بلوچستان کے نوجوان تاریخ میں امر ہوگئے!

تحریر: گہرام گچکی ایڈووکیٹ
چند دن پہلے کی بات ہے کہ راقم الحروف معاشرتی برائیوں پر سوچنے پر مصروف تھاکہ اور اس بات پر باریکی سے غور وفکر کررہا تھا کہ ان جملہ مسائل کا خاتمہ ہوسکے۔ جہاں اس دور حاضر میں سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور رہنماؤں نے تمام معاشرتی برائیوں کو دیکھتے ہوئے بھی کبوتر کی طرح نظریں چرانا شروع کی ہے کہ بلی نہیں دیکھ رہی ہے ۔ اس میں ان کا کوئی قصور نہیں کیونکہ ان تمام برائیاں انہی کی اشتراک سے ہورہی ہیں اور اس جرم میں وہ برابر کے شریک ہیں۔ چاہے لوٹا ہوا عوامی مال ہو یا سماجی برائیوں کو فروغ دینے سے ملنے والی آمدنی انہی سے ہی انکا الیکشن کیمپن چلتا نہیں بلکہ دوڑتا ہے۔
کئی سالوں سے یہ فکر لاحق ہے کیا اس خلا کو پر کرنے کے لیے کوئی سامنے آسکتاہے۔ خوابوں کی تعبیر ہوسکتی ہے۔ امید نے جنم لینا شروع کردیا یا کرنے والا ہے۔ میری شنید میں آیا کہ حب کے چند نوجوان اس خلا کو پر کرنے کے لیے بےتاب ہیں۔ سنے میں آرہا ہے یہ حب کے وہ نوجوان ہیں جنہیں سفید پوش منافق آوارہ گردوں کا جھلڑ کہتے ہیں جنہیں نے اپنی آوارہ گرد دی سے وہ تجربات اور نتائج حاصل کیے ہیں اور ان لوگوں کے موقف کی نفی ہے کہ یہ نوجوان عوام میں مقبولیت تو دور حقیقت عوامی مسائل سے ناشناس ہیں۔ اگر تاریخ کے دریچوں سے جھانک کر دیکھنے کی زحمت کی جائے تو عوامی حقوق کی بازیابی ہو یا سماجی برائیوں کے قلع قمع کرنے کی کوششیں ہو تو نوجوان ہی گہری پانی میں اترئے ہیں۔ اور اسباب کی کوج لگائی ہے نتائج خیز جدوجھد اور استحصالی طبقات کو بزور بازو اور اپنی نظریات سے شکست دی ہے۔ بہرحال اب موضوع کی طرف رخ کرنے کا وقت آ پہنچا ہے اور اس پر بات کی جائے تو ایک بہتر عمل ہوگا۔ تاکہ قارئین میری باتوں کا نتیجہ اخذ کرسکیں۔ ابھی چند دنوں کی ہی بات ہے کہ حب کے چند نوجوان میں ایک بحث چھڑ گئی کہ لعنت تو سارے لعنت ہیں ایک ایسی لعنت جس نے بستیاں اجھاڑ دی ہیں اور روح انسانی کو کئی عرصہ سے چاٹنے کا عمل شروع کررکھا ہے جس سے نا صرف نوجوان بلکہ ہر ذی شعور انسان متاثر ہو کر رہ گیا ہے اور اس مافیا نے شمال سے لیکر جنوب مشرقی سے لیکر مغرب تک اپنے مضبوط پنجھے گھاڑ دیے ہیں اور پوری دنیا سمیت ہماری سوسائٹی اس مافیا کے رحم و کرم پر ایک عشرے سے ہے۔ یہاں میں سوال کرنے پر حق بجانب ہوں کہ پہلی وضاحت ریاست اپنے شہریوں سے کرئے اور شہری یہ سوال کرنے پر حق بجانب ہیں اور ریاست اس جواب کا پابند ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو دے۔ یہ ناسور کہاں سے اور کس طرح پہنچا ہے کیا آپ اپنی زمہ داریوں سے آزاد اور مبرا ہیں اگر جواب نفی میں ہے تو اس ناسور منشیات کا تدارک کیوں نہیں ہوتا؟ یہ ساری باتیں کرنے کا مجھ سمیت ہروہ شخص پابند ہے کہ کرئے اور اپنے جوابات ان سے لیں جو جان ومال کے تحفظ کے ٹھیکدار بنے ہوئے ہیں۔
اس وقت بلوچستان سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں اس وبا کے تدارک اور انسداد کے لیے کئی نجی ادارے اور سرکاری ادارے قائم کیے گئے ہیں کہ وہ ان حالات پر قابو پائیں جو ناکام نظر آتے ہیں۔۔۔ خیر جوب کہا گیا ہے کہ ۔۔۔۔ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی۔
یہاں پر یہ کہنا درست ہوگا کہ ہم جلیں گے تو شمع روشن ہوگئی۔
شعور کو پنپنے میں کس صورت دیر نہیں لگتی۔ اب پودا پھوٹ کر زمین سے تو نکل آیا ہے اس پودے کو تناور درخت بنانے کے لیے مجھ سمیت ہر اس انسان کو کردار ادا کرنا ہوگا جو ظلمتوں کے سائے تلے بڑھے ہیں اور حب کے ان نوجوانوں کے تحریک کی آبیاری ممکن ہو۔ حب سے آغاز ہونے والی "Drugs Free Balochistan” اور حب سے شروع ہونے والی یہ تحریک اس وقت ایک تناور درخت بنے گی جب ہم سب اسے اپنی زمہ داری سمجھتے ہوئے پانی دیتے وقت اپنے حصے کا پانی دیں۔ اور اس تحریک کو منطقی انجام تک پہنچانا فقط ایک فرد یہ ایک گروہ کا روگ نہیں معاشرے کا ہر وہ فرد جو علم وادب سے جڑا ہوا ہے یا محکومیت کے خلاف نبردآزما ہے وہ کھلے دل اور نیک نیتی کے ساتھ ان نوجوانوں سے چلنے کا عہد کرنے کی آج ہی حامی بھرلیں تو بہت اچھی بات ہوگی اور اس کے درست نتائج برآمد ہوں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں