جعلی ڈومیسائل۔۔ استحصال و مضمرات

راحت ملک
اہل بلوچستان کو وفاقی محکموں‘ اداروں و نیم خود مختار ریاستی کارپوریشنوں میں ابادی کے تناسب سے طے شدہ ملازمتوں سے بھی محروم رکھا گیا ہے جس کیلئے دو طرح کے ذرائع بروئے کار لائے گئے ہیں اول تو ان اداروں میں بہت سی خالی ہونے والی ملازمتوں پر سابقہ ملازمین کے بچوں کو بھرتی کر لیا جاتا ہے یہ اقدام ایک تناظر میں درست اور قانونی ہوگا جبکہ اس کے منفی اثرات اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کی صورت میں منفی نکلتے ہیں کیونکہ خالی آسامیوں پر تعیناتی کیلئے یہ قانون اگر ایک طبقے مفادات کو تحفظ دیتا ہے تو دوسرے کیلئے مواقع کی قلت پیدا کرتا ہے دوسرا حربہ جسے زیادہ بھیانک انداز میں اپنایا گیا وہ بلوچستان سے حاصل کئے جانے والے جعلی ڈومیسائل اور لوکل سرٹیفکیٹ ہیں جعلی ڈومیسائل پر بھرتیاں زیادہ ہوتی ہیں جو بہ آسانی قابل مشاہدہ بھی ہوتی ہیں جعلی لوکل سرٹیفکیٹ پر تقرریاں کم ہوتی ہونگی تاہم وہ یہ آسانی قابل قبول ہو جاتی ہیں
2009ء سے 2013ء کے ایام ہجرت میں پنجاب میں رہتے ہوئے میں نے اس استحصال کا قریبی مشاہدہ کیا تھا یہی سب ہے کہ وطن (بلوچستان) واپس لوٹتے ہی میں نے نیشنل پارٹی کی قیادت کی توجہ ذاتی طور پر اس جانب مبذول کرائی تھی داخلی مہاجرت کے مذکورہ ایام کے دوران جنہیں میں جلاوطنی کہنا مناسب سمجھتا ہوں میں نے قلمی سطح پر اس ناانصافی کے خلاف آمسلسل واز اٹھائی متعدد مضامین ”انتخاب“ سمیت لاہور پنڈی کے اخبارات و جرائد میں شائع کئے جو ریکارڈ پر موجود ہیں۔
نیشنل پارٹی کی قیادت نے اس سوال پر جب توجہ دی تو دیگر سیاسی جماعتیں بھی اس میں ہم آواز ہو گئیں اور اب پارلیمان کے علاوہ ذرائع ابلاغ پر اس مسئلہ کو جس انداز میں اٹھایا جا رہا ہے وہ یک رخے پن کے ساتھ معقولیت کے بھی منافی ہے بالخصوص بلوچستان میں مستقل طور پر آباد ڈومیسائل یا سیٹلر کہلانے والے فراد کیلئے اس وقت ذہنی کوفت کا سبب بنتا ہے جب کچھ دوست محض لاپرواہی کے ساتھ ڈومیسائل کی از سر نو تحقیقات کا مطالبہ داغ دیتے ہیں البتہ جب ان کی توجہ دلائی جائے تو بعض متعدل مزاج دوست لفظ ڈومیسائل کے ساتھ جعلی کا لاحقہ لگا لیتے ہیں جس سے بیانیے کی صحت مناسب ہو جاتی ہے جعلی ڈومیسائل کیسے بنتے ہیں؟ یہ سوال کئی بار بحث آ چکا ہے وفاقی یا دیگر صوبوں سے ڈیپوٹیشن پر آنے والے افسران کی بڑی تعداد ڈی ایم جی گروپ سے تعلق رکھتے ہوں دوران سروس انتہائی ڈھٹائی و کم ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے عزیز و اقارب کے جعلی ڈومیسائل بنا کر ساتھ لے جاتے ہیں پھر وفاقی اداروں میں انہی اسناد پر ناجائز فوائد سمیٹتے ہیں جن کے جرائم کی تنقید کا ایک خاص رویہ بلوچستان کے حقیقی ڈومیسائل سیٹلرز کو سہنا پڑتا ہے اسی سبب ہم اس گھناونے عمل کے سب سے زیادہ مخالف ہیں اھم نکتہ یہ ہے کہ اس طرح کی جعلی اسناد پر مراعات و فوائد حاصل کرنے والوں کی اکثریت بلوچستان میں آباد سیٹلرز سے کوئی تعلق نہیں رکھتی مگر جب اس ناروا زیادتی پر بلوچستان کے محب وطن افراد احتجاج کرتے ہین تو اکثر اوقات ان کی گفتگو لب و لہجے اور تنقید کے منفی اثرات مقامی ڈومیسائل طبقے کے افراد کیلئے زھنی کوفت کا باعث بنتے ہیں کیونکہ ڈومیسائل طبقہ ایک جانب ملک میں بلوچستان کے عوام کے یکساں حقوق کا حامی ہے تو ساتھ وہ صوبے میں اپنے لیے بھی برابری کے حقوق کا جائزہ طور پر طلبگارہے. تاھم اگر اسے تیسرے درجے کا شہری بھی رکھا جائے تو مجھے یقین واثق ہے اس طبقہ کا شاید ہی کوئی فرد بلوچستان کے سیاسی حقوق کی جدوجہد کی مخالفت کرے۔ بلکہ وہ حتی الوسع بلوچستان کے فطری آئینی سیاسی حقوق کی جدوجہد میں شرکت کو اپنا وطنی فریضہ اور اپنے لئے باعث افتخار سمجھتے ہوئے سرزمین کے سپوت کا فرض گرداننے گا۔ ممکن ہے آپ میری اس بات سے اتفاق نہ کریں اور مجھے جذباتیت کا شکار قرار دے دیں جو بھی ہو میں آپ کے حق اختلاف کی بھرپور تائید کروں گا اور یہی توقع ان تمام افراد سے بھی رکھوں گا جو میری رائے سے اختلاف کریں گے سرزمین بلوچستان احترام و آدمیت اور انسان کے ننگ و ناموس کی خاطر ایک دوسرے کے ہمقدم ہو کر چلنے کا دوسرا صفاتی نام ہے جو ہم سب کا بلاامتیاز رنگ و نسل زبان عقیدہ مشترکہ ورثہ ہے۔
کسی بھی قسم کے اگر مگر کے بغیر میں بلوچستان سے جاری ہونے والی نقل جعلی غیر حقیقی شہریتی اسناد ڈومیسائل اور لوکل سرٹیفکیٹ جن پر بے شمار افراد نے مختلف سرکاری عہدے ملازمتیں اعلیٰ سطحی مناصب اور پارلیمان کی رکنیت حاصل کی ہیں ان کی شفاف معیاری اصولی اورغیر جانبدارانہ تحقیقات کی دائمے درمئے قدمے سخنے حمایت کرتا ہوں
کیا ہم اس مسئلہ کے حقیقی ادراک اور مستقل تدارک کیلئے اب چند معیارات کا جائزہ لینے پر آمادہ ہیں؟ انہیں از سر نو اور استحصال کے مستقل سدباب کیلئے نیز تمام شہریوں کو مساوی الدرجہ شہریتی اسناد کے اجراء کیلئے چند سوالات اٹھانے ان پر سنجیدہ غور کرنے اور ایسی حکمت عملی وضع کرنے کیلئے آمادگی ظاہر کر سکتے ہیں جو بلوچستان کے تمام طبقات کو مطمئن آسودہ حال زندگی کے مواقع مہیا کرنے کا وسیلہ بن سکے؟ اگر اس کی گنجائش و اجازت ہو تو میں چند سوالات ارباب حل و عقد کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کروں گا۔
ڈومیسائل کے اجراء کا ایک منظم قانونی طریقہ کار موجود ہے ڈومیسائل کے حصول کیلئے بیسوں دستاویز کو تصدیق کے مراحل سے گزارنا لازمی ہے یہ قانونی عمل برقرار رہنا چاہئے البتہ جعلی ڈومیسائل کے اجراء کو روکنے کیلئے ایک تجویز یہ بھی دی جا سکتی ہے کہ اس کے اجراء کے اختیار کو مقامی منتخب حکومتوں (بلدیاتی اداروں) کے سپرد کر دیا جائے اس شرط کے ساتھ کہ کسی بھی صورتحال میں بلدیاتی ادارے برقرار و فعال رکھے جائیں گے ماسوا ان کے انتخابات کیلئے درکار انتخابی مہم کی مدت کے استثنیٰ کے۔۔۔۔ اس عرصہ میں جس میں توسیع کی گنجائش نہیں ہوگی بلدیاتی ایڈمنسٹریر ڈومیسائل اور لوکل سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے مجاز نہیں ہونگے دوسری گزارش یہ ہے کہ لوکل سرٹیفکیٹ کے اجراء کے سلسلہ میں بھی مندرجہ ذیل سوالات پر بلوچستان اسمبلی غور کرے اور سوالات کے حوالے سے شرائط معیار مقرر کر دے تو مسئلہ کا دیرپا حل دستیاب ہو جائے گا اس بحث کے دوران ہمارے رویوں کا انسان دوست اور لچکدار ہونا اشد ضروری ہے ورنہ اشتعال انگیزی فساد خلق کا باعث بن سکتی ہے بہت احترام کے ساتھ میں چند سوالات اپنے سیاسی اکابرین کے سامنے رکھتا ہوں۔
الف۔ لوکل سرٹیفکیٹ کے اجراء کی قانونی بنیاد کیا ہے؟ ملک یا صوبے کا وہ کونسا قانونی ضابطہ ہے جو متعلقہ ضلعی حکام کو اس نوعیت کا شہریتی سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا مجاز قرار دیتا ہے؟
ب۔ وہ کونسے قبائل ہیں جنہیں کسی ریاستی گزٹ کے تحت مقامی قرار دیا گیا ہے؟ اور وہ کونسے قبائل ہیں جنہیں پاوندہ (خانہ بدوش) کہا گیا تھا؟
ج۔۔سوال نمبر دو میں مذکورہ قبائل ی حثییت کا تعین کرنے والا ریاستی سرکاری دستاویز گزٹ نوٹیفکیشن کب جاری ہوا تھا؟ کیا اس کے اجراء کے بعد اس فہرست میں کسی قسم کا ردوبدل یا اضافہ یا کمی لائی گئی ہے؟ ایسا ہوا ہے تو اس کی اجازت کس مجاز اتھارٹی نے کب اور کن اصولوں کو ملحوظ رکھ کر دی تھی؟
کیا لوکل اور ڈومیسائل سرٹیفکیٹ بلوچستان میں شہریتی حقوق میں امتیاز و تفریق کرتے ہیں؟ یا دونوں میں شہری حقوق کو یکساں طور پر تسلیم کیا جاتا ہے؟
اگر دو اسناد مختلف نوعیت کے حقوق متعین کرتی ہیں؟ تو وہ تفریق و امتیازات کیا ہیں؟ اس کی تفصیل و افادیت سے اہل بلوچستان کو آگاہ کیا جائے اور اگر ان اسناد میں شہری حقوق مساوی نوعیت رکھتے ہیں تو دو مختلف انداز کے سرٹیفکیٹ کیوں جاری ہوتے ہیں؟
ڈ۔ کسی قبیلہ کے متعلق یہ فیصلہ کس بنیاد پر کیا گیا یا کیا جا سکتا ہے کہ وہ صوبے کا مقامی قبیلہ ہے کیا اس کا تعین نسلی‘ لسانی یا ثقافتی پس منظر میں کیا گیا جاتا ہے؟ یا اس قبیلے کے بلوچستان کی صوبائی حدود میں قیام کی تاریخ و مدت کو مد نظر رکھا گیا ہے؟ تاریخی پس منظر میں قیام کی کم از کم مدت کتنی مقرر کی گئی ہے۔
ذ۔ اگر مخصوص قبائل کے علاوہ بھی کسی قبیلہ کو جس کا ایک صدی یا متعدد دہائیوں سے مستقل قیام بلوچستان میں مسلمہ ہوتو اس کے افراد کو غیر مقامی کیوں سمجھا جائے؟
ر۔ وہ تمام نسلی لسانی ثقافتی گروہ و قبائل جو صوبے کی جغرافیائی حدود س الگ کسی دوسرے صوبے میں مستقلاً منتقل ہو چکے ہیں لیکن نسلی اعتبار سے ان قبائل کے کچھ طائفے یا افراد کا مجموعہ بلوچستان میں مقیم ہے تو کیا ان غیر بلوچستانی قبائل کو محض نسلی بنیاد پر صوبے کا مقامی باشندہ قرار دے کر لوکل سرٹیفکیٹ کا مستحق سمجھا جائے گا؟
ان سوالات کی روشنی میں جو حقائق سامنے آئیں لازم ہوگا کہ پھر ان کی روشنی میں جعلی ڈومیسائل کی تفتیش کے ساتھ ان لوکل سرٹیفکیٹ کی بھی تحقیق ہو جو اٹھائے گئے سوالات کے معیار سے مطابقت نہ رکھتے ہوں
یہ سوالات صوبے کے عوام کی فلاح اور حقوق کی بہتر تحفظ کے آئینہ دار ہیں یاد رکھیے کہ ہم (بلوچستانی) صرف اور صرف مشترکہ مہذب انسانی اقدار کی پاسداری کے ساتھ آسودہ حال زندگی کے خواب کو تعبیر دے سکتے ہیں۔
بلوچستانی سیاست کے بنیادی خدوخال نیپ کے مکتبہ فکر سے وابستہ اکابرین کی فکر کا نچوڑ ہیں جن کا بنیادی نقطہ نظر ہر قسم کے شخصی قومی نسلی لسانی مذہبی ریاستی یا سماجی استحصال کا خاتمہ اور تمام شہریوں کو انسانیت کے ناطے بلاامتیاز رنگ و نسل عقیدہ زبان مساوی شہری حقوق دلانا تھا اگر آج ہم عملی طور پر اپنے اکابرین کے ان سنہری اصولوں سے انحراف کریں گے تو تاریخ لکھے گی کہ نیپ کے اکابرین کی ساری محنت جدوجہد و نظریات رائیگاں رہے کیونکہ ان کے بعد آنے والی نسل نے ان کی پیروی کرنے سے جان بوجھ کر گریز کیا اور اپنے اکابرین کے طرز سیاست سے کچھ نہیں سیکھا تھا میں یقین رکھتا ہوں کہ ہم اپنے اکابرین کی ارواح کے سامنے سرخرور ہونے پر مکمل اعتماد رکھتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں