مقبوضہ کشمور بمقابلہ مقبوضہ کشمیر

تحریر: گل حسن بہلکانی
مقبوضہ کشمیر میں انسانوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و جبر کا تو ہم بچپن سے ہی سنتے آ رہے ہیں لیکن پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع کشمور میں بھی کشمیر سے بدتر حاالت ہونگے یہ شاید ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ ضلع کشمور کے حاالت کا سن کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور انسانیت شرما جاتی ہے۔ پہلے ہمیں کتابوں یا میڈیا سے معلوم ہوتا تھا کہ بھارت کے ریاستی ادارے کیسے کشمیریوں پر ظلم کرتے ہیں لیکن اب بھارت کو کشمور کے ڈاکو راج کے ظلم کی داستانیں شاید خوف و دہشت کی وجہ سے کشمور سے بڑی تعداد میں ہجرت کر کے بھارت جانے والے ہندو خاندانوں سے سننے کو ملیں۔ شاید یہ ہجرت کر کے جانے والے ہندو خاندان وہاں سب کچھ بتائیں گے کہ ہم ایسے علاقے سے ہجرت کر کے آ رہے ہیں جہاں نہ مرد محفوظ ہے، نہ عورت، نہ بچہ محفوظ ہے نہ بوڑھا۔ جہاں کے ڈاکو کم عمر بچوں اور بڑوں کو اغوا کر کے ان کے ساتھ ریپ کر کے وڈیو بنا کر سوشل میڈیا میں وائرل کرتے ہیں، جہاں سفید ریش لوگوں کی داڑھی اور بال مونڈ کے وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کی جاتی ہے لیکن ریاستی ادارے تماشا دیکھتے ہیں۔ جہاں لوگوں کو اغوا برائے تاوان کے لیے اغوا کیا جاتا ہے اور ان پر تشدد کیا جاتا ہے، ان کے جسموں پر پلاسٹک کو آگ لگا کر گرایا جاتا ہے، ان کو ننگا کر کے ان کی وڈیو بنائی جاتی ہیں، تاوان ادا نہ کرنے پر مغویوں کو گولی مار کے زخمی کیا جاتا ہے یا پھر مار دیا جاتا ہے اور دہشت پھیلانے کے لیے وڈیو بنا کر وائرل کی جاتی ہے۔ جہاں ایک دن میں درجنوں لوگوں کو اغوا کیا جاتا ہے، جہاں جنازے کو بھی نہیں بخشا جاتا اور ایمبولینس میں موجود میت کے ورثاءسے پیسے اور موبائل فون چھینے جاتے ہیں۔ جہاں دلہن کے زیورات اتارے جاتے ہیں۔ جہاں ایک دن میں ایک ہی خاندان کے آٹھ آٹھ جنازے نکلتے ہیں۔ جہاں شعور کو بھی نہیں بخشا جاتا، پاکستان بھر میں چند ہی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ڈگری رکھنے والے لوگوں میں سے ایک اجمل سانوند کوبھی قتل کیا جاتا ہے۔ جہاں اتنی دہشت پھیل چکی ہے کہ اساتذہ اور طلباءتعلیمی اداروں تک ڈر ڈر کے پہنچ رہے ہیں۔ تعلیم کے ضلعی افسر کو میڈیا میں آکر کہنا پڑتا ہے کہ دہشت کی وجہ سے اسکولوں میں حاضری کم ہوگئی ہے۔ کچھ دن پہلے ایک فرض شناس استاد اللہ رکھیو نندوانی اپنی حفاظت کے لیے ہاتھ میں بندوق تھامے اسکول ڈیوٹی پر پہنچا تو سوشل میڈیا میں ان کی وڈیو وائرل ہوئی کہ کیسے ایک استاد جان ہتھیلی پر رکھ کر ڈیوٹی پر جا رہا ہے اور ریاستی ادارے تماشا دیکھ رہے ہیں۔ وڈیو وائرل ہونے کے تیسرے ہی دن ڈاکو ان استاد کو قتل کردیتے ہیں۔ بھارت ہجرت کرکے جانے والے ہندو برادری کے لوگ کشمور کے ڈاکو راج کی داستانیں کشمیریوں کو سنائیں تو شاید وہ بھی حیران رہ جائیں گے کہ مظالم میں کشمور کشمیر سے بھی آگے نکل چکا ہے۔ یہ سب ہونے کے باوجود ریاستی اداروں کا خاموش رہنا کافی سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ اب تو لوگ سوال کرنے لگے ہیں کہ ریاست کی خاموشی کے کیا اسباب ہیں، آیا ریاستی ادارے اتنے کمزور ہوچکے ہیں کہ ڈاکو راج کا مقابلہ نہیں کرسکتے یا پھر ایسے حالات پیدا کرنے میں بڑے عناصر کا ہاتھ ہے جو سندھ میں بدامنی پھیلا کر سندھ کو پیچھے دھکیلنا چاہتے ہیں۔ ضلع کشمور کی جغرافیہ کو دیکھیں تو یہ صوبہ پنجاب اور بلوچستان سے ملتا ہے۔ ضلع کشمور کے ساتھ ضلع گھوٹکی ہے جو ضلع پنجاب سے ملتا ہے اور ان دونوں اضلاع میں ڈاکو راج قائم ہے، اس جغرافیہ کے پہلو سے بھی لوگ سوالات اٹھا رہے ہیں کہ سندھ کے وہی علاقے ڈاکو راج کا مرکز کیوں بنے ہوئے ہیں جو پنجاب سے ملے ہوئے ہیں، جبکہ وہاں پنجاب کی حدود میں ایسے حالات کیوں نہیں ہیں؟ ضلع گھوٹکی کے پنوعاقل اور کشمور ڈیرہ موڑ کے قریب فوجی چھاﺅنی موجود ہونے کے باوجود ڈاکو راج کا خاتمہ نہ ہونا بھی عجیب موقف بیان کر رہا ہے۔ کشمور، گھوٹکی اور شکار پور اضلاع میں آپریشن کے نام پر سندھ حکومت اربوں روپے جاری تو کرتا ہے لیکن وہ پیسے شاید کرپشن کی نظر ہوجاتے ہیں۔ پولیس، آپریشن کے نام پر فوٹو سیشن کر کے میڈیا میں کارکردگی کے بڑے بڑے دعوے کرتی ہے لیکن حقیقت میں پولیس ڈاکوﺅں کے آگے بے بس دکھائی دیتا ہے۔ دن دہاڑے ڈاکو درجنوں کی تعداد میں شہر میں داخل ہوتے ہیں اور بنا کسی خوف کے سونے کی دکانوں سے ڈکیتی کر کے چلے جاتے ہیں۔ پولیس کی چوکیوں کے سامنے ڈکیتی کے واردات کیے جاتے ہیں لیکن پولیس کو ایک ہوائی فائر کرنے کی بھی جرات نہیں ہوتی۔ پولیس والوں کو اغوا کر کے لے جاتے ہیں اور ان سے اپنے ایس ایس پی کو گالیاں دلوا کے وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کیا جاتا ہے۔ ڈاکوﺅں کے ہاتھوں درجنوں پولیس اہلکار اور افسر ہلاک اور زخمی ہوچکے ہیں۔ ڈاکو سرعام ہتھیاروں کی نمائش کرتے ہیں اور ان کے پاس خطرناک ہتھیار ہیں جس سے ٹینک اور جہاز کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ڈاکوﺅں کے پاس ایسے خطرناک ہتھیار کیسے اور کہاں سے آئے؟ ان کو کس طاقتور عناصر کی پشت پناہی حاصل ہے؟ یہ بھی سیریس نوعیت کے سوالات ہیں۔ ہم تو کشمیر آزاد کرنے کے خواب دیکھتے ہیں لیکن ہم کشمور کو ڈاکو راج سے آزاد نہیں کرپا رہے۔ امید کا دامن نہ چھوڑنا چاہیے، ہم امید کررہے ہیں کہ کشمور اور کشمیر کے لوگوں کو ایک دن ظلم وزیادتی سے آزادی ملے گی۔ پتا نہیں مقبوضہ کشمیر پہلے آزاد ہو یا مقبوضہ کشمور لیکن دونوں کی آزادی میں انسانیت کی ہی بھلائی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں