کوئٹہ، سکھ مت کے پیرو کاروں کو دو سو سالہ قدیم عبادت گاہ 73 سال کے بعد دوبارہ حوالے کردی گئی
کوئٹہ:پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دار الحکومت کوئٹہ میں سکھ مت کے پیرو کاروں کو دو سو سالہ قدیم عبادت گاہ 73 سال کے طویل عرصے بعد دوبارہ حوالے کردی گئی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سکھوں کی بھارت نقل مکانی کے بعد گردوارے کی عمارت کو سکول میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ اس سے پہلے رواں سال فروری میں بھی حکومت بلوچستان نے ژوب میں اقلیتی ہندو برادری کو دو سو سالہ پرانا مندر حوالے کیا تھا۔ پار لیما نی سیکر ٹری بر ائے اقلیتی امور دھنیش کمار پلیانی نے غیر ملکی خبر رسا ں ادارے کو بتایا کہ کوئٹہ کے مرکزی علاقے مسجد روڈ پر واقع گردوارہ ’سری گرو سنگھ سبھا‘کو 73 سال بعد بحال کیا گیا ہے یہ کوئٹہ میں سکھوں کی سب سے مشہور اور تاریخی عبادت گاہ تھی جس کی تاریخ تقریباً دو سو سال پرانی ہے 14 ہزار مربع فٹ پر مشتمل اس گردوارے کی زمین اربوں روپے مالیت رکھتی ہے لیکن حکومت نے اس عمارت کے کسی اور مقصد کے استعمال کی بجائے اقلیتوں کے حق کو تسلیم کیا۔ دھنیش کمار کے مطابق عمارت میں واقع اپوا گرلز اسکول کی طالبات کو قریب واقع تین دیگر گرلز سکولوں میں داخل کرادیا گیا ہے اور ان سکولوں کو اپ گریڈ بھی کردیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ اسکول کو دوبارہ گردوارے میں تبدیل کرنے سے کسی کی تعلیم کا نقصان نہیں ہوا۔تاہم عبادتگاہ طویل عرصے بعد دوبارہ سکھ کمیونٹی کے حوالے کرنے سے نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کا تشخص بھی بہتر ہوگا اور پوری دنیا کو پیغام پہنچے گا کہ یہاں رہنے والی اقلیتیں محفوظ ہیں اور اکثریت ان کے مذہبی عقائد کا خیال رکھتی ہے اس حوالے سے بلوچستان میں سکھ کمیونٹی کے چیئرمین سردار جسبیر سنگھ نے گردوارے کی بحالی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے سکھ کمیونٹی کے لیے حکومت کا تحفہ قرار دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ صوبے کی سکھ کمیونٹی بہت خوش ہے کہ حکومت پاکستان اور ہائیکورٹ کی جانب سے یہ گردوارہ سکھ کمیونٹی کے حوالے کیا گیا ہے اور 73 سال بعد گردوارے کو کھولا گیا ہیپورے پاکستان اور باقی دنیا سے بھی سکھ کمیونٹی نے اس اقدام کی ستائش کی ہے۔سردار جسبیر سنگھ کے مطابق کوئٹہ میں تقریباً دو ہزار سکھ خاندان رہتے ہیں۔ ڈیرہ بگٹی، اوستہ محمد اور پشتون علاقوں سمیت بلوچستان کے دیگر اضلاع میں بھی سکھوں کی آبادی موجود ہے۔ ’ہمیں عبادت گاہوں کی کمی محسوس ہوتی تھیکوئٹہ میں ہمارے گردوارے بہت کم تھے۔ تاریخی گردوارے جسے سنگھ سبھا کہا جاتا ہے جو سکھوں کیلئے خاص ہوتے ہیں وہ کوئٹہ میں کوئی نہیں تھا۔ ویسے گرونانک دربار جہاں پر ہندو اور تمام مذاہب کے لوگ عبادت کرتے ہیں وہ تین چار بنے ہوئے ہیں لیکن تاریخی اہمیت کے حامل نہیں تھے۔اندرون اوربیرون ملک سے جو سکھ یاتری بلوچستان آتے تھے ہمارے پاس ان کو ٹھہرانے کی جگہ بھی نہیں تھی۔‘