ڈاکٹر کہورخان سیاست کے آئینے میں۔
عبدالرحیم ظفر
ہم نے کافی عرصہ سے اخباری کالم لکھنا موقوف کیا ہوا تھا اور جب سے موبائل فون کا استعمال سیکھاہے اخبار پڑھنا بھی جو بقول ڈاکٹر کہور صاحب کے ہماری ضرورت نہیں مجبوری تھی بھی ہم سے چھوٹ چکا تھا۔
بھلا ہوہمارے پرانے کلاس فیلو دوست عبداللہ بلوچ کا جس نے ہمیں ایک ویڈیو کلپ بھیجا جس میں ہمارے محترم سابقہ بی ایس او کے چیئرمین اور حالیہ ریٹائرڈ بیوروکریٹ ڈاکٹر کہور خان جو بلوچ بھی ہے کاایک لائیو انٹرویو تھا جس کو بلوچستان کے نوجوان ابھرتے ترقی پسند صحافی عابد میر نے ریکارڈ کیا تھا۔یہ تقریبا آدھ گھنٹے کے سوال جواب کا سیشن تھا جس میں نوجوانوں کے بھیجے ہوئے سوالوں کو عابد میر ڈاکٹر کہور سے پوچھتے تھے اور ڈاکٹر صاحب ان کا مدلل مفصل عالمانہ انداز سے جواب دیتے۔لیکن کچھ ایسے چھبتے ہوئے حقائق پر مبنی سوال بھی تھے جو ڈاکٹر صاحب جواب دینے کے باوجود ان کو مطمئن نہ کرسکے۔ مثلا بی ایس او کی تاریخ کارکردگی اور پھر اختلافات کی وجوہات کے سوال کو گول کرتے ہوئے اپنے دور کے قصے کہانیاں شروع کردیں جو ہم سمجھتے ہیں یہ بد نیتی ہے جس کو بلوچی میں "وش نہ یتکی”کہتے ہیں۔
بلوچی زبان کے ایک محقق مدبر عالم فاضل شخص سید ظہور شاہ ھاشمی کا ایک مشہور قول ہے کہ ” سچیت وٹ و جش انت تیل نام چراغ ء روک انت "
یعنی بوجھ بتی اور تیل پرہے لیکن ان کو یکسر نظرانداز کرکے لوگ کہتے ہیں کہ چراغ روشن ہے یہ نہیں دیکھتے کہ اگر وَٹ اور تیل نہ ہو تو چراغ کسی بھی کام کا نہیں۔۔اسی طرح جس ڈاکٹر کہور بی ایس او کا روشن چراغ بن گیا تھا اس کو روشنی دینے والے بنیادی لوگوں کا اگر مختصراً بھی ذکر فرما تے جنہوں نے بہت ہی نامسائد حالات میں بی ایس او کی بنیاد رکھ دی تھی تو زیادہ معتبر ٹھہرتے۔پھر بی ایس او اینٹی سردار ڈاکٹر کہور کے دور سے بہت پہلے 1967 میں بن گئی تھی اور اس کے بننے کے تمام تاریخی عوامل اور وجوہات کا ڈاکٹر کہور کو اچھی طرح علم ہے لیکن جان بوجھ کر ان کو گول کردیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ بی ایس او کے صرف تین نشان رازق۔۔جالب۔کہور خان۔باقی جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹادو۔ ایک اور لیکن اہم سوال کے جواب میں فرما تے ہیں کہ ملازمت اس کی ضرورت نہیں تھی بلکہ مجبوری تھی۔ کیا مجبوری تھی یہ بھی گول کرگیا۔اس کا یہ مطلب نکالا جاسکتا ہے کہ یہ نوکری کرنے میں اس کو کسی طاقت ورگروپ تنظیم یا شخصیت نے مجبور کیا تھا ورنہ اس کے معاشی حالات مستحکم تھے۔لیکن کہور صاحب ایک سیاسی شخصیت تھے جس کے پیچھے بلوچ نوجوانوں کی طاقت تھی اس کو کون مجبور کرسکتا تھا۔۔لیکن حالت جنگ میں آگے بڑھنا اول دستے کی مجبوری ہوتی ہے۔کیونکہ پسپائی کی صورت میں اپنے ہی گولی مار دیتے ہیں۔۔بہتر یہ ہے کہ آگے بڑھو اس سے پہلے کہ دشمن گولی مار دے،ہینڈز اَپ ہوکر ہتھیار ڈال دو اور جنگی قیدی بن جاؤ۔ ہوسکتا ہے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ایسی کوئی مجبوری ہو۔خیر اس کو پوشیدہ رکھنا اس کا استحقاق ہے۔
بی ایس او کے جو تین نشان تھے ان میں دو رازق اور جالب مرحومین جو ڈاکٹر کہور کے بتائے ہوئے ترقی پسند نظریہ پر یقین رکھتے تھے لیکن معلوم نہیں کہ ان کی کیا مجبوریاں تھیں کہ انہوں نے اچانک پینتھرا بدلتے ہوئے جالب نے ایک بڑے سردار کی پارٹی میں پناہ لے لی اور رازق آخری عمر میں وزیر اعلی جام یوسف کا مشیر بن بیٹھا لیکن تیسرا ڈاکٹر کہور صاحب ان سے زیادہ تیز نکلے وہ سیدھا اصلی آقاوں کے صف میں شامل ہوگئے اور بڑے مزے سے 30 تا 35 سال اپنی اس مجبوری سے بھر پور فائدہ اٹھاتے رہے کیونکہ وہ جنگی قیدی بن چکے تھے جن کے بین الاقوامی قانون کے مطابق کچھ حقوق ہوتے ہیں۔ چونکہ رازق اور جالب نے پسپائی اختیار کرتے ہوے چھوٹے آقاؤں کے پاس پناہ لے لی اس لئے وہ بیچارے بیدردی سے مارے گئے۔۔یہ نہیں معلوم کہ وہ اپنے سپاہیوں کے ہاتھوں مارے گئے یا بڑے آقاؤں نے غصے میں انہیں ماردیا۔ڈاکٹر کہور بلوچ صاحب ایک عالم فاضل جہاں دیدہ شخص ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میڈیا کے توسط سے کیسے زندہ رہا جاسکتا ہے۔لیکن اگر وہ سمجھتا ہے کہ وہ عملی سیاست میں بھی کوئی کردار ادا کرسکتا ہے خدا کرے ایسا ہو لیکن پچھلے تجربات کی روشنی میں مجھے مشکل نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر کہور صاحب کو یاد ہوگا جب غالباً 1990 کے الیکشن میں اس نے گوادر کے صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر کاغذات نامزدگی جمع کراے تھے۔میں بھی اسی نشست پر جمہوری وطن پارٹی کا امیدوار تھا۔جب ہمیں پتہ چلا کہ ڈاکٹر صاحب کاغذات کی جانچ پڑتال کے لئے گوادر پہنچ چکے ہیں تو ہم نے ڈاکٹر کہور صاحب سے رابطہ کیا اور اس کو الیکشن کے سلسلے میں گفت و شنید پر آمادہ کیا۔ شام کو وہ ہمارے پاس کہدہ محمد اکبر کے مرغی خانے میں تشریف لائے۔۔گوادر کی بااثر شخصیات میر غفور،کہدہ محمد اکبر اور ملا غلام رسول کی موجودگی میں میں نے ڈاکٹر صاحب کو پیش کش کی کہ اگر وہ سنجیدگی سے اس سیٹ پر الیکشن لڑنا چاہتے ہیں تو میں اس کے حق میں دستبردار ہونے کیلئے تیار ہوں تاکہ ہمارے ووٹ منقسم ومنتشر نہ ہوں اور ہم ان عناصر کو شکست دے سکیں جنہوں نے اپنی مذہبی ووٹوں کی بنیاد پر اس سیٹ کو یرغمال بنایا ہواہے۔ہمارا مقابلہ ذکری کمیونٹی کے پیشوا ملا داد کریم سے تھا۔ شام کو ڈاکٹر کہور صاحب نے ہماری اس تجویز سے اتفاق کیا۔دوسرے دن صبح جب میں دستبرداری کے لیئے ڈی سی گوادر کے دفتر پہنچا تو وہاں پہلے سے ملا داد کریم اور کہدہ عصا اپنے خاص مریدوں کے ساتھ موجود تھے۔ ڈی سی غالبا ًمرحوم صغیر تھے۔ حال احوال کے بعد جب میں نے ڈی سی جو کہ ریٹرننگ آفیسر بھی تھا اپنی دستبرداری کے بارے میں زبانی بات کی تو اس نے پوچھا کس کے حق میں آپ دست بردار ہونا چاہتے ہیں میں نے کہا ڈاکٹر کہور صاحب کے حق میں۔وہ سب مجھ پر ہنسنے لگے اس سے پہلے کہ ڈپٹی کمشنر مجھے جواب دیتے کہدہ عصا مرحوم نے کہور کو ایک موٹی گالی دیتے ہوے کہا ظفر صاحب پہلے اس کا پتہ تو لگاو وہ صبح صبح اپنے کاغذات واپس لیکر چلا گیاہے اب تو وہ کراچی بھی پہنچ چکا ہوگا۔ ہمارے مرید کو اتنی جرات نہیں کہ ہمارے مقابلے میں الیکشن لڑے۔ڈاکٹر کہور بلوچ صاحب!۔۔ اس ملک کی سیاست کیلئے دل گردہ چاہئے۔آپ نے ایک موقع ضائع کیا۔۔دوسرا موقع آپ کی سیاست کرنے کا وہ تھا جب آپ بی ایس او کے چیئرمین تھے اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد آپ کے پیچھے تھی اور ان کا نعرہ تھا ” تئی جان منی جان۔کہور خان کہور خان” لیکن اس شہرت کو لات مارکر آپ نے جنگی قیدی بننا پسند کیا۔جن ترقی پسند سوشلسٹ بنیادوں پر ڈاکٹر کہور صاحب سیاست کرنا یا سیاسی پارٹی بنانا چاہتے ہیں وہ لٹ خانے کے دور سے لیکر سب سے
بڑے مارکسسٹ نواب خیر بخش مری کے آخری دنوں تک چلتے رہے لیکن بلوچستان میں پذیرائی حاصل نہیں کرسکے۔اب زمینی حقائق تبدیل ہو چکے ہیں۔ پاک شفاف سیاست کو گالی بنادیا گیا ہے۔ بلوچستان میں دو متوازی مسلح گرہ سرگرم عمل ہیں۔ ایک سرمچاروں کا اور دوسرا حکومتی ڈیتھ اسکواڈ کا وہ بھی بلوچوں پر مشتمل گروہ ہے۔ ایک طرف کنواں ہے اور دوسری طرف کھائی۔پھر بھی اگر ڈاکٹر کہور بلوچ صاحب اپنی خدادا صلاحیتوں اور بے انتہا زہانت سے ان دونوں کے بیچ راستہ نکال سکتے ہیں تو سو بسم اللہ ہماری تمام ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں۔