یونیورسٹی آف تربت نے صوبے میں جامعات سے متعلق رینکنگ مسترد کر دی

تربت:یونیورسٹی آف تربت کے ترجمان نے گزشتہ دنوں ایک غیراہم اور غیرمعروف ادارے کی جانب سے بلوچستان میں یونیورسٹی رینکنگ سے متعلق تربت یونیورسٹی کے بارے میں جاری کردہ غیرمصدقہ اعدادوشمار اور رینکنگ کو یکسرمستردکرتے ہوئے کہاہے کہ مذکورہ ادارے نے اپنے رینکنگ میں تربت یونیورسٹی سے متعلق چند سال پرانے اعدادوشمار کا حوالہ دیاہے جب یونیورسٹی آف تربت، بلوچستان یونیورسٹی کا ایک سب کیمپس ہواکرتاتھاجس کی واضح مثال رینکنگ میں دی گئی طالب علموں کی انرولمنٹ اور تعلیمی شعبہ جات کی تعداد ہے کیونکہ مذکورہ ادارے کی جانب سے جاری کردہ رینکنگ میں تربت یونیورسٹی کی طالب علموں کی تعداد صرف 250اورتعلیمی شعبہ جات کی تعداد صرف تین دی گئی ہے جبکہ موجودہ دورمیں تربت یونیورسٹی کے مین کیمپس کے علاوہ دو سب کیمپسزگوادر کیمپس اور پنجگورکیمپس میں تین ہزارسے زائد طلبہ و طالبات 13مختلف تعلیمی شعبہ جات کے 23پروگرامزمیں زیرتعلیم ہیں، یہ امر قابل ذکر ہے کہ تربت یونیورسٹی کو بلوچستان میں یہ اعزازبھی حاصل ہے جس نے اپنے قیام کے چند سالوں کے اندرمختلف تعلیمی شعبہ جات میں بی ایس اور ماسٹرپروگرامز کے علاوہ تین شعبہ جات میں ایم فل اور ایم ایس پروگرام کا اجراء کیاہے،ترجمان نے اپنے بیان میں مزید کہاہے کہ مختصر مدت میں تربت یونیورسٹی کی کامیابیوں کو ہائرایجوکیشن کمیشن سمیت نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک بھر کی مختلف حلقوں میں سراہا جارہا ہے، تربت یونیورسٹی پبلک سیکٹر میں بلوچستان کی دوسری بڑی جنرل یونیورسٹی ہے جس کا شمارپاکستان کی تیزی کے ساتھ ابھرتی ہوئی بہترین یونیورسٹیوں میں ہوتاہے، ترجمان نے کہا کہ پاکستان میں یونیورسٹیوں کی رینکنگ جاری کرنے کی مجاز اتھارٹی ہائرایجوکیشن کمیشن اسلام آبادہے، انہوں نے کہا ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں دو کامیاب کانووکیشن کا انعقاد، مکران ڈویژن میں دو سب کیمپسزگوادرکیمپس اور پنجگورکیمپس کا قیام،اساتذہ کی ایک بڑی تعدادکوپی ایچ ڈی کے لئے ملک اور بیرون ملک بھیجنا اور حال ہی میں ہائرایجوکیشن کمیشن اور وفاقی سینٹرل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی(سی ڈی ڈبلیوپی)سے تربت یونیورسٹی کی سیکنڈ فیز کی منظوری، یونیورسٹی کے فرسٹ فیز کے مقررکردہ اہداف کے بروقت حصول اور اس کی بے مثال کامیابیوں کا منہ بولتاثبوت ہے، اس کے علاوہ اپنی ہم عصر یونیور سٹیوں سے تربت یونیورسٹی کافی آگے ہے، ترجمان نے کہا کہ تربت یونیورسٹی اس ریجن کا مادرعلمی اور قومی اثاثہ ہے لہٰذا حقائق کو مدنظررکھتے ہوئے اس کے متعلق خودساختہ اوربے بنیاد اعدادوشماراورغیرمصدقہ خبروں پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں