مکران اور منشیات

تحریر:: ظفر عیسئ آزاد

میں نے ان کو کئی سالوں کے بعد 5 برس پہلے دیکھا تھا،وہ میرا دوست تھا،ہم ایک ساتھ پڑھتے تھے اسکول میں مدرسے میں بھی،
وہ بلا کا ذہین لڑکا تھا،جب ہم نے پارہ ایک ساتھ پڑھنا شروع کیا تو میرے 4 ورق مکمل نہیں تھے کہ انہوں نے آدھا سیپارہ ختم کیا ہوا تھا،
وہ اسکول میں میرے مقابلے کا لڑکا تھا، ہر سال تیسری پوزیشن حاصل کرتا تھا،اسکول کے آخری 3 سالوں میں اتنی محنت کی کہ وہ میرے مقابلے پہ آں کھڑا ہوا،انہوں نے مجھے چیلنج کیا ہوا تھا کہ "دشتی”اس سال آپ کی فرسٹ پوزیشن کو میں ہی چھین لونگا،اس دھمکی کا اتنا اثر تھا کہ میں رات کے آخری پہر نیند سے بیدار ہوکے اپنا سبق یاد کرنے لگا کہ کہیں میرے 4 سالہ ریکارڈ توڑ نہ دے،
وہ انتہائ انہماک سے اپنی تعلیم پر دھیان دے رہا تھا،جب آٹھویں کلاس کے امتحانات کے رزلٹ آگئے تو میں اپنی پوزیشن بڑی مشکل سے برقرار رکھ سکا،اللہ نے میری عزت کی لاج رکھ لی،وہ صرف 18 نمبروں سے پیچھے ہوکے دوسری پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکا،

کالج کے زمانے سے ہماری راہیں جدا ہوگئیں، وہ پڑھائی میں اور میں اپنے کاروبار میں مصروف ہوگیا،انہوں نے بی اے سیکنڈ ڈویژن سے پاس کیا،آگے غربت کی وجہ سے تعلیم حاصل نہ کرسکا،وہ انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا،ان کی خواہش تھی کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ماں باپ کا سہارہ بنیں گے،
5 برس پہلے وہ نارمل انسان تھا،بیروزگاری سے تنگ لیکن سماجی برائیوں سے کوسوں دور ایک ہٹا کھٹا نوجوان، معاشرے میں رائج عیبوں سے انہوں نے اپنا دامن بچائے رکھا تھا،
ان کی شکایت تھی کہ نوکری کیلئے دربدر پھر رہا ہوں کوئی پوچھنے والا نہیں،میں ہر بار ان کو دلاسا دیتا رہا کہ اپنی کوششوں کے ساتھ چھوٹی موٹی کام کرتے رہیں تاکہ نان شبینہ کے محتاج نہ ہوں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بہتر ہے کہ محنت مزدوری کرکے اپنا گزر بسر کرلیں،
وہ میری بے پناہ عزت کرتا تھا،میری باتوں کو انہماک سے سنتا اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتا رہتا،
شب و روز راکٹ کی تیزی سے گزرتے جا رہے تھے۔ان 5 برسوں میں معاشرے میں کئی نئی برائیاں تیزی سے سراہیت کرچکی ہیں

،لوگ ایک دوسرے سے دور،ذر و زمین کی ہوس نے حلال حرام کی تمیز کو ناپید کردیا تھا،ہر کوئی مال(پیسہ،زمین) بنانے کی تگ و دو میں جھت گئے،جب معاشرے سے حلال حرام کی تمیز ختم ہوجاتی ہے تو ہر ناجائز کام،ہر برائ آسان لگتا ہے،پچھلے 8 برسوں میں مکران میں بڑی تباہی آچکی ہے،جھوٹ ،فریب ،دھوکہ دہی، قتل و غارت زمینوں پہ قبضہ معمول کے واقعات بن چکے ہیں،
مکران جو کبھی پیار و محبت امن و آتشی کا مرکز ہوا کرتا تھا۔آج تاریکیوں نے،نفرتوں نے عداوتوں نے ڈیرے جمائے رکھا ہے،
ان معاشرتی برائیوں کے علاوہ مکران میں جو سب سے بڑی تبدیلی آچکی ہے وہ ہے منشیات کا تیزی سے پھیلائو،جو 100 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے،آج مکران کا کوئی ایسا علاقہ نہیں جہاں منشیات آسانی سے دستیاب نہ ہو،آپ کو مکران کے تینوں آضلاع کے ہر قصبہ و دیہات ہر شہر میں منشیات آسانی سے مل جاتی ہے،آج میں نے اپنے ہونہار دوست کو اپنے محلے کی گلی میں گونی(بوری) اٹھائے کچرا چنتے دیکھا تو حیران و ششدر رہ گیا،
صوم و صلات کا پابند نوجوان انتہائ میلے کچیلے کپڑوں میں سر کے بالوں پہ ڈھیر ساری مٹی جمتے دیکھ کر آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے،ان کو جب قریب بلایا تو میرے پائوں سے زمین سرکنے لگا،وہ منشیات کا عادی بن چکا تھا،شیشہ،کرسٹار،تریاک سب کا عادی بن چکا تھا،ان کے مطابق وہ 1 سال سے منشیات کی طرف راغب ہونے لگا تھا،کیونکہ اس کے شہر ہی میں منشیات آسانی سے اور سستے داموں ملتی تھی،ان کے بقول شروع میں وہ ان سے دور بھاگتا تھا،ان چیزوں سے نفرت کرتا تھا، لیکن آہستہ آہستہ وہ منشیات کے قریب ہوتا گیا،آج معاشرے کا ایک محنتی،قابل و کارآمد نوجوان اپنے گھر،اپنے محلے اورمعاشرے کیلئے ناسور بن چکا ہے،
اس کا زمہ دار کون ہے؟کیوں ہمارے معاشرے میں نان مشکل سے اور منشیات گھر کے دہلیز پہ آسانی سے دستیاب ہے،؟
منشیات کے تدارک کیلئے اگر تیزی سے قدم نہیں اٹھایا گیا تو اگلے پانچ برسوں میں کوئ گھر ایسا نہیں ہوگا جہاں منشیات کے عادی فرد موجود نہ ہوں،
کون ہیں یہ لوگ جو اپنی دنیوی آسائشوں کیلئے کسی اور کی دنیا اجاڑ رہے ہیں،جو اپنی پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے کسی ماں کی کوکھ کو اجاڑ رہے ہیں،ماں کے لختِ جگروں کو ویرانیوں کی طرف دھکیل رہے ہیں،اس معاشرتی بگاڑ کو سدھارنے کیلئے میرے نوجوانوں کو آگے آنا ہوگا،اس معاشرتی ناسور کو مزید پھیلنے سے روکنے کیلئے میرے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو قلم اٹھانا ہوگا،قدم اٹھانا ہوگا،
اس معاشرتی برائ سے سماج کو پاک کرنے کیلئے انتظامیہ کو متحرک ہونا پڑے گا،
ہمیں اپنا مکران بچانا ہے،
مجھے اپنا شہربچانا اور مجھے اپنے ہی گھر کو بھی بچانا ہے،،
ہم سب نے اپنے دوستوں کو بھائیوں کو اور اپنے معاشرے کو اس ناسور سے بچانا ہے،

اپنا تبصرہ بھیجیں