شرپسند اور معاملہ ختم

جیئند ساجدی
معروف جرمن ڈکٹیٹر ایدولف ہٹلر اپنی کتاب میں میکیمف میں لکھتے ہیں کہ ”جب کوئی تحریک شروع ہوتی ہے تو اس میں تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک شر پسند جو مخالفین کے ساتھ بندوق کے ذریعے لڑنے کا ا نتخاب کرتے ہیں ان شر پسند وں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے اور یہ اقلیت میں ہوتے ہیں۔دوسرے غدار ہوتے ہیں جو مراعات کے لئے قوم کے ساتھ غداری کر کے دشمن کے ساتھ مل جاتے ہیں لیکن ان کی بھی تعداد کم ہوتی ہے اور یہ بھی اقلیت میں ہوتے ہیں۔ تیسری قسم عام عوام کی ہوتی ہے جن کی تعداد شرپسندوں اور غداروں کی نسبت بہت زیادہ ہوتی ہے اور یہ اکثریت میں ہوتے ہیں۔تحریک کا کامیاب یا ناکام ہونا شرپسندوں اور غداروں کی بجائے عام عوام پر پر انحصار کرتا ہے“ 1857ء میں برطانوی سامراج کے خلاف برصغیر کے چند رراجہ مہا راجاؤں نے نے بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں مسلح تحریک چلائی تھی لیکن یہ تحریک بر ی طرح ناکام ہوئی کیونکہ یہ تحریک شروع کرنے والے بہادر شاہ اور چند راجہ مہاراجاؤں کو عوامی سپورٹ حاصل نہیں تھی اور یہ شورش ہندوستان کے چند علاقوں تک محدود رہی۔
سندھ،پنجاب،گجرات،بنگلہ دیش اور جنوبی ہندوستان میں اس شورش نے اپنی جڑیں نہیں پکڑیں اورنہ ہی اس تحریک کو کوئی خاص عوامی پذیرائی ملی بلکہ پنجاب کے سکھوں اور مسلمان پنجابیوں نے اس تحریک کو کچلنے کے لئے انگریز فوج کو سستے سپاہی بھی فراہم کئے تھے۔غالباً اس وقت آبادی کے لحاظ سے کثیر التعداد پنجاب میں عوامی رائے یہی تھی کہ سات سمندر دور سے انگریز ان کی فلاحی وبہبود اور ان کو روز گار دینے کی غرض سے یہاں آئے۔اس تحریک کو کچلنے کے علاوہ انگریزوں نے پنجاب سے حاصل ہونے والے سستے سپاہیوں کا استعمال دونوں عالمی جنگجوؤں میں بھی کیا تھا۔جنوبی امریکہ کے ملک کیوبامیں فیڈرل کارسٹرواور چی گویراکی تحریک اس لئے کامیاب ہوئی کیونکہ انہیں کیوبا کے عوام کی مدد حاصل تھی۔1970ء میں سابقہ مشرقی پاکستان میں شروع ہونیوالی بنگالیوں کی تحریک اس لئے کامیاب ہوئی کیونکہ بنگالیوں کی عوامی رائے شیخ مجیب اور مکتی باہنی کے حق میں تھی2002ء میں فاٹا میں تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے شروع ہونے والی شورش اس لئے ناکام ہوئی کیونکہ فاٹا کے عوام نے ٹی ٹی پی کے انتہا پسند انہ نظریات کو قبول نہیں کیا۔جس کے نتیجے میں ٹی ٹی پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور ان کی تحریک تقریباً ختم ہوچکی ہے۔
بلوچستان میں شورشوں کی تاریخ بہت پرانی ہے البتہ یہ شورش جسے پانچویں شورش کہتے ہیں یہ اپنے 14سال مکمل کر چکی ہے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا اس تحریک کے بانی خود پرویز مشرف تھے جنہوں نے اکبر بگٹی سے سیاسی اختلافات کی وجہ پر ان کو شرپسند کا لقب دیکر ان پر آپریشن کا آغاز کیا مشرف کے اس دور کے درباری سیاست دان شیخ رشید کے الفاظ اس آپریشن کے متعلق یہ تھے کہ”اکبر بگٹی کوئی سیاست دان نہیں جس سے بات چیت ومذاکرات ہوں بلکہ وہ ایک وارلارڈ ہیں“ غالباً مشرف اور ان کے درباری یہ سمجھتے تھے کہ بس ایک شرپسندبگٹی کے بعد معاملہ ختم ہو جائیگا لیکن اس کے بعد شورش ڈیرہ بگٹی سے نکل کر بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پھیلی اور دارالحکومت کوئٹہ بھی اس کی زد میں آیا۔ مشرف کے چلے جانے کے بعد آنے والی حکومتوں نے اپنی غلط کاؤنٹر انسرجنسی کی حکمت عملیوں کی وجہ سے شورش کو مزیدپروان چڑھایا۔مرکزی حکومت نے شورش کو قابو کرنے کیلئے محض طاقت کے استعمال کو ترجیح دی اور یہاں کی عوامی رائے کو مکمل طور پر نظر انداز کیا مرکزی حکومت کا”تین سردار اور شورش“کا پروپیگنڈہ پنجاب اور دیگر شہری پاکستان میں ضرور کامیاب ہوالیکن بلوچستان میں یہ پروپیگنڈہ بری طرح ناکام ہوا اس شورش پر قابو پانے کیلئے سب سے بڑی غلطی جو حکومت نے کی وہ غیر ریاستی اداکاروں کا قیام کرنا تھا دنیا میں بہت جگہ شورشیں جنم لیتی ہیں پاکستان کے دو پڑوسی ممالک چین اور ہندوستان کے کئی علاقوں میں شورشیں ہیں چین نے تبت‘ سنکیانگ اور ہانگ کانگ میں ریاستی طاقت کا تو بھرپور استعمال کیا لیکن غیر ریاستی اداکار نہیں بنائے ہندوستان نے نکسیلوں اور کشمیریوں کے خلاف ریاستی طاقت کا بے رحمانہ استعمال کیا ہے لیکن غیر ریاستی اداکار ہندوستان نے بھی نہیں بنائے شاید چین اور ہندوستان کی حکومتیں یہ سمجھتی ہیں کہ کچھ غیر ریاستی اداکار پہلے ہی سے سرکار کی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں اور ان کو قابو کرنے کیلئے اگر سرکار کوئی اور غیر ریاستی اداکار بنا کر ان کو اسلحے سے لیس کرے گی تو غیر ریاستی اداکاروں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگا اور سرکار کی رٹ ایک مذاق بن جائیگا اور ملک ”بنانا ری پبلک“بن جائیگا۔
پاکستانی حکومت کاغیر ریاستی اداکاروں کو استعمال کرنے کا تجربہ بہت پرانا ہے بنگال کی شورش کو قابو کرنے کیلئے الشمس اور البدر جیسی تنظیمیں بنائی گئی تھیں جس کا فائدہ بنگالی علیحدگی پسندوں کو ہوا کیونکہ الشمس اور البدر کے ظلم و جبر کی وجہ سے عام بنگالی کی ہمدردیاں علیحدگی پسند رہنماؤں سے منسلک ہوئیں اوریہی شورش کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ بنی لیکن حکمرانوں نے الشمس اور البدر کے تجربے سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا پاکستانی حکمرانوں کی طرح ترکی نے بھی 1990ء میں کردوں کی شورش پر قابو حاصل کرنے کیلئے ریاستی ادارکار بنائے تھے پاکستان نے ترکی کے ساتھ تعلقات بہت خوشگوار رہے ہیں عین ممکن ہے کہ غیر ریاستی اداکار بنانے کا مشورہ پاکستانی حکمرانوں نے ترکی کو دیا ہو حال ہی میں سانحہ ڈنک پیش آیا اس واقعہ کے بعد کراچی اور بلوچستان کے تمام بلوچ آبادی والے علاقوں میں عوام کی طرف سے پر امن احتجاج کیا گیا اور ریلیاں نکالی گئیں اور عوام نے یہ مطالبہ کیا کہ غیر ریاستی اداکاروں کا خاتمہ کیا جائے اس عوامی رائے سے سرکار کو سبق حاصل کرنا چاہے تھا کہ عوام ان کی پالیسیوں سے اختلاف رکھتے ہیں اور عام عوام کے دل جیتے بنا وہ اس شورش پر قابو حاصل نہیں کر سکتے لیکن پرامن احتجاجوں کے جواب میں سرکار نے غیر ریاستی اداکاروں کو مزید ایکٹو کر دیا اور انہوں نے ریلیاں نکالیں اور سماجی میڈیا پر تقریریں کیں اور کچھ روز بعد ہی سانحہ دازن کا واقعہ پیش آیا۔ اس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ سرکار نے اپنی کاؤنٹر انسر جنسی کی حکمت عملیوں کو تبدیل نہیں کرنا اور عوامی رائے کی ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں کچھ روز قبل ایک ویڈیو سماجی میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں پولیس اہلکار طلباء وطالبات پر آن لائن کلاسز کے خلاف احتجاج کرنے کی وجہ سے ان پر تشدد کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ایس یچ او صاحب ایک سٹوڈنٹ ایکسٹویسٹ ماہ رنگ بلوچ کو گرفتار کرتے وقت یہ الفاظ استعمال کر تے نظر آرہے ہیں کہ”یہ شر پسند ہے اس کو گرفتار کرو معاملہ ختم ہو جائیگا“لگتا ہے کہ گزشتہ14سالوں میں مشرف‘ شیخ رشید اور ایس ایچ اوسمیت دیگر حکام کی سوچ میں کوئی فرق نہیں آیا اور وہ ان کوہر بلوچ ایک شرپسند ہی نظر آتا ہے۔ اس مائنڈ سیٹ کی وجہ سے ان کے زاویے کے چند شرپسند تو ختم ہو جائیں گے لیکن معاملہ ختم نہیں ہو گا اور اسی طرح چلتا رہے گا۔معاملہ صرف انصاف اور عوامی رائے کی قدر اور عوام کوان کے جائز حقوق دینے سے ختم ہوگا امریکہ جیسی عالمی طاقت نے چھوٹے سے ویتنام پر حملہ کرتے وقت یہی سوچا ہو گا کہ ویتنام کی فوجی طاقت خاص نہیں لیکن عوامی رائے کے متعلق انہوں نے کوئی حکمت عملی نہیں بنائی جس کی وجہ سے ویتنام کی بجائے امریکہ کا اپنا معاملہ ویتنام میں ختم ہوا۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں