پیش مرگہ
انور ساجدی
اسرائیل نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کوباقاعدہ ضم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اسے یہ شہ اس وقت ملی جب صدر ڈونلڈٹرمپ نے امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا یہ عمل اوسلومعاہدہ کی مکمل ناکامی کانتیجہ ہے یہ معاہدہ 13ستمبر1993ء کو ہوا تھا جس پر یاسر عرفات اور اسرائیلی وزیراعظم اسحق ربین نے دستخط کئے تھے معاہدہ کے تحت دربدرفلسطینی عوام کو اپنے وطن واپس آنے کی اجازت ملی تھی اس مقصد کیلئے دریائے غرب اردن کا علاقہ اور غزہ کی پٹی مختص کی گئی تھی اور اسرائیل کے زیرکنٹرول فلسطینی اتھارٹی کے قیام پر اتفاق ہواتھا۔
معاہدہ کے بعد کویت کے امیر جابرالصباح نے تبصرہ کیاتھا کہ یاسر عرفات پہلے کھلے میدانوں کا شیر تھا اب وہ جریکو کے پنجرے میں بند ہوگا اور چابی اسرائیل کے ہاتھوں میں ہوگی۔
فلسطینی اتھارٹی کے قیام کے بعد یاسرعرفات کواسرائیل نے سلوپوائزن دیا اور وہ فرانس میں بے کسی کی موت مر گئے حالانکہ انہوں نے پی ایل او بناکر تاریخ انسانی کی ایک بے مثال جنگ آزادی لڑی تھی اوسلو معاہدہ سے پہلے یاسر عرفات کی سخت سیکیورٹی ہوتی تھی وہ مسلم ممالک کی آنکھوں کاتارا تھے انکے سفر کیلئے خصوصی جیٹ موجود تھا وہ جس ملک میں بھی ہوتے انکی شناخت چھپائی جاتی تھی۔
جون1977ء کو ذوالفقار علی بھٹو اپناتختہ الٹنے سے قبل 6اسلامی ممالک سعودی عرب،لیبیا،کویت،متحدہ عرب امارات،تہران اور کابل کے دورے پر گئے ان کا جوشیڈول ہمیں جہاز میں دیا گیا اس میں یاسرعرفات سے ملاقات بھی طے تھی لیکن صرف اتنا لکھا تھا کہ وہ ایک عرب دارالخلافہ میں ملاقات کریں گے۔20جون1977ء کو جب بھٹو صاحب کویت اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں مقیم تھے تو اچانک یاسرعرفات نمودار ہوئے وہ تیز قدم اٹھاتے ہوئے اس ہال میں داخل ہوئے جہاں بھٹو صاحب منتظر تھے ہمارا وفد باہر کھڑا تھا ملاقات کے بعد جب وہ باہر نکلے تو فارن آفس کے پروٹوکول کونظرانداز کرتے ہوئے میں نے آگے بڑھ کر ان سے ہاتھ ملایا فوری طور پر سیکیورٹی اسٹاف نے میرے گردحصار بنالیا جب وہ چلے گئے تو یہ حصار ہٹ گیا
میں نے یہ رسک اس لئے لیا کہ اس زمانے میں یاسر عرفات بہت پاپولر تھے اور وہ ایک تاریخ ساز گوریلا تھے ان سے ہاتھ ملانے کا مطلب تاریخ سے مصافحہ تھا اور میں یہ موقع کھونا نہیں چاہتا تھا۔چنانچہ میں نے اس سے فائدہ اٹھایا لیکن جب وہ جریکو میں محصور ہوگئے تو اسرائیل نے ان سے بدترین سلوک کیا اسکے ایجنٹوں نے یاسر عرفات کی بیوی ذوہا تک رسائی حاصل کرلی اسکے بعد وہ ان خادمین تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے جو انہیں کھانا دیتے تھے انہیں تین سال تک زہردیا گیا لیکن انکے دونوں ڈاکٹرالبلوشی اور ال کردی یہ پتہ نہ چلاسکے کہ وہ زہرخورانی کا شکارہورہے ہیں۔2004ء میں جب وہ شدید علیل ہوگئے تو اسرائیل نے انہیں باہر جانے کیلئے جہاز نہیں دیا آخر کار امریکہ نے جہاز دیا جس کے ذریعے انہیں پیرس پہنچادیا گیا لیکن وہ جانبرنہ ہوسکے فرانسیسی ڈاکٹروں نے انکشاف کیا کہ انہیں پلونیم 210زہردیا گیا تھا جس سے کوئی جانبر نہیں ہوسکتا اس طرح فلسطینی شیرطویل گوریلا جنگ اور آخر میں پرامن انتفادہ کے بعد اپنے انجام کو پہنچ گئے۔یاسرعرفات کے بعد کوئی بھی انکی جگہ نہ لے سکا جبکہ امریکی دباؤ کے تحت تمام عرب ممالک نے فلسطینی اتھارٹی کے صدر ابوضامن عرف محمود عباس کو یکہ وتنہا چھوڑدیا اور اسرائیلی مظالم پر چپ سادھے رکھی بلکہ سعودی عرب سمیت بیشتر عرب ممالک نے درپردہ اسرائیل سے تعلقات استوار کرلئے مسلمان ممالک کے سرخیل پاکستان نے بھی مشرف کے دورمیں اسرائیل سے باقاعدہ روابط قائم کئے تھے۔انقرہ میں مشرف کے وزیرخارجہ خورشید قصوری نے اسرائیلی وزیرخارجہ سے ملاقات کی تھی اگرچہ بعد میں یہ تعلقات آگے نہ بڑھ سکے لیکن اپنے اقتدار کے شروع میں وزیراعظم عمران خان بھی اسرائیل سے درپردہ تعلقات استوار کرنا چاہتے تھے لیکن مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق آڑے آگئے انہوں نے دھمکی دی کہ اگراسرائیل سے تعلقات قائم کئے گئے تو عوام اس حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے چنانچہ حکومت نے خوفزدہ ہوکر اپنے ارادے ترک کردیئے۔
اب جبکہ اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کو ختم کرکے باقی ماندہ مقبوضہ علاقوں کو ہڑپ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو فلسطینی اتھارٹی کے وزیراعظم نے کہا ہے کہ جلد آزاد فلسطینی ریاست کا اعلان کیاجائے گا اگر انہوں نے ایسا کیا تو ایک نئی جنگ کا آغاز ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ فلسطینی رہنماؤں نے اپنے طور پر اس جنگ کی تیاری شروع کردی ہے گزشتہ دنوں فلسطینی خواتین پر مشتمل فورس کی تصاویر جاری ہوئیں جو کرد پیش مرگہ کی طرح فوجی وردی میں ملبوس ہیں جن کے ہاتھوں میں بندوقیں ہیں اور وہ جنگی نعرے لگارہی ہیں اگرچہ لیلیٰ خالد پہلی خاتون گوریلا کمانڈرتھی جس نے اسرائیل کے طیارے کو اغوا کیا تھا اور اسے دمشق کے ایئرپورٹ پر اتارا تھا لیکن باقاعدہ خواتین پر مشتمل فوج کا پہلا تصور کردوں نے پیش کیا کرد خواتین نے گزشتہ پانچ سالوں کے دوران میدان جنگ میں بہادری کے ایسے جوہر دکھائے ہیں کہ دنیاعش عش کراٹھی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عراق اور شام مل کر بھی داعش کا مقابلہ نہ کرسکے لیکن پیش مرگہ سرمچاروں نے داعش کوزبردست شکست سے دوچار کردیا جس کے نتیجے میں ابوبکر بغدادی کوکرد علاقہ خالی کرکے شام جانا پڑا۔
پیش مرگہ کردی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے موت کیلئے پیشگی تیار یا فدائین کیونکہ پیش مرگہ میں شامل خواتین شائد ہی زندہ سلامت اپنے گھروں کو واپس آئیں اس لئے جب کوئی لڑکی پیش مرگہ میں شامل ہوتی ہے تو پورا گاؤں جشن مناتا ہے اور خواتین شادی کے گیت گاتی ہیں۔
ہالوہلوہالوہلو یہ گیت کردی اور بلوچی میں مشترک ہے
کردوں نے اپنی دوہزار سال کی تاریخ میں بہت سی جنگیں لڑی ہیں لیکن خواتین پر مشتمل فوج کا تصور نیا ہے شائد انہوں نے یہ کام اسرائیل سے متاثرہوکر کیا ہے کیونکہ اسرائیل کی فوج میں خواتین کی بڑی تعداد شامل ہے مستقبل قریب میں فلسطین کی خواتین بھی پیش مرگہ بناکر لڑنے کاعزم رکھتی ہیں خواتین کو گھروں سے باہر نکالنا مجبوری کاکام ہے لیکن تاریخ میں خواتین نے ہمیشہ ناقابل فراموش کردار ادا کیا ہے۔
مثال کے طور پر بلوچستان میں جب نیم جاگیرداری نظام نہیں آیا تھا تو خواتین ہر کام میں مردوزن کے شانہ بشانہ ہوتی تھیں قلات کی خان قلات بی بی بانٹری کے کارنامے مثال کے طور پر پیش کئے جاسکتے ہیں۔لیکن نیم جاگیرداری اور شہروں میں آنے کے بعد بلوچستان کی خواتین بھی چاردیواریوں بند ہوکر رہ گئیں۔زمانہ حال میں جب زیادہ لوگ غالبً ہونے لگے تو مجبوراً انکی ماؤں اور بہنوں کومیدان میں آنا پڑا فرزانہ مجید نے توکئی ہزار کلومیٹر پیدل مارچ بھی کیا۔
لیکن
حال ہی میں حسیبہ قمبرانی نے تو اپنی فریاد سے عرش کوہلادیا لیکن عرش کا وہ حصہ ہلا ہوگا جوبلوچستان کے اوپر ہے باقی علاقوں میں کچھ لوگوں نے پہلی مرتبہ متاثر ہوکر افسوس اورتشویش کااظہار کیا ہے برمش کے واقعہ سے زیادہ حسیبہ کی فریاد نے لوگوں کومتاثر کیا ہے لہٰذا حکمرانوں کومشورہ ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لائیں کچھ صلہ رحمی سے کام لیں ورنہ یہ نوجوان خواتین سڑکوں پر اپنی تذلیل سے بہتر سمجھیں گی کہ وہ بھی اپنی جاں کی بازی لگادیں اگر مظالم کا سلسلہ جاری رہا تو برمش اورحسیبہ کے حالیہ واقعات کے نتیجے میں کہیں کوئی پیش مرگہ نہ بن جائے جب کسی سماج میں مرد بے بس ہوجائیں تو ان کا خلا خواتین پر کریں گی اور خواتین زیادہ بہادر ہوتی ہیں ان کا جذبہ ایمانی مردوں سے زیادہ ہوتا ہے کیونکہ انہیں سیٹ مراعات نالیوں سڑکوں اور گلیوں کی تعمیر کیلئے فنڈز درکار نہیں ہوتے۔
بلوچ کلاسیکل دور سے لیکر عہد جدید تک یہ دور ماہناز اور ملک نازکی کہانی ہے۔
٭٭٭