افغان حکام کا خواتین کیساتھ سلوک صنفی امتیاز پر مبنی ، سماج میں یکساں مواقع فراہم کیے جائیں، اقوام متحدہ

جنیوا(صباح نیوز) اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ طالبان کا خواتین کے ساتھ رویہ صنفی عدم مساوات کے زمرے میں آتا ہے جبکہ پاکستانی مندوب خلیل ہاشمی نے عالمی برادری سے درخواست کی کہ وہ افغانستان کے انسانی بحران پر بھی غور کرے، اگرچہ افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتحال تشویش کا باعث ہے لیکن وہاں کے شہری خود کو انسانی بحران میں پھنسا ہوا بھی پاتے ہیں جس پر عالمی توجہ کی ضرورت ہے۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کی حالت زار کو نمایاں طور پر پیش کیا گیا۔ مقررین نے طالبان حکومت پر منظم صنفی ظلم و ستم کے ارتکاب کا الزام بھی لگایا۔افغانستان کے بارے میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ نے کونسل کو بتایا کہ طالبان کی طرز حکمرانی خواتین اور لڑکیوں کے خلاف سنگین، منظم اور ادارہ جاتی امتیازی سلوک پر مبنی ہے۔اقوام متحدہ کی کونسل کے مطابق طالبان کی طرز حکمرانی نے ان خدشات کو بھی جنم دیا ہے کہ وہ صنفی امتیاز کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے بھی ان خدشات کا اظہار کیا کہ افغانستان میں طالبان حکومت نے انسانی حقوق کے سب سے بنیادی اصول خصوصا خواتین اور لڑکیوں کے لیے ختم کر دئیے ہیں۔کونسل کو دی گئی مشترکہ رپورٹ میں اقوام متحدہ کے حقوق کے ماہرین بینیٹ اور ڈوروتھی ایسٹراڈا ٹینک نے بتایا کہ افغان خواتین کی حالت زار دنیا میں بدترین ہے۔ رپورٹ میں عالمی برادری اور اقوام متحدہ پر زور دیا گیا کہ وہ اس معاملے پر زیادہ توجہ دیں اور افغان خواتین کو ریلیف پہنچانے کے لیے اقدامات کریں۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے بھی طالبان کو متنبہ کیا کہ خواتین کے ساتھ ان کا سلوک جنسی امتیاز پر مبنی ہے۔اجلاس سے خطاب میں افغان این جی او روادری کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر شہرزاد اکبر نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ جنس، رنگ اور نسل کی بنیاد پر امتیازی سلوک کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیتے ہوئے مجرموں کے لیے سزائے موت تجویز کی جائے۔پاکستانی مندوب خلیل ہاشمی نے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ وہ اس معاملے پر او آئی سی کے موقف کی تائید کرتے ہیں جس نے خواتین کی تعلیم اور ملازمت پر طالبان کی پابندی کو ناقابل قبول قرار دیا تھا اور اس پابندی پر نظرثانی کرنے کو کہا تھا۔ پاکستانی مندوب نے مزید کہا کہ طالبان حکام اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کریں اور افغانستان کی بین الاقوامی انسانی حقوق کی ذمہ داریوں کے مطابق تمام شہریوں کو تعلیم اور روزگار تک مساوی رسائی فراہم کریں۔ اس کے ساتھ ہی پاکستانی مندوب نے عالمی برادری سے بھی درخواست کی کہ وہ افغانستان کے انسانی بحران پر بھی غور کرے۔ اگرچہ افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتحال تشویش کا باعث ہے لیکن وہاں کے شہری خود کو انسانی بحران میں پھنسا ہوا بھی پاتے ہیں جس پر عالمی توجہ کی ضرورت ہے۔ پاکستانی مندوب نے مزید کہا کہ 97 فیصد افغان انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں اور 20 ملین سے زائد کو شدید بھوک کا سامنا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ہم انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ملنے والی امداد میں کمی دیکھ رہے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ صرف پاکستان واحد ملک ہے جس نے افغانستان میں انسانی بحران کے مسئلے کو اجاگر کیا جبکہ دیگر تمام ممالک بشمول بڑی طاقتوں نے صرف افغان خواتین کی حالت زار پر توجہ مرکوز رکھی ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ طالبان نے اگست 2021 میں حکومت سنبھالنے کے بعد خواتین کی ملازمتوں اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد ہے جب کہ ملک میں کام کرنے والی این جی اوز کی خواتین ملازمین پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں