک کرتے ہوئے سماج کو درپیش معاملات سے نمٹنے کا بہترین حل دریافت کرسکتا ہے۔ تہذیب یافتہ اقوام دیگر اقوام سے زیادہ مہذب اور ترقی یافتہ اس لئے ہوتی ہیں کہ وہاں شعور یافتہ اذہان پائے جاتے ہیں، جو معاشرے کے خیر و شر کو جانتے ہیں اور یہ لوگ انتہائی حساس اور معاملہ فہم ہوتے ہیں۔ سماج میں رونما ہونے والے مسائل کے پیچھے کچھ نہ کچھ محرکات اور اسباب ضرور ہوا کرتے ہیں۔ ایک شعور یافتہ انسان ان اسباب کو جلد دریافت کرسکتا ہے کہ یہ معاملہ کیوں اور کیسے درپیش ہوا۔ ہر معاشرے میں تین طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں، ایک وہ جو معاشرے کے نظم ونسق کو بگاڑ دیتے ہیں، جن میں چور، ڈاکو، رہزن، منشیات فروش وغیرہ وغیرہ۔ دوسرے وہ لوگ جو ایک مہذب معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، یہ لوگ معاملہ فہم اور انتہائی شعور یافتہ لوگ ہوتے ہیں۔ تیسرا طبقہ درمیانہ طبقہ کہلایا جاتا ہے جو اعتدال پسند اور میانہ رویہ رکھتے ہیں، انہیں کسی چیز سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا ہے۔ غلامانہ ذہنیت پر قائم سماج اور معاشرے میں بسنے والے مذکورہ بالا پہلا طبقہ اور اس طبقے کو تحفظ دینے والے اکثر شعور یافتہ طبقے سے ڈرتے ہیں، کیونکہ شعور یافتہ ذہن معاشرے میں رونما ہونے والی برائیوں، چوری، ڈکیتیوں کو برداشت نہیں کرسکتا بلکہ انکا قلع قمع کرنے کیلئے سماج کو شعور اور آگاہی دیتا ہے، جس سے چوروں اور ڈاکوﺅں کو اس لئے ڈر ہوتا ہے کہ کہیں ان کے پیشے پر کوئی قدغن نہ لگائے۔ سخی بخش عرف سکی ساوڑ بھی شعور یافتہ طبقے سے تعلق رکھتا ہے جو معاشرے کا پہلا طبقہ اور طبقے کو تحفظ دینے والوں کو برادشت نہیں ہوسکا۔ سکی ساوڑ کا نام پڑھ کر آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کے نام کا معنی اور مقصد کیا ہے۔ سکی ساوڑ بلوچی زبان کے دو الفاظ سے ماخوذ ہے، سکی کا مطلب "سخاوت” اور ساوڑ کا مطلب "سمندر”۔ واقعی سکی ساوڑ اپنے نام کے معنی اور مقصد پر پورا اترتا ہے۔ غربت اور تنگ دستی کے باوجود وہ ایک سخی اور خوش اخلاق انسان ہے، اور وہ اپنے اندر ایک سمندر بھی ہے، مھر و محبت کا سمندر جو اکثر اپنی تحریروں میں پیار و محبت کی داستانیں لکھا کرتا ہے، سکی خود کو قلندری بھی کہا کرتا تھا، یہ نام بھی بالکل عین ان کے فقیرانہ کردار کی عکاسی کرتا ہے۔ کیونکہ وہ ایک قلندری فقیر کی طرح ہر عام و خاص شخص کے ساتھ ایک آشنا اور مہربان دوست کی طرح ملتا جلتا تھا۔ سکی ساوڑ کے اندر انسانیت کی تمام خوبیاں موجود ہیں، انہیں سب سے زیادہ عشق اور محبت اپنی مادری زبان سے ہے، وہ اپنی عشقیہ داستانوں کو بھی اپنی مادری زبان میں لکھا کرتا ہے۔ سمل ءِ اجبیں مھر اور مختلف موضوعات پر متعدد تحاریر لکھ چکے ہیں۔ ابھی تک سیکڑوں کی تعداد میں انکے مرید (طالب علم) ہیں جنہیں وہ واٹس اپ گروپ میں بلوچی "سیاھگ راست نبیسی” پڑھایا کرتا تھا۔ ایک ہنس مکھ، خوش مزاج، مزاحیہ اور علم وشعور سے لبریز نوجوان جو اپنی زندگی میں مگن درویشانہ زندگی گزار رہا ہے، کو لاپتہ کرنے سے اغواکاروں کو کیا فائدہ مل سکتا ہے؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ شاید انہیں اپنی مادری زبان کی ترویج کے جرم کی پاداش میں زندان کی تاریکیوں اور کال کوٹھریوں میں پابند سلاسل کیا گیا ہے۔
آخر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان اٹھا کر لے جانے والوں کو شعور سے آخر اتنا ڈر کیوں ہے؟ سکی ساوڑ بلوچ ایک شعور یافتہ انسان ہے، اسی شعور نے انہیں اپنی ماں سے انتہائی محبت کا درس دیا ہے، سکی ساوڑ بلوچ نے اپنی پہلی شادی اپنی ماں کی پسند سے کی اور ماں نے انہیں یقین دلایا کہ دوسری شادی آپ اپنی پسند کے مطابق کریں۔ وہ اپنی ماں کے بغیر ایک قدم آگے نہیں رکھتا تھا، انہوں نے اپنی بوڑھی ماں کی انتہائی قدر کی، یقینا آج وہ بوڑھی ماں انکی باحفاظت بازیابی کیلئے رو رہی ہوگی۔ سکی ساوڑ نے اپنی ماں کو خوش کرنے کیلئے ان کے ہر حکم کی تابعداری کی ہے، سکی ساوڑ یہ کبھی نہیں چاہتا کہ ان کی بوڑھی اور عمر رسیدہ ماں کو کوئی رلائے، لیکن آج اس بوڑھی اور عاجز ماں کی زندگی کا سہارا ان سے چھین لیا گیا ہے، آج وہ ماں ایک جہان کی طرح غم اور پریشانیوں کے بھاری بوجھ کے نیچے خون کے آنسو بہا رہی ہے۔ ذاکر مجید اور راشد بلوچ کی ماں سمیت دیگر بلوچ ماﺅں کی طرح اپنے فرمانبردار لخت جگر سکی ساوڑ کی سلامتی کیلئے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر خدا سے دعاگو ہیں۔
درویش صفت انسان جو دو وقت کی روزی روٹی کمانے خضدار گریشہ سے نقل مکانی کرکے کیچ مزدوری کیلئے جاتا ہے اور وہاں ان سے حسب معمول تمام بنیادی حقوق کی طرح مزدوری کا حق چھین کر راستے میں اٹھا کر انہیں لاپتہ کرنا کونسی انسانیت اور قانون ہے۔ ذہن میں کئی سوال جنم لیتے ہیں، ایسے ماحول میں جب درویش صفت انسانوں کو لاپتہ کیا جاتا ہے تو باقی نوجوان خود کو کیسے محفوظ تصور کرسکتے ہیں۔ بہرحال یہ بلوچ سرزمین ہے یہاں لاپتہ ہونا کوئی انوکھی بات نہیں۔