واٹر شیڈ

رشید بلوچ
تاریخ کی ورق گردانی کریں تو ہمیشہ انقلاب نے بھوک، مفلسی،تنگدسی اورحساس محکومیت کے بطن سے جنم لیا ہے، مورخین انقلاب فرانس کی جدید انسانی تاریخ کوواٹر شیڈ (Watershed)سے تعبیر کرتے ہیں اسے واٹر شیڈ اس لئے کہا جاتا ہے کہ فرانس کے انقلاب نے پورے یورپ کو لپیٹ میں لیا تھا فرانس کے مطلق العنان بادشاہت اور مذہبی استحصال کے گڑھ چرچ کی حکمرانی کو عوامی طاقت کے سیلاب نے تنکے کی طرح بہا کر رکھ دیا،فرانس کے عوام نے نو آبادیاتی سوچ،جاگیردارانہ نظام کو نیست و نابود کردیا،بادشاہت کو اس بیدردی سے کچلا گیا کہ شاہ لوئس خاندان کا نام و نشان تک باقی نہ رہا،انقلاب کے آخری دس سال 1789سے 1799 تک کا عشرہ انتہائی خون آشام تھا آسودہ لوگوں کے ہاتھوں کو چیک کر کے ملائم ہتھیلی والے لوگوں کا سر قلم کیئے جاتے تھے،ہزاروں لاکھوں سر وں کی قربانی کے بعد یورپ کے عوام نے حق حاکمیت حاصل کر لی اور حکوت کی بھاگ دوڑ نظم و نسق خود سنبھا لی پوری دنیا کیلئے ترقی و خوشحالی کی مثال بن گئے یہ انہی قربانیوں کاثمر ہے دنیا کی بیشتر بڑی طاقتیں خود کو جمہوری کہتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں،اسی طرح چین کو لیجئے،اگر ماؤزے تنگ کا انقلاب نہ ہوتا مفلوک الحال عوام اپنی آنے والی نسل کیلئے قربانی نہ دیئے ہوتے تو آج کا چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت کر کبھی سپر پاور کی دوڑ میں شامل نہ ہوتی۔
جمہور کی حکومتیں ہمیشہ عوام کی زندگیوں کو آسان بنانے کیلئے قوانین اور پالیسیاں بناتی ہیں،انہیں عوام اپنی رضا مندی اور منشا سے پارلیمنٹ اس لئے بھیجتے ہیں تاکہ عام لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا ہوں اور عوامی نمائندے اس خوف سے بھی بہتر قوانین اور پالیسیاں بناتے ہیں تاکہ وہ ووٹ کے احتساب سے بچے رہیں،جدید دنیا میں جن ممالک میں بادشاہت قائم ہیں انکی بھی حتی الامکان کوشش ہوتی ہے کہ وہ بھی اپنی عوام کے امنگوں کے مطابق پالیسیاں مرتب کریں تاکہ مبادہ انکی بادشاہت کے خلاف انقلاب یورپ و ماؤزے تنگ طرز پر لوگ اٹھ کھڑے نہ ہوں انکی حالت وہ نہ جو فرانس کے بادشاہ لوئس کا ہوا تھا۔
یہ کہنا بے جاہ نہ ہوگا کہ ہم آج بھی 16ویں صدی کے پسماندہ استحصالی دور کے یورپ میں رہے ہیں،یورپ نے تین سو سال پہلے جو سفر طے کر لیا تھا ہم ترقی یافتہ یورپ سے 3 سو سال پیچھے چل رہے ہیں،فرق صرف اتنا ہے کہ یورپ میں عل لاعلان بادشاہت ہوا کرتی تھی ہم غیر اعلانیہ برائے نام جمہوریت کی باشاہت تلے دبے ہوئے ہیں،راتوں رات پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے لیکر چینی اور گندم کی اسمگلنگ تک،آن لائن کلاسز کے حکم نامہ سے لیکر بندوق برادری جھتوں کی غنڈہ گردی سے برمش کی یتیم ہونے تک ایسا کونسا فیصلہ ہے جس میں براہ راست امراء کو فائدہ نہ پہنچ رہا ہو یا براہ راست استحصالی طبقے کی مضبوطی کا باعث نہ بن رہا ہو،فرانسیسی شہزادی نے بھوک سے مرتے کسان کو دیکھ کر کہا تھا کہ اگر روٹی نہیں ملتی تو یہ کیک کیوں نہیں کھاتا،آج کا سرمایہ دار وزیر کہتا ہے اگر آٹا مہنگا ہے تو لوگ فروٹ کیوں نہیں کھاتے،نسلیں تو بدل گئیں لیکن عادات و فطرت نہیں بدلی،استحصال کا طریقہ کار نہ بدلا،ایسے ہی رویے حاکم اور محکوم میں فرق واضح کر دیتے ہیں،عوام کو پیغام یہ دیا جاتا ہے کی تم ایک ادنیٰ اور ہم اعلی مخلوق ہیں ایسے میں پارلیمنٹ میں بیٹھے سرمایہ دار،جاگیردار،ساہوکاروں سے بہتری کی توقع رکھنا حد درجے کی پاگل پن و بیوقوفی ہے۔
ایک شخص نکلا تھا تبدیلی لانے جس نے بچپن سے جوانی اور بڑھا پے تک پوری زندگی محسور کن جھرمٹوں،پر آسائش رونقوں میں گزاری تھی اس نے حالات کی سختی تو درکنار کبھی سورج کی تپش تک محسوس نہیں کی تھی، پوری الیکشن مہم میں جہاز اور ہیلی کاپٹر سے نیچے ہی نہیں اترا، لوگ اور سلیکٹر سمجھ بیٹھے تھے کہ یہ بندہ آسمان سے تارے اتار لائے گا،شہد اور دودھ کی نہریں بہیں گی،یہ ایک عجیب انقلابی تھا جس کے چاروں ہور سرمایہ داروں جاگیرداروں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں،اسکے منصب اقتدار سنبھالنے کے بعد وہی کچھ ہونا تھا جو آج ہورہا ہے۔ اسے چھوڑئیے زرا پیچھے چلے جائیے،کہتے ہیں ذوالفقار علی بھٹو جمہوری و انقلابی بندہ تھا،کیا کوئی جاگیردار بھی انقلابی و جمہوری ہو سکتا ہے؟تاریخ کا ہر پنہ چیخ چیخ کر کہتا ہے جاگیر داری رد انقلاب ہوتی ہے انقلابی نہیں،سندھ کا کوئی ایک جاگیر دار بتا دیں جو مسٹرذوالفقار علی بھٹو کا ساتھی نہ رہا ہو؟،لیاقت علی خان سے لیکر بھٹو،نواز شریف،زرداری اور اب عمران خان یہ سب جاگیرداریت کے نمائندے ہیں، انقلاب ہمیشہ بھوک و محکومیت سے جنم لیتا ہے نچلے طبقے ابھرتے ہیں یہ کبھی اوپر سے نیچے کی طرف نہیں جاتا کیونکہ سورج بھی جب ڈھلان کی طرف جا ئے تو غروب ہوجاتا ہے،جاگیرداریت کے محل سے انقلاب یا تبدیلی کا جنم ہونا فطرت کے تقاضوں کے بر خلاف ہے۔
ہوسکتا ہے عمران خان کے بعد شہباز شریف،بلاول بھٹو زرداری یا اسی سرمایہ دار طبقے کا کوئی فرد منصب اقتدار پر براجماں ہو اور ہونا بھی یہی کچھ ہے کیونکہ ان کے بغیر بظاہر کوئی آپشن نظر نہیں آرہا،تب بھی تبدیلی یا انقلاب کا ظہور پزیر ہونا نا ممکنات میں سے ہے،جب تک پسا ہوا محکوم طبقہ اپنے حق کیلئے خود اٹھ کھڑا نہ ہوگا،عمران خان جیسے نو آموز سرمایہ دار اربوں روپے کے جہاز میں بیٹھ کر تبدیلی کے نام پرجاگیرداری و سرمایہ داری نظام کے تحفظ کیلئے آتے رہیں گے،نواز شریف اور ذوالفقار علی بھٹو مارشل لاء کا فیڈر چوس کر جوان ہوتے رہینگے اگر بغل بچوں کی ضرورت ختم ہو تو ماشل لائی ایوب خان،ضیاء الحق و مشرف مسیحا بن کر ابھرتے ہیں اور اپنے ہی لے پالک عناصر پر ڈنڈا پھیر دیتے ہیں،تب انہی استحصالی طبقے کو عوام و جمہوریت کا مروڑ ستانے لگتا ہے،سلسلہ چلتا جائے گا

اپنا تبصرہ بھیجیں