پاکستان سے افغانوں کا جبری انخلا، وہ جو غازی تھے اب کے ناپسند ٹھہرے!

تحریر: حفیظ حسن آبادی
پاکستان میں شاید ویڑنری لوگوں کا قحط الرجال ہو چکا ہے یا اگر وہ ہیں تو کوئی انھیں سنتا نہیں. نہیں تو جو بدسلوکی افغان مہاجرین کو پاکستان سے نکالنے کیساتھ کیا گیا کبھی بھی ایسا نہیں کیا جاتا۔ 1979ءسے لیکر آج تک پاکستان کی ریاستی گاڑی کے انجن میں افغان خون، پسینہ ایندھن کی طرح استعمال ہوتا رہا ہے، کیونکہ جو جنگ افغانستان میں لڑی گئی وہ افغانوں کی نہیں امریکہ کی تھی پاکستان امریکہ کا پیٹی ٹھیکیدار بنا اور افغانوں کو ا±ن کے اپنے گھر میں مزدوروں کی طرح کام لینے کا اہتمام کیا جس کو افغان جہاد سمجھ رہے تھے وہ در حقیقت پاکستان کی طرف سے دیا ہوا دیہاڑی مزدوری پر دیا ہوا فساد تھا جس کی بدولت پاکستان پر ڈالروں کی بارش شروع ہو گئی کام چونکہ اسلحہ و بارود کا تھا اس لئے اس نے افغانوں کو ا±نکے وطن کے ساتھ جلا کر رکھ دیا۔ پاکستانی جرنیل اور افغان مجاہدین کمانڈر جو جنگ کی باگ ڈور سنبھال رہے تھے وہ جہاں بھی تھے مالا مال ہوگئے عام افغان جائیداد، مال دولت، خودداری، گھر بار، آرام آسائش سمیت سب کچھ کھو بیٹھا، افغان مہاجرین کیلئے اتنا پیسہ آرہا تھا کہ بڑے تو بڑے مقامی سطح پر انکے کیمپ انچارج مہینوں میں اتنے کما بیٹھے کہ سات نسلوں کیلئے جائیدادیں بنا ڈالیں ا±س وقت یہ مہاجرین برادر تھے، مجاہد تھے، غازی اسلام تھے۔
جو مہاجر پاکستان ( ایران یا کہیں اور جانے والے مہاجر یہاں زیر بحث نہیں ) پہنچے ا±ن میں سے کچھ اپنے ساتھ سرمایہ لے گئے تھے لیکن بھاری اکثریت خالی ہاتھ بھاگے تھے یا بھگائے گئے تھے وہاں بدحالی دیکھی جھگیوں میں رہے محنت مزدوری کرتے رہے، ان چار دہائیوں میں ان میں سے کئی لوگ اپنی محنت سے سرمایہ دار بنے پاکستان میں سرمایہ کاری کی اب اچانک انھیں سب کچھ چھوڑ کر یا نیلام کر کے جانے کا کہا جاتا ہے یہ نہ اسلامی نظریات سے درست ہے اور نہ دنیا کے کسی بھی انسانی قانون میں اسکی گنجائش ہے۔
اسلامی دنیا میں یہ تاریخی بات سب جانتے ہیں کہ ا±ن کا نبی صل اللہ علیہ وسلم خود مہاجر رہے ہیں اور مہاجروں کیساتھ کیسا برتاو¿ رکھنا چاہیے ا±نکے تعلیمات کے بنیادی نکات میں شامل ہے، اور یہ بات ہمیں اچھی طرح یاد ہے جب افغانستان میں آگ جلائی اور بھڑکائی گئی تو ا±س وقت ہر مسجد سے مولوی صاحب نمازیوں کو نبی اکرم کے مہاجر ہونے کی داستان سناتے اور تاکید کرتے کہ ان افغان مہاجرین کی خدمت عین س±نت و ثواب ہے اور یہ اپنے ساتھ برکت لائے ہیں ۔
تاہم یہاں جو چیز دلچسپ ہے وہ یہ کہ جس پر کم ہی لوگوں نے توجہ دی ہے وہ یہ کہ ان مہاجرین کو پنجاب سے دور رکھا گیا۔
ان مہاجروں کی ستر فیصد سے زیادہ تعداد کو خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں رکھا گیا باقی تیس فیصد باقی پاکستان میں پھیل گئے، ا±س تیس فیصد میں اکثریت ا±ن لوگوں کی تھی جو اپنے ساتھ کوئی سرمایہ لائے تھے یا کوئی اچھی ہنر رکھتے تھے جو پنجاب اور سندھ کے بڑوں شہروں کی طرف چل پڑے۔ ان کے نام پر پیسہ اسلام آباد (پنجاب) آتا تھا اور یہ خود یہاں غریب اور پاکستان کے ہاتھوں پہلے سے بدحال بلوچوں اور پشتونوں کے ہاں پڑے تنگدستیوں سے مجبور ہو کر مذہبیوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن گئے۔
ان جھگیوں کی خستہ حالیوں سے پاکستانی خفیہ اداروں کا وہ کردار شروع ہوا جس پر کئی سابق جرنیل اور سیاست دان بارہا بیانات دیتے اور بعض معاملات پر اپنی ندامت و پشیمانی کا اظہار کر تے ہیں۔
راتوں رات ہزاروں مدرسے ٹریننگ کیمپ میں تبدیل ہو گئے ملا جہاد کیلئے ذہن سازی اور ملٹری جنگ کیلئے تن سازی کرنے لگے، دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان مکمل طور پر تخریب کاری کے کارخانے میں تبدیل ہو گیا اور جہاد ایک منافع بخش کاروبار بنا۔
افغانوں کے جنگجوو¿ں کو پاکستان کی ٹھیکیداری میں روزگار مل گیا تھا وہ کام کر کے اجرت لیتے رہے اور افغانستان اپنے بہترین بچوں بچیوں سے محروم ہوتا گیا۔
افغانستان بارے پاکستانی پالیسی میں اچانک تبدیلی کے محرکات : افغانستان کے بارے میں پاکستان کی سیاست میں اچانک ایک سو اَسی ڈگری تبدیلی بے سبب نہیں کیونکہ پاکستان افغانستان کو ایک ملک تسلیم ہی نہیں کرتا رسم دنیا سے وہ اسے ہمسایہ کہتا ہے برادر ملک بھی کہتا ہے مگر 1979 کے بعد جب سے پاکستان کو افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کا موقع فراہم ہوا ہے اس وقت سے وہ اِسے اپنے ایک ممکنہ صوبے کی طرح دیکھ رہا ہے یہی وجہ ہے کہ اس نے ہر بار جب اپنے عزائم میں کامیابی کے امکانات کو روشن دیکھا ہے تو ا±س نے سب سے پہلے اس کے دفاعی سسٹم کو آرمی سمیت تباہ کیا ہے۔ ڈاکٹر نجیب اللہ کے بعد نام نہاد مجاہدین نے سب کچھ غارت کیا پھر ا±ن کا تختہ الٹنے کے بعد طالبان کے ہاتھوں بچا کچا برباد کیا گیا، بعد میں جب امریکہ نے پاو¿ں رکھا اور ایک بالکل نئی آرمی اور آرم فورسز کی تشکیل کی گئی، خفیہ ادارے بنائے گئے لیکن اس کے جاتے ہی سب کچھ تیس نیس کیا گیا، اسلحہ ٹینک وغیرہ پاکستان پہنچائے گئے نئے لوگوں(طالبان) کو ایک خفیہ معاہدے کے تحت حکومت تو سونپی گئی مگر ا±ن کے ہاتھ خالی کئے گئے تھے، دوسرے لفظوں میں ایک خاص منصوبے کے تحت انھیں پھر سے پاکستان کا محتاج بنا کر چھوڑا گیا۔
جس طرح کہ پہلے عرض کیا جاچکا کہ پاکستان طویل المدتی منصوبے میں افغانستان کو اپنے ممکنہ صوبے کے طور پر دیکھتا ہے اور ا±س وقت تک یہ خیال دل سے نہیں نکلالے گا اور اس کے لئے اکیلے یا اپنے آقا امریکہ و برطانیہ سے مل کر طرح طرح کی مشکلیں ایجاد کرے گا، سازشیں کرتا رہے گا جب تک افغانستان نے متنازع ڈیورنڈ لائن کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان رسمی سرحدی لکیر نہیں مانا ہے۔قلیل مدتی منصوبہ دو مرحلوں پر مشتمل ہے پہلے مرحلے میں افغانستان میں ایسی پاکستان نواز حکومت ہو جس کے ہر فیصلے راولپنڈی جی ایچ کیو میں ہوں اور اس کے تمام معاملات اسلام آباد کے زیر نگرانی ہوں جس طرح امریکہ نے ڈاکٹر نجیب اللہ کو حکومت میں رہنے کیلئے یہی پیشکش کی تھی کہ آپ واشنگٹن سے براہ راست بات نہیں کریں گے بلکہ آپ اپنی ہر بات اسلام آباد کے ذریعے ہم سے کریں گے امریکہ کی اس پیشکش کو ڈاکٹر نجیب اللہ نے اسلام آباد کی غلامی سے تعبیر کر کے ٹھکرایا تھا۔ اس کے بعد آپ نے دوستوں کو آگاہ کیا تھا کہ ہم نے خودداری کا راستہ چ±نا ہے اس کی سزا کے طور پر ہماری حکومت جاسکتی ہے اور ملک میں شدید خونریزی بھی ہو سکتی ہے اسی وقت آپ نے افغانستان کے بلوچ معتبر مہمان بابا مری کو بوجھل دل سے سب صورتحال سے آگاہ کر کے کہا تھا کہ آگے شاید ہم نہ ہوں اور آپ کی اور آپ کے لوگوں کی حفاظت نہ ہو تب مجبوری سے بابا مری نواب اکبر خان بگٹی و دیگر بلوچ عمائدین کی ثالثی میں اپنے ہزاروں لوگوں کو لے کر واپس پاکستان جانے کیلئے راضی ہوئے تھے۔ دوسرے مرحلے پر وہی کابل میں بیٹھا اسلام آباد کی کٹھ پتلی حکومت ایک ایسے ریفرنڈم کے لئے زمین ہموار کرے جو پہلے پاکستان سے اتحاد اور پھر افغانستان کو پاکستان کے ساتھ ضم کرنے کی راہ ہموار کرے۔
گو کہ پاکستان کو ربانی، ملاعمر، حامد کرزئی اوراشرف غنی کے حکومتی ادوار میں اس منصوبے میں کامیابی نہیں ہوئی لیکن انھوں نے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔
حالیہ حکومت کے آتے وہ بڑے ا±مید تھے کہ وہ نہ صرف اپنے طویل المدتی منصوبے کی پیشرفت دیکھیں گے بلکہ قلیل المدتی منصوبے میں جو نئے عالمی سیاست کے تقاضے سامنے آئے ہیں ا±ن کیلئے طالبان کو بھرپور طریقے سے استعمال کر کے پھر پاکستان کے لئے ڈالروں کے بارش کا اہتمام کریں گے مگر طالبان نے نہ صرف پاکستان کی سرپرستی کو رد کیا بلکہ ہر ا±س موقع پر شدید احتجاج کیا جب پاکستانی حکام نے افغانستان کے وارث ہونے کی حرکتیں کیں، کئی بار پاکستانی لیڈروں کو یہ کہا گیا کہ آپ ہماری طرف سے بات نہ کریں ہم اپنی بات خود کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور امریکہ، روس، چین وغیرہ سب سے براہ راست بات چیت کیا گیا جو یقیناً پاکستان کیلئے ناقابل قبول تھا۔
پاکستان و امریکہ کی خواہش پر یوکرائن روس جنگ میں روس کیلئے مشکلات پیدا کرنے کے لئے بھی طالبان آمادہ نہیں ہوئے، ان نافرمانیوں پر سوا یہ کہ پاکستان اور ایران کیلئے افغانستان سے جانے والے پانی کو خود اپنے ملک میں استعمال کرنے کا عملی منصوبہ بنایا، افیون کی کاشت کو اس درجے تک نیچے لائے کہ اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم کے مطابق افغانستان میں 2022 کے آخر سے لیکر اب تک منشیات کی پیداوار میں 95 فیصد کمی واقع ہوئی ہے جو کئی لوگوں کیلئے ناقابل یقین حقیقت ہے یہاں ہم اس بحث میں پڑنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ پاکستان میں ڈرگ مافیا کتنی مضبوط و ثروتمند ہے اور ا±ن کی اثر و رسوخ کہاں تک ہے جو 1979 سے لیکر اگست 2021 تک منشیات کے کاروبار کو افغانستان میں جنگ جاری رکھنے کیلئے ایک وسیلہ کے طور پر سرکاری سرپرستی میں استعمال کرتے آئے ہیں کیوں کہ اس جرم کو خود مارشل لاءڈکٹیٹر ضیاءالحق نے الاعلان کفر کے خلاف جہاد کے نام پر ثواب قرار دیا تھا.یہ کالا دھندہ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی موجودگی میں بھی ختم نہیں ہوا بلکہ راقم سے 2017 میں ھلمند کے ایک بلوچ زمیندار نے کابل میں بلوچ شوریٰ کے دفتر میں کہا تھا کہ امریکیوں نے ہم سب کو بھلا کر ہمیں افیون کاشت کیلئے ایسی تخم فراہم کرنے کا کہا تھا کہ وہ نہ صرف اچھی فصل دے گا بلکہ وہ موسموں کا مقابلہ بھی بہتر طریقے سے کرے گا، زمینداروں کو تاکید کی گئی تھی کہ فصل تیار ہوتے ہمیں براہ راست بتا دیں اس بلوچ زمین دار نے مزید کہا کہ یہ ہلمند سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے مال ا±ٹھا کر قندھار لے جاتے تھے، راقم کے استفسار پر کہ تو پھر زمینداروں نے ا±ن سے بیج لے لئے؟ کہنے لگا بالکل کئی زمین داروں نے لیا مجھ سمیت چند زمینداروں نے معذرت بھی کیا، ان سب سے بڑا جرم جو امریکہ و پاکستان کی نظر میں افغان حکومت کررہی ہے وہ یہ کہ اس نے چین کیلئے دروازے کھول دیئے امریکہ نے 1979 سے اب تک یہاں ڈالروں کی بارش اس لئے نہیں کی تھی کہ اس کا اصلی اور خطرناک حریف چین آرام سے آ کر ڈیرہ جمائے پاکستان بھی نہیں چاہتا کہ اس نے امریکہ کے پیسوں سے پہلے سوویت یونین اور بعد میں امریکہ کو افغانستان سے نکالا وہ اب چین کے بانہوں میں جاکر گرے. پاکستان چین کے سامنے اپنی مجبوریوں سے اچھی طرح واقف ہے۔
جو غلطی سوویت یونین اور بعد میں امریکہ نے افغانستان میں فوجیں بھیج کر کی چین ایسا کچھ نہیں کررہا تو اس کے خلاف کیسے فرنٹ کھولا جائے؟ ظاہر ہے برطانیہ، امریکہ و پاکستان چین کے خلاف لڑ نہیں سکتے کیونکہ اس نے کفر کے خلاف جہاد کیلئے کوئی وجہ فراہم نہیں کیا نہ اب حالات ایسے ہیں کہ افغانستان میں اس سے مسابقت کا کوئی در کھلے۔
حرف آخر : مندرجہ بالا بحث سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پاکستان طالبان کے انداز فکر میں زبردست تضاد موجود ہے پاکستان انھیں اپنا بغل بچہ و پروکسی سمجھتا ہے جب کہ طالبان کی سوچ یہ ہے کہ پاکستان نے واقعی اسلام کی خاطر کفر کے خلاف جہاد میں مدد کی ہے جو کہ حقیقت نہیں۔
ظاہر ہے کہ پاکستان کی نظروں میں پروکسی جب گستاخی پر ا±تر کر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر برابری کی بنیاد پر بات کرنے کی کوشش کرتا ہے تو مالک پاکستان حتماً تادیبی کاروائی کرے گا، روسیوں سے تعلقات استوار کرنے سے روکنے ا±ن کے سفارت خانے پر خود کش حملہ کیا گیا چینی سرمایہ کاروں پر کئی حملے کئے گئے پورے ملک میں ادھر ا±دھر چھوٹے موٹے حملے کئے گئے مگر طالبان ان اشاروں کو سمجھنے سے قاصر رہے تو اب ا±ن پر کوئی نہ کوئی ایسا دباو¿ ڈالنا لازم تھا کہ وہ اس کے بوجھ تلے دب کر سانس لینے نہ پائیں اور مجبور ہو کر پاکستان کے پاو¿ں پڑ جائیں۔ افغان تاجروں کو وہ پہلے کئی بار تورخم اور چمن بارڈر پر خود ساختہ بندشوں سے ذلیل اور بھاری نقصانات سے دوچار کرچکے تھے۔ سرحد پر فائرنگ وغیرہ سب کچھ آزمانے کے بعد یہی ایک دباو¿ کا زریعہ رہ گیا تھا کہ پاکستان سے لاکھوں افغانوں کو جبری ملک بدر کیا جائے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ کسی بھی ملک میں غیر قانونی طور پر کوئی بھی شخص رہ نہیں سکتا مگر اس کے لئے بین الاقوامی قوانین و طریقہ ہای کار موجود ہیں جن کا پاکستان میں پاس نہیں رکھا گیا۔
جس طرح افغانوں کو لاتوں سے مار کے، بالوں سے کھینچ کے گھسیٹا گیا اور طرح طرح سے بے عزت کر کے ان کے اموال لوٹ کے انکے بنائے ہوئے جائیداد پر قبضہ کر کے یا انھیں کوڑیوں کے دام بیچنے پر مجبور کیا گیا تو اس سے یہ بات یقینی ہو گئی کہ یہاں ایک سوچے سمجھے ریاستی منصوبے کے تحت افغانوں کو لوٹنے اور بے توقیر کرنے کے منصوبے پر عملدرآمد کیا جارہا ہے۔ اگر یہ غیر قانونی ٹھہرے تھے تو غیر قانون آئے بھی تو تھے تو کس نے اور کیوں آتے وقت اور اتنے عرصے آنکھیں بند رکھیں؟ یا غیر قانونی کاغذات بنا چکے تھے تو یقینا کسی نے یہ بنا کر دئیے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں