بی این پی مرکزی حکومت گرانے کے محرک ہو سکتی ہے؟
رشید بلوچ
یوں تو روز رونقیں لگی رہتی ہیں لیکن آج معمول سے ہٹ کر گہما گہمی دیکھائی دے رہی تھی گھر کے آنگن سے لیکر باہر گلی کی نکڑ تک تل دھرنے کی جگہ نہیں مل رہی تھی مجمعے میں تمیز کرنا مشکل ہورہا تھا کہ یہاں ایم پی اے،ایم این اے،سینٹر کون ہیں،میر معتبر اور سردار کون ہیں ایک محدود وقت کیلئے طبقاتی اونچ نیچ بلکل یکساں نظر آرہا تھا، ہاں البتہ غریب و امیر کا فرق پچ او پوشاک سے جانچا جا سکتا تھا،میڈیا کیمرے گھر کے ایک خاص حصے میں لگائے گئے تھے،گھر میں داخل ہوتے ہی سیدھے رخ بنے کمرے کے دروازے پر پہراہ داری بڑی سخت تھی اسکا مطلب یہ تھا کہ مخصوص کمرے میں کسی بھی خاص وعام کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے، کمرے کے اندر کی صورتحال سے باہر کے لوگ بلکل انجان تھے لیکن اتنا ضرور سمجھا جاسکتا تھا کہ کمرے کے اندر کچھ خاص نوعیت کا کام سرانجام دیا جارہا ہے،اس دوران کچھ جانے پہچانے لوگوں نے کمرے کے اندر جھانکنے کی کوشش کی لیکن سب بے سود،تمام لوگ ٹولیوں میں کھڑے کھسر پسر کر رہے تھے،ایسا نظارہ ہم نے 2013 میں ایم پی اے ہاسٹل میں بھی دیکھا تھا جس وقت ڈاکٹر مالک بلوچ کو وزیر اعلی بلوچستان کے طور پر ن لیگ اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے نامزد کیا تھا یہاں بھی ہوبہو مناظر وہی تھے جو ایم پی اے ہاسٹل میں 5 سال پہلے دیکھے جاسکتے تھے،یہاں صرف جھنڈیوں کی رنگت اور کیلنڈر کی تاریخ مختلف تھی ، جیسے جیسے وقت گزرتا گیا لوگوں میں بے چینی بڑھتی گئی، کافی وقت گزر چکا تھا آہستہ آہستہ لوگوں کے چہرے رونق کی جگہ تھکاوٹ،اکتاہٹ میں بدلنے لگی تھی،لوگوں میں انگڑائی،جمائی جیسی کیفیت غالب آنے لگی تھی کہ اچانک شور شرابہ ہوا،ہٹو بچو کی آوازیں آنے لگیں،سب لوگ سنبھلنے لگے،ڈیوٹی پر معمور چاک و چوبند عملے نے مجمعے کو چیر کر رستہ بنا دیا،ہارن بجاتی گاڑیاں گھر کے آنگن میں داخل ہوکر سیدھے مخصوص کمرے کے سامنے کھڑی ہوگئیں،پلک جھپکتے ہی تین اہم سیاسی شخصیات گاڑی سے اتر کر مخصوص کمرے میں داخل ہوجاتے ہیں،ایک بار پھر جمائی لینے والے چہروں پر تازگی لوٹ آتی ہے،آپس میں سر گوشیاں دوبارہ شروع ہوجاتی ہیں،ایک تھکا دینا والا انتظار کے بعد مکران ہاؤس کے مخصوص کمرے سے سردار اختر مینگل،شاہ محمود قریشی،جہانگیر ترین،ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی اور سردار یار محمد رند مسکراتے ہوئے نمودار ہوجاتے ہیں، سردار اختر مینگل کے ہاتھوں ایک سنگل صفحے کا کاغذ نظر آتا ہے جس پر شاید کچھ لکھا ہواہے،اسکے بعد یہ عقد کھلتا ہے کہ کاغذ پر درج 6 نکات پر مشتمل چارٹر آف ڈیمانڈ ہے جس کے عوض بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل تحریک انصاف کی حمایت کا اعلان کر تے ہیں۔
6 نکات کو لیکر بی این پی اور سردار اختر مینگل پر نیشنل پارٹی اور ریڈیکل پارٹیز کے علاوہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے حامی لکھاری کافی تنقید کرتے رہے لیکن سردار اختر مینگل اپنے اوپر ہونے والی ہرتنقید کا جارحانہ انداز میں ہمیشہ دفاع کرتے رہے،ایک جلسے میں انہوں نے سابقہ حکومتوں پر کافی شگان وبہتان کیا،سردار اختر مینگل کہتے رہے کہ اگر میرے 4 ووٹ کے بدلے ایک لاپتہ بلوچ بازیاب ہوجاتا ہے تو سمجھوں گا کہ میں نے اپنا حق ادا کردیا۔۔۔عمران خان حکومت بننے کے شروع دنوں میں چند ایک لاپتہ افراد کی بازیاب ہوئے،بقول سردار اختر مینگل 418 لاپتہ افراد کی بازیابی ہوئیہیں،سردار اختر مینگل کسی حد تک سمجھ رہے تھے کہ عمران حکومت پر دباؤ برقرار رکھ کر 6 نکات کے کچھ نہ کچھ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے لیکن ایسا ہوا نہیں،تحریک انصاف کی حکومت نے 6 نکات سے متعلق ہمیشہ اپنا یہ موقف یہ رکھی تھی کہ بلوچستان کے بعض معاملات سیکیورٹی سے جڑے ہوئے ہیں وہ براہ راست انکے حل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتی،عمران خان کی خواہش رہتی تھی کہ بی این پی کو ایک آدھ وزارت دیکر 6نکاتی“ سر درد“ سے جان خلاصی کی جائے لیکن بی این پی ان 6 نکات کے دائرے سے باہر کوئی بھی پیشکش ماننے سے ہمیشہ انکار کرتی رہی، اس دوران ایک موقع ایسا بھی آیا تحریک انصاف نے سردار اختر مینگل کو چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر باجوہ سے براہ راست میٹنگ کرانے کا فیصلہ کیا سردار اختر مینگل کو چیف آف آرمی اسٹاف سے ملاقات کرنے کا پیغام پہنچا دیا گیا لیکن کسی وجہ سے طے شدہ ملاقات نہیں ہوسکی، یہ ملاقات کیوں نہ ہوسکی اسکی وجوہات کیا تھیں یہ عقد ابھی تک کھلا نہیں البتہ سردار اختر مینگل نے اسکی وجوہات مکران میں ہونے والے ضمنی الیکشن کو قرار دیا اس وقت واقعاتاً سردار اختر مینگل مکران میں موجود تھے وہ اپنے پارٹی امیدوار کی الیکشن مہم میں مصروف تھے، ناقدین سمجھتے ہیں کہ سردار اختر مینگل ایک دو دن کیلئے الیکشن مہم چھوڑ چاڑ کر پنڈی جاسکتے تھے اور شاید لاپتہ افراد کے معاملے پر کسی قسم کا راستہ نکل پاتا بہر حال معاملات کچھ بھی ہوں لیکن ایک طے شدہ ملاقات ہو نہ سکی،بعض مبصرین کا خیال ہے کہ 6 نکات میں سے لاپتہ افراد کی بازیابی اور افغان مہاجرین کی واپسی شاید عمران حکومت کی دسترس میں نہ ہولیکن باقی چار مطالبات آسانی سے پورے کیئے جا سکتے تھے لیکن دیگر 4 نکات پر بھی تحریک انصاف حکوت غیر سنجیدہ ہی رہی،عمران خان بلوچستان عوامی پارٹی اور بی این پی کو ایک لاٹھی سے ہانکنا چارہے تھے۔
2019 کے شروع دنوں کی بات ہے اسلام باد میں میڈیا سے متعلق ایک پروگرام میں فواد چوہدری مدعو تھے پروگرام کے اختتام پر چائے کے ٹیبل پر ہم چند دوستوں نے فواد چوہدری سے رسمی علیک سلیک کے بعد پوچھا تھا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی آپ کی حکومت سے گلہ مند ہے، آپ اپنی تحریری معاہدہ پورا نہیں کر رہے،کہنے لگا سردار اختر مینگل جانے اور معاہدے پر دستخط کرنے والے شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین جانیں،میں زاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ سردار اختر مینگل سے جان چھڑائی جانی چاہئے ساتھ ہی مسکرا کر کہا (یہ بات آف دی ریکارڈ ہے)۔
بلوچستان نیشنل پارٹی 22ماہ تک تحریک انصاف کے اتحادی رہے ان 22مہینوں میں متعدد بار سردار اختر مینگل کو مر مرکز میں ایک،دو وزارتیں دینے کی آفر دی گئی اس دوران بی این پی کی سینٹرل کمیٹی کے چند لوگوں نے وزارتیں لینے کی خواہش کا اظہار بھی کیا لیکن سردار مینگل قائل نہیں ہوئے جب بلوچستان حکومت بننے جارہی تھی تب بھی بی این پی کو بلوچستان کابینہ میں شامل ہونے کی کھلی آفر کی گئی لیکن یہاں بھی سردار مینگل جھانسے میں نہیں آئے حالانکہ بی این پی کے ایم پی ایز کی اکثریت کی خواہش تھی کہ وزارتیں لے لینی چاہئیں بلکہ کچھ ایم پی ایز نجی محفلوں میں اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کرتے رہے،ایک ایم پی اے فرت جزبات میں بہہ کر کہنے لگا ہم نے کونسا انقلاب برپا کرنا ہے وزارتوں میں رہ کر ووٹر ز کو خوش رکھنا ہے سائیں رکاوٹ بن رہے ہیں۔
بلوچستان نیشنل پارٹی نے ایک ایسے وقت میں تحریک انصاف سے علحیدگی اختیار کی ہے جہاں نہ صرف ق لیگ اور ایم کیو ایم ناراض ہیں بلکہ پارٹی کے اندر بھی کافی حد تک ٹوٹ پھوٹ ہے،پارٹی کے سینئر اور با اثر سمجھے جانے والے شاہ محمود قریشی کافی عرصے سے خاموشی اختیار کیئے ہوئے ہیں ایک حساب شاہ جی گوشہ نشین ہوگئے ہیں،جہاز والے بابا بھی شوگر اسکینڈل کے بعد خفا ہوکر لندن عازم سفر ہو چکے وہ لندن پہنچ کر سیدھا نواز شریف کے دربار پر حاضری دے گئے ہیں انکا نوز شریف سے ملنا بھی ایک طرح سے خان جی کو تر چی نگاہوں سے کچھ خاص قسم کا پیغام پہنچانا ہے،پیچھے رہ جاتے ہیں حکومتی پلے بوائے مراد سعید جنہوں نے ایک سو ارب ڈالر کا بنڈل آئی ایم ایف کے منہ پر دہ مار کے اسکی بتیسی تڑوا دی ہے اب اپوزیشن کے دانت کٹے کرنے کے ساتھ ساتھ اتحادیوں کو بھی منا لے گا۔
جس دن سردار اختر مینگل حکومتی اتحاد سے الگ ہونے کا اعلان کر رہے تھے اسی وقت وزیر اعظم ایم کیو ایم کی ناز برداری کیلئے کراچی میں موجود تھے،ایم کیو ایم اپنے لاپتہ افراد کی بازیابی کاکارڈ دیکھا کر ایک وزارت اور کچھ مراعات سمیٹنے کے بعد رضا مند ہوجائے گی لیکن کمزور عمران خان کو اصل چیلنج چوہدری برداران کی جانب سے درپیش ہوگا،چوہدری برادران موقع کی نزاکت سے فائدہ اٹھا نے کا گر خوب جانتے ہیں،گجراتی بھائی اپنے بیٹے مونس الہی کے نیب کرپشن کیسز ختم کروالیں گے لیکن انکا سب سے بڑا ہدف پنجاب کی وزارت اعلی حاصل کرنا ہے اس سے قبل گجراتی بھائیوں نے مولانا فضل الرحمان کی اسلام باد دھرنے کے دوران حکومتی مشکلات دور کرانے کے عوض وزارت اعلی کیلئے عمران خان پر دباؤ ڈالا تھا عنقریب چوہدری پرویز الہی وزیر اعلی بن جاتے اگر مولانا صاحب ایک فون کال کے بعد آسرا لیکر اپنے بوریا بستر گول نہ کرتے، گجراتی بھائیوں کو پنجاب کی حد تک مقتدرہ کا تعاون حاصل ہے ایک بار پھر عمران خان پر پنجاب کی وزارت اعلی کیلئے چوہدری بھائیوں کا دباؤ پڑے گا اگر چوہدری بردارن پنجاب کی وزارت اعلی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو آنے والے وقت میں پنجاب سے پی ٹی آئی کا صفا یا ہوجائے گا،جو لوگ آج پی ٹی آئی سے وابستہ ہیں آہستہ آہستہ چوہدری برادران کی جانب کھسکتے جائیں گے، اس بات کا عمران خان کو بخوبی ادراک بھی ہے،اگر چوہدری برادران کی وزارت اعلی کی خواہش پوری نہ ہوئی تو بہ دیر یا بزو رچوہدری بھائی عمران خان کی بوسیدہ حکومتی دیوار سے حمایت کی اینٹ کھینچ لیں گے اسکے بعد نہ رہے گا بانس نہبجے گی بانسری،ایک حساب سے سردار اختر مینگل عمران خان کی حکومت گرانے کا اصل محرک ثابت ہو سکتے ہیں