موجودہ عہد کی ناکام ریاستیں

انور ساجدی
دنیا میں اس وقت کئی کامیاب اور کئی ناکام ریاستیں ہیں بیشتر ناکام ریاستیں ایشیاء اور افریقہ میں ہیں۔1960ء کی دہائی میں براعظم جنوبی امریکہ کی کئی ریاستوں کو ناکام کہا جاتا تھا کیونکہ ایک درجن ممالک میں حکومت کی کوئی رٹ نہیں تھی جبکہ امریکہ ڈرگ مافیا سے گٹھ جوڑ کرکے ان حکومتوں کے تختے الٹتا تھا امریکہ نے اپنے جنوب میں واقع جزائر غرب الہند کے ملک کیوبا میں سینکڑوں بارحکومت کاتختہ الٹنے کی کوشش کی لیکن ہربار فڈل کاسترو نے سی آئی اے کی ان سازشوں کو ناکام بنایا سوویت یونین کے صدر خروشیف کے دور میں کیوبا کے مسئلہ پر روس اور امریکہ کے درمیان براہ راست جنگ کاخطرہ بھی پیداہوگیا تھا چونکہ اس زمانے میں دنیا دوسپرپاورز کے بیچ تقسیم تھی اگر جنگ ہوجاتی تو یہ تیسری عالمی جنگ بھی ہوسکتی تھی فڈل کاسترو کی موت کے بعد اگرچہ صدر اوباما نے تاریخی دورہ کیا لیکن60سالہ پابندیوں بہیمانہ اور انسان دشمن کارروائیوں کی وجہ سے کیوبا اب بھی ایک کامیاب ریاست نہیں ہے پہلی جنگ عظیم کے بعد جب سلطنت عثمانیہ ختم ہوگئی جس کے نتیجے میں 60نئے ملک وجود میں آگئے جدید ترکی سمیت یہ تمام ممالک طویل عرصہ تک ناکام ریاستیں تھیں سوویت بلاک میں شامل ہونے کے بعد بلقانی کی تمام ریاستیں اپنے عوام کوبنیادی سہولتیں دینے سے قاصر تھیں ان تمام ممالک میں آمرانہ طرز حکومت رائج تھی طویل عرصہ تک ترکی کو یورپ کا مرد بیمار کہاجاتاتھا۔
1923ء سے1980ء تک فوج کی حکمرانی اور بدترین آمریت کے دوران ترکی اپنے پیروں پر نہ اٹھ سکا کمال اتاترک نے اپنے تشکیل کردہ آئین میں فوج کاباقاعدہ رول مقرر کیا تھا حتیٰ کہ پارلیمنٹ میں بھی فوج کو نمائندگی دی گئی تھی اگرچہ طیب اردوان بھی ایک بدترین آمرہیں انہوں نے بنیادی انسانی حقوق کو بری طرح کچل دیا ہے لیکن انکو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے آئین یکسربدل کر فوج کی بالادستی ختم کردی ہے انکے دور میں ایک دفعہ فوج نے بغاوت کی کوشش بھی کی تھی لیکن انہوں نے یہ بغاوت ناکام بنادی ترکی میں بنیادی اصلاحات لانے کابنیادی خیال نجم الدین اربکان نے پیش کیا تھا بعد میں عبداللہ گل اور اردواں نے مل کر اس خیال کو عملی جامہ پہنایا اردوان نے اسلامی ممالک کے معاملات میں دخل اندازی بھی شروع کررکھی ہے جب تین سال قبل قطر کو سعودی عرب سے خطرہ لاحق ہوا تو اردوان نے وہاں پر اپنی فوج بھیجی اسی طرح وہ لیبیا اور شام میں بھی مداخلت کررہے ہیں لیبیا میں ترکی کے فوجی دستوں کوناگفتہ بہ صورتحال کا سامنا ہے اگرچہ آج کا ترکی ماضی کے مقابلے میں خوشحال ہے لیکن اسے متعدد داخلی تضادات خانہ جنگی علویوں اورکردوں کی شورش کابھی سامنا ہے اگر ترکی نے اپنی پالیسیاں تبدیل نہ کیں تو وہ مستقبل میں شدید مشکلات یعنی خانہ جنگی سیاسی عدم استحکام اور اقتصادی کساد بازاری کاشکار ہوسکتا ہے اوراسے کامیاب ریاست بننے کیلئے طویل عرصہ لگ سکتا ہے عہد حاضر کی ناکام ریاستوں میں صومالیہ اوریمن سرفہرست ہیں صومالیہ جنرل محمد سعید برے کی قیادت میں افریقہ کا اچھا ملک تھا لیکن دو دہائی پہلے وہاں پر سیاسی عدم استحکام پیدا ہوگیا۔1990ء کی دہائی میں القاعدہ نے وہاں پر ڈیرے ڈالے بعدازاں کئی ریڈیکل اسلامی گروپ پیدا ہوگئے درجنوں وارلارڈ زبھی میدان میں کود پڑے جس کی وجہ سے ریاست کی مرکزیت ختم ہوگئی جوجہاں زور تھا اس نے وہاں پر اپنی حکومت قائم کی اگرچہ صومالیہ اب بھی اقوام متحدہ کا باقاعدہ رکن ہے لیکن وہ دنیا کی ناکام ترین ریاست ہے یہی حال بلکہ اس سے بھی برا حال یمن کا ہے19ویں صدی کے آخر میں یعنی 1960ء اور1970ء کی دہائی میں یمن دوحصوں میں تقسیم ہوگیا تھا جنوبی یمن میں عبداللہ صالح نے اپنی حکومت قائم کرکے اسے سوویت بلاک میں شامل کردیا تھا جبکہ ملک کا دوسرا حصہ امریکی بلاک میں تھا اس ملک میں کبھی امن نہیں آیا چندسال پہلے سعودی عرب نے مداخلت کرکے اپنی نام نہاد حکومت وہاں پر مسلط کردی لیکن حوثی قبائل نے عبدالرب ہادی منصور کو بھگانے پر مجبور کردیا اور یہ موصوف سعودی عرب میں بیٹھ کراپنی جلاوطن چلارہے ہیں یمن خانہ جنگی اوربیرونی مداخلت کی وجہ سے مکمل طور پر تاراج ہوگیا ہے سعودی بمباری سے لاکھوں ہلاک ہوگئے ہیں نہ اسکول بچاہے اور نہ کوئی اسپتال،لاکھوں بچے غذائی قلت،ادویات کی کمیابی اور بمباری سے موت کی نیند سوگئے ہیں یمن اس وقت کرہ ارض کی ناکام ترین ریاست ہے۔
نام نہاد عرب اسپرنگ کے ذریعے امریکہ نے عرب آمریتوں میں جو شورش برپا کی اسکے نتیجے میں لیبیا کامرد آہن معمر قذافی کا عبرتناک انجام ہوا لوگوں نے اسے پکڑ کر اور پتھروں سے مارکرہلاک کردیا اسکے بعدتیل کی دولت سے مالامال یہ ملک خانہ جنگی افراتفری انتشار اور عدم استحکام کاشکار ہوکر بدترین ناکام ریاست بن گیا۔
امریکہ نے عراق پر دومرتبہ حملہ کرکے اسے ناکام ریاست میں تبدیل کردیاحالانکہ مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب کے بعد یہ سب سے زیادہ تیل پیدا کرتا ہے۔ مرکزیت ختم ہونے کے بعد عراقی کردوں نے بغاوت کرکے اپنا علاقہ الگ کردیا جہاں وہ نیم خودمختاری کے ساتھ حکومت کررہے ہیں داعش کے بانی ابوبکر کا تعلق بھی عراق سے تھا یہ تنظیم سی آئی اے اور موساد نے مل کر بنائی تھی تاکہ مسلکی تفرقے چھیڑکر مسلمان ممالک کو سیاسی عدم استحکام بدامنی خانہ جنگی اور اقصادی بدحالی کا شکار بنایاجاسکے چنانچہ عراق بھی اس وقت تقریباً ایک ناکام ریاست ہے۔
امریکہ نے سعودی عرب کے تعاون سے شام میں افراتفری پیدا کی اور اسے شدید بدامنی کاشکار بنادیا اس مہم جوئی کا مقصد شیعہ سنی تفرقہ پیدا کرکے شام کو صفحہ ہستی سے مٹاناتھا شروع میں ادلب اور حلب پر داعش کاقبضہ تھا اور وہ شام کا تیل ترکی کے ذریعے فروخت کرتی تھی ترکی نے بھی فرقہ واریت کوفروغ دے کر داعش کی سرپرستی کی لیکن صدراسد نے ایران اور پاکستانی شیعہ رضا کاروں کے تعاون سے داعش، ترکی اور سعودی عرب کوناکام بنادیا ہے اس سلسلے میں روس نے بھی اہم کردارادا کیا صدر پوٹن نے وسیع علاقے پرکارپٹ بمبنگ کرکے داعش اور سعودی حمایت یافتہ دستوں کی کمر توڑدی گوکہ صدر بشارالاسد آج بھی برسراقتدار ہیں لیکن شام ایک ناکام ریاست بن چکا ہے۔ناکام ریاستوں کی فہرست میں پاکستان کا پڑوسی ملک افغانستان بھی شامل ہے۔1978ء سے ابتک اس ملک میں کبھی امن نہیں آیا۔امریکہ نے جنرل ضیاء الحق کے تعاون سے افغانستان میں جونام نہاد جہاد(1990تا1980) شروع کیا اس کے نتیجے میں یہ ملک مکمل طور پر تاراج ہوگیا جب امریکہ فرار ہوا تو پیچھے ایک شدید خانہ جنگی ہوئی جس کی وجہ سے لاکھوں افغان مارے گئے اور ایک ملین سے زائد بارودی سرنگوں کی وجہ سے معذور ہوگئے اس خانہ جنگی کو ختم کرنے کیلئے امریکہ نے ایک بار پھر پاکستان کی مدد حاصل کی اور طالبان تشکیل دیئے طالبان نے اچھا خاصہ رٹ قائم کیا تھا کہ نائن الیون کا سانحہ ہوا جس پر امریکہ نے ایک بار پھر پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف کے تعاون سے افغانستان پر حملہ کرکے تاریخ کی بدترین بمباری کی لیکن القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن بچ گئے اور پاکستان میں آکر چھپ گئے۔
امریکہ نے افغانستان پر باقاعدہ قبضہ کرکے حامد کرزئی کوتخت کابل پربٹھادیا یہ سلسلہ ابھی تک اشرف غنی کی صورت میں برقرار ہے

لیکن امریکہ واپسی کا فیصلہ کرچکا ہے وہ طالبان سے معاہدہ بھی کرچکا ہے
جس کا مطلب یہ ہے کہ طالبان1995-96 کی طرح دوبارہ افغانستان پر طاقت کے زور پر قبضہ کریں گے پاکستانی حکمران لاکھ انکارکریں لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہ ضرور طالبان کی حمایت کریں گے خدشہ ہے کہ طالبان بڑے پیمانے پر قتل وغارتگری کاارتکاب کریں گے جس کے نتیجے میں لاکھوں جانوں کا ضیاع ہوگا پاکستان کی دلچسپی یہ ہے کہ افغانستان سے بھارت کا تعلق ختم ہوجائے۔
لیکن
افغانستان میں مہم جوئی اور دخل اندازی کی وجہ سے خود پاکستان بدترین حالات سے دوچار ہے اس نے پہلے دنیا بھر کے مجاہدین بلائے جنہیں فاٹا میں تربیت دی اور پھر جنگ کیلئے افغانستان بھیجا جولوگ عرب ممالک سے آئے تھے انکی اکثریت واپس نہیں گئی تورہ بورہ کے بعد یہ لوگ بھاگ کر وزیرستان آگئے جس کی وجہ سے وزیرستان تاراج ہوگیا انکی دیکھادیکھی ملافضل اللہ نے سوات پر قبضہ کرکے اپنی حکومت قائم کی سوات اور وزیرستان کودہشت گردی سے پاک کرنے کیلئے پاکستانی حکومت کو طویل عرصہ تک جنگ کا سامنا کرنا پڑا۔
جس کے نتیجے میں ایک سو ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا60ہزار لوگ مارے گئے لیکن خطرات اسی طرح موجود ہیں۔
جنرل ضیاء الحق جو کہ ایک قادیانی تھے اور اپنے مسلک سے تائب ہوگئے تھے انہوں نے اپنی ریڈیکل حکمت عملی کے ذریعے ایسے کام کئے کہ پاکستان کو ناکام ریاست بننے کا خدشہ لاحق ہے انہوں نے پاکستانی عوام کے درمیان1973ء کے عمرانی معاہدہ کو معطل کیا پہلے مارشل لا اور پھر اپنے عارضی آئین کے ذریعے اس ملک کو چلایا اسلام کے نام پر 11 برس تک حکومت کی لیکن اسلامی نظام نافذ نہ کرسکے انہوں نے بھٹو کو پھانسی دے کر سندھی عوام میں نفرت کابیج بویا جو ابھی تک برقرار ہے ضیاؤ الحق نے 1985ء میں آئین کا حلیہ بگاڑ کر اسے بحال کیا لیکن اس سے جو تفرقہ پڑا تھا وہ ابھی تک حل نہ ہوسکا آصف زرداری نے ضیاء الحق کی بیشتر ترامیم کو ختم کرکے18ویں ترمیم نافذ کی جسے موجودہ حکومت ختم کرنے کی کوشش کررہی ہے اسکے نتیجے میں بھی ایک شدید سیاسی ومعاشی بحران پیداہوجائے گا۔پاکستانی حکمرانوں نے بھٹو کے بعد جو پالیسیاں بنائیں وہ تباہ کن ثابت ہوئیں جس کانتیجہ سب کے سامنے ہے سیکیورٹی ریاست کی پالیسی نے ملکی وسائل کو بے دریغ ضائع کیا ہے ملکی ترقی کا پہیہ رک چکا ہے تمام ملکی ادارے ناکامی سے دوچار ہیں پی آئی اے ہو ریلوے ہو واپڈا ہو اسٹیل مل ہوں سارے کے سارے خسارے میں ہیں۔حتیٰ کہ فوج کے زیرانتظام جوادارے ہیں وہ بھی سخت خسارے سے دوچار ہیں بھٹو کا قائم کردہ ہیوی مکینیکل کمپلیکس ٹیکسلا اور ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ اور دیگر اداروں کا خسارہ80ارب روپے کے قریب ہے۔
ریاست کی آمدنی کم اور اخراجات دوگنے ہیں کافی عرصہ سے غیر ملکی قرضوں اور امداد کے ذریعے ریاست کو چلایا جارہا ہے بیڈ گورننس اور مہم جوئی کی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان ایسی اشیاء تیار نہیں کرسکا جن کی دنیا میں مانگ ہو اس کی واحد ایکسپورٹ ٹیکسٹائل کی مصنوعات ہیں لیکن بنگلہ دیش کا حصہ زیادہ ہوگیا ہے پاکستان گندم اور چینی کی پیداوار میں اضافہ کرکے اپنی آمدنی بڑھاسکتاہے۔حکومتوں نے زراعت کو لاوارث چھوڑدیا ہے۔کرپشن اتنا بڑھ گیا ہے کہ کل ملکی آمدنی کا 30فیصد حصہ اسکی نذر ہوجاتا ہے آج تک کسی حکومت نے کوئی ایسا پلان نہیں بنایا کہ قومی آمدنی میں اضافہ کیاجاسکے سیکیورٹی کے اخراجات اتنے زیادہ ہیں کہ کل آمدنی سے ان کا پورا ہونا مشکل ہے چہ جائیکہ ملک کوترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکے ایک بنیادی خرابی یہ ہے کہ تمام معاملات اورتنازعات کے پرامن طریقہ سے حل ہونے کے طریقے نہیں ڈھونڈے جارہے ہیں ڈائیلاگ کو بطورہتھیار استعمال کرنے کی روایت ختم کردی گئی ہے اگر موجودہ حکمرانوں نے آئندہ چند سال تک اپنے بے تحاشہ اخراجات کوکنٹرول نہ کیا آمدنی کے ذرائع نہیں بڑھائے اور حکومت کرنے کا بنیادی فلسفہ نہیں بدلا تو حالات انتہائی سنگین ہوجائیں گے اس وقت رولا یہ ہے کہ 18ویں ترمیم کی وجہ سے وسائل کا زیادہ حصہ صوبے لے جارہے ہیں لیکن وسائل ہیں کتنے؟
اگریہ سارے مرکز کومل بھی جائیں تو اس سے بحران کاخاتمہ ممکن نہیں ہے۔بھارت کے ساتھ جوتنازعات ہیں یاداخلی طور پر جو مسائل ہیں یہ پرامن بقاء باہمی کے اصول پرصرف ڈائیلاگ کے ذریعے ہی حل ہوسکتے ہیں جنگ کا کوئی بھی متحمل نہیں ہوسکتا۔تصور کریں کہ موجودہ حکومت کیسے جنگ لڑسکتی ہے جس کے پاس پٹرول کے ذخائر صرف ایک ہفتہ کیلئے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو پاکستان اس وقت ایک نازک دو راہے پر کھڑا ہے ایک راستہ پر خطر اور ناکامی کا ہے دوسرا امن اور خوشحالی کا ہے لیکن ملکی قیادت میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ اپنی ریاست کو امن اور خوشحالی کی طرف لے جائے وہ اپنے وسائل کے ضیاع کو روکنے کی کوشش نہیں کررہی اگر آئندہ ایک عشرے تک معاملات اسی طرح رہے تو مخالفین کہہ سکتے ہیں یہ بھی ایک ناکام ریاست ہے
اور آخرمیں
لندن میں مقیم پاکستان کے روشن خیالی صحافی شاہد خان نے ایک بلوچ بہن کی اپنے گمشدہ بھائیوں کیلئے دلسوز فریاد پر اپنے سوشل میڈیا پیغام میں لکھا ہے کہ اگر اس بہن کی اپیل اور اسکے درد سے آسمان نہ لرزجائے تو کیاہو؟انہوں نے تلقین کی ہے کہ اسکی بددعا سے ڈور اور اسکے جیسی ہزاروں ماؤں بہنوں اور ننھے

اپنا تبصرہ بھیجیں