بلیک ہول

انور ساجدی
پاکستانی سیاست کا ایک ہی محور اور مدار ہے اس ریاست کی تمام اشیاء سیاستدان اور سیاسی جماعتوں سمیت اسی مدار میںگشت کرتے ہیں72سال سے سیاسی استحکام نہیں ہے کبھی کوئی ستارہ چمکتا ہے اور کبھی دوسرا ہر دوتین سال بعد یہ گردشی ستارے بلیک ہول میںگرکر ختم ہوجاتے ہیں لگتا نہیںکہ تمام سیارے اپنے اپنے مدار میںواپس آجائیںگے لہٰذا کھیل جاری رہے گا پہلے کرونا نے سیاست کونرم کردیا تھا لیکن اخترمینگل کی حکومت سے علیحدگی اورجسٹس فائز عیسیٰ کیس کے فیصلے نے اسے دوبارہ گرمادیا ہے جب سے سردار اختر نے تحریک انصاف کی حکومت کو خیرباد کیا ہے سوشل میڈیا پر پنجاب کے اہل دانش نے انہیں دوبارہ غدار بلوچی لیڈرکہنا شروع کردیا ہے اگرسردار صاحب نے بجٹ کی منظوری سے پہلے اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کیا تومخالفین آسمان سرپراٹھائیںگے آج تک ہمارے اہل دانش اورمقتدرہ کے زعما یہ فرق نہیں کرسکے کہ حکومت کی مخالفت اور ہے اور ریاست کی مخالفت مختلف ہے اس کا سلسلہ تو1947ء سے شروع ہوا تھا جب باچا خان کو غدار قرار دیا گیا تھا انکے بعد ہری پور سے تعلق رکھنے والے فیلڈ مارشل ایوب خان نے تو غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے کی فیکٹری کھول دی تھی حتیٰ کہ صدارتی انتخاب میںاپنے مد مقابل بانی پاکستان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو بھی غدار قرار دیا گیا تھا۔1988ء میںجب محترمہ بینظیر وزیراعظم بنی تھیں تو انہوںنے کہوٹہ میںاے کیو خان ریسرچ سینٹر دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا لیکن جنرل مرزا مسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل نے یہ کہہ کر محترمہ کی بات ردکردی تھی کہ وہ سیکیورٹی رسک ہیں چارصوبوں اوردولاحقوںپرمشتمل فیڈریشن میںیہی طے کیا گیا ہے کہ ایک کے سوا باقی صوبوں کے عوام کی حب الوطنی مشکوک ہے حالانکہ ایٹمی پروگرام کی بنیاد بھٹو نے رکھی تھی اور انکی بیٹی نے شمالی کوریا سے ڈیل کرکے ایٹم بردار میزائل ٹیکنالوجی حاصل کی تھی دسمبر2007ء کو جب محترمہ کو کمپنی باغ راولپنڈی میںقتل کیا گیا تو ایک سے زائد نجی محفلوں میںباقاعدہ جشن منایا گیا تھا اتنی بڑی قربانی کے باوجود پنجاب سے باالعموم اور راولپنڈی سے بالخصوص انکی جماعت 2008ء کے انتخابات ہار گئی تھی راولپنڈی ہی وہ مقام ہے جہاں16اکتوبر1951ء کو پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو قتل کردیا گیا تھا شروع میںتو ہندوستانی وزیراعظم اورصدر آتے رہے لیکن ایوب خان نے اقتدار پرقبضہ کرکے اسے ہمیشہ کیلئے خطہ مردم خیزکے سپرد کردیا بدقسمتی سے راولپنڈی میںقائم حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ چھاپنے کی فیکٹری آج بھی قائم ہے آنے والے وقت میںتوپوں کارخ اخترمینگل کی طرف ہوگا حالانکہ ن لیگی رہنما چار دن سے یہ کہہ رہے ہیں کہ جب 28مئی1998ء کو نوازشریف ایٹمی دھماکہ کرنے کے بعد کوئٹہ آئے تھے اخترمینگل نے انکی گاڑی کی ڈرائیونگ کی تھی بھلا ایک انسان اس سے زیادہ کیاکرسکتاہے۔
1972ء میںقلات کے مقام پر ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے سردار عطاء اللہ مینگل نے کہا تھا کہ ایک نیم پاگل جوڑے کے ہاں بچہ پیدا ہوا انہوںنے چوم چوم کر اس بچے کو ماردیا انکے بقول ریاست سے پنجاب کی محبت اسی طرح ہے مشکے ہائی اسکول میںمیرے استاد خواجہ نصیر نے بتایا کہ وہ سردار صاحب کی تقریر کے دوران موجود تھے اور اس وقت ڈائریکٹر اسکولز تھے یہ تقریر سننے کے بعد انہوںنے فیصلہ کیا کہ وہ ہمیشہ کیلئے بلوچستان میںرہیںگے اور واپس بھیرہ نہیںجائیںگے بھیرہ سرگودھا ڈویژن کاایک شہر ہے نہ جانے خواجہ صاحب ان دنوں کس حال میںہیں وہ آخری اطلاعات تک سمنگلی اسکیم میںرہائش پذیر تھے
اخترمینگل کی حکومت سے علیحدگی اور اپوزیشن سے راہ رسم بنانے پر مولانا صاحب نے بے حد خوشی کااظہارکیا ہے گزشتہ لانگ مارچ کی ناکامی ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی بے وفائی نے مولانا صاحب کی سیاسی صلاحیتوںکوگہنادیا تھا مولانا کے دھرنے کے بعد ن لیگ اور پیپلزپارٹی دونوں کی قیادت کو اندرون خانہ کافی مراعات دی گئی تھیں حتیٰ کہ میاں نوازشریف کو علاج کیلئے لندن جانے کی اجازت دی گئی تھی اس پر کپتان پرمایوسی کے دورے پڑے تھے اور انہوںنے باقاعدہ احتجاج کیا تھا اسی لئے مریم نواز اورواپسی کے بعد شہبازشریف کو لندن جانے کی اجازت نہیںدی گئی منقسم مزاج کپتان سارے مخالفین کو ایک ہی وار سے تہس نہس کرنا چاہتے تھے لیکن خود انکی حکومت کے غبارے سے ہوا نکل گئی انکے وہ سارے دوست اینکراورکالم نگاروں نے بدترین کارکردگی کادفاع چھوڑ کر کپتان کی حمایت ترک کردی جس پر پورامیڈیا زیرعتاب آگیاحتیٰ کہ جب چند پسندیدہ اینکروں کوملاقات کیلئے بلایاگیا توانہوںنے وہاں پر کچھ ناپسندیدہ باتیں کرڈالیں جس پر کپتان نے کہا کہ وہ اپوزیشن کانام سننا نہیںچاہتے ورنہ وہ ملاقات ہی ختم کردیںگے کپتان نے سیاست کو ایسے میدان کارزارمیںتبدیل کردیا جہاں وہ مخالفین کی توہین اورتضحیک کرتے تھے حتیٰ کہ انہوںنے مولانا جیسے محترم ہستی کو ڈیزل کا نام دیا آج کل ڈیزل کی قلت انکے گلے پڑ گئی ہے کپتان نے احتساب کا جونعرہ لگایاتھا وہ اس وقت ہوا ہوگیا جب چینی اسکینڈل میںانکے اپنے دوست وزیراور مشیر ملوث پائے گئے ابھی تک وہ کوئی حتمی کارروائی سے گریزاں ہیں تیل کی قلت اور آئی پی پی ایز کے فراڈ میںبھی انکے مشیر ملوث نکلے حال ہی میںانکے دومشیر آئی پی پی ایز کے واجبات کی مد میںچار ارب روپے جیبوں میںڈال کر چلے گئے اس صورتحال کے باوجود اگر یہ ضد قائم رہی کہ احتساب جاری رہے گا اور کسی کو نہیں چھوڑوں گا؟عوام اب اس نعرے پر یقین نہیںرکھتے زیادہ دیر کی بات نہیں جب مولانا اپوزیشن کواکھٹے کرنے کیلئے زیادہ سرگرم ہوئے تو نیب جھوٹ یا سچ ان کا کھاتہ کھول دے گا مولانا کیخلاف کوئی نہ کوئی کارروائی ضرور شروع ہوگی جبکہ اکرم خان درانی پہلے سے ضمانت پر ہے تبدیل شدہ حالات میںمولانا کی عقابی آنکھیں بلوچستان پر ہیں ان کاخیال ہے کہ اگر اپوزیشن مل کر زور لگائے جبکہ باپ پارٹی کے ناراض اراکین ان سے مل جائیں تو بلوچستان حکومت تبدیل کی جاسکتی ہے ہے تاہم باپ پارٹی کے ناراض اراکین کی نظریں اور سمت پر ہیں اگروہاں سے اجازت مل جائے تو مولاناصاحب اوراختر مینگل مل کر ایک بڑی سیاسی گیم کھیل سکتے ہیںکیونکہ جام صاحب کے پاس کہنہ مشق سیاسی ٹیم نہیں ہے انکے نوجوان دوست رموزسیاست سے اتنے زیادہ آشنا نہیں ہیں اس حکومت کے سینئر وزیر سرداریارمحمد رند ہیں لیکن انہیں بھی شکایات ہیں گویا ایک طرح سے جام صاحب اکیلے ہیں اور انہیں اکیلے سیاسی مخالفین کے دائو پیچ کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔
جہاں تک جسٹس فائز عیسیٰ کیس کے فیصلے کا تعلق ہے تو سینئروکلا حامد خان امان اللہ کنرانی منیر اے ملک پاکستان بار اور بارایسوسی ایشن کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے فیصلہ آنے کے بعد ان وکلا نے شیرنی کھائی لیکن بہت جلد پتہ چلا کہ فیصلہ انکی توقعات کے برعکس ہے سرکاری وکیل نے کیس ایف بی آر بھجوانے کاجو نکتہ اٹھایا تھا وہ منظور کرلیا گیا ہے جبکہ ایک طرف ریفرنس خارج ہوگیا ہے تو دوسری جانب سپریم جوڈیشل کونسل کواختیار دیا گیا ہے کہ وہ نہ صرف معاملہ کی نگرانی کرے بلکہ ’’سوموٹو‘‘ کے ذریعہ معاملہ کی ازسرنو جانچ بھی کرے
قانونی نکتہ نظر سے ہٹ کر دیکھاجائے تو وکلا برادری بھی حکومت کیخلاف ہوگئی ہے بیڈگورننس اوربدترین معاشی حالات کی وجہ سے سرکاری ملازمین اور عام آدمی کی بے چینی بڑھ گئی ہے اسٹیل مل کو سیٹھوں کے ہاتھوں فروخت کرنے کے فیصلے سے محنت کش بھی سراپا احتجاج ہیں کسانوں کی کمر توٹڈی دل نے توڑدی ہے اگر اپوزیشن دل گردہ بڑا کرے تو ایسے حالات پیدا ہوسکتے ہیں کہ قبل از وقت انتخابات کی بنیاد پر ایک تحریک چل پڑے ن لیگ نے تو پہلے ہی ایک قومی حکومت تشکیل دینے کی تجویز پیش کردی ہے البتہ زرداری بہت پراسرار خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں اگر وہ کھل کر مولانا کا ساتھ دیں تو بازی پلٹ سکتی ہے اس وقت سرحدوں کی جو صورتحال ہے اور سیکیورٹی کے جومعاملات ہیں ان کا تقاضہ ہے کہ آئندہ انتخابات تک ایک اجتماعی قیادت کو آگے لایاجائے۔اگر یہی حالات رہے تو ریاست شدید معاشی اور سیاسی بحران کاشکارہوسکتی ہے تحریک انصاف کی حکومت کا یہ حال ہے کہ بھارت کے جارحانہ عزائم کے باوجود اس نے بھارت کو سلامتی کونسل کا رکن بننے میںمدد دی کوئی پوچھے کہ بھارت کی حمایت کن شرائط کے تحت کی گئی وزیراعظم اوروزیرخارجہ سامنے کچھ اور کہتے ہیں جبکہ اندرسے بھارت کے خوف میںمبتلا ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں