بلوچی فلموں کے اداکار شاہنواز سے مکالمہ کی روئیداد

تحریر؛عبدالحلیم

گوادر فن و ادب کی سرزمین ہے یہاں پر اداکاری کا شعبہ گہری شغف اور زرخیزیت کا آئینہ دار ہے جس میں شاہنواز کا بھی نام ہے. شاہنواز میں اداکاری کا شوق کیسے پیدا ہوا اور ان کو اس شعبہ میں رہ کر کیا مقام ملا. اور وہ بلوچی فلموں کا حال اور مستقبل کیسے دیکھ رہے ہیں. آئیے جانتے ہیں ان کی اپنی زبانی.

شاہنواز کہتے ہیں کہ وہ 1998 سے بلوچی فلموں میں اور اسٹیج ڈراموں میں اداکاری کرتے چلے آرہے ہیں. اپنے 22 سالہ اس کیریئر میں وہ اب تک سات فیچر فلموں، چھ مختصر دورانیے کی فلموں اور آٹھ اسٹیج ڈراموں میں اداکاری کر چکے ہیں. اس کے علاوہ ان کو متعدد دستاویزی فلموں میں بھی کام کرنے کا موقع ملا ہے.

شاہنواز نے اپنی اداکاری کی شروعات اسکول کے زمانہ میں سال 1997 میں اسکول کی ہی ایک تقریب میں پیش کیے جانے والے اسٹیج ڈرامے سے کیا تھا.

شاہنواز کا کہنا ہے اس نے باقاعدہ کسی ادارے سے اداکاری کی تربیت حاصل نہیں کی ہے بلکہ اس نے دیکھا دیکھی میں یہ فن سیکھا ہے. شاہنواز ماضی کے معروف بلوچی فلموں اور تھیٹر کے اداکار حکیم فراز سے بھی متاثر ہوکر فنکاری کے میدان قدم رنجاں ہوئے.

بلوچی تھیٹر شو "سیر نہ کناں” اور بلوچی فیچر فلم "زار مکن زرگل” شاہنواز کی اداکاری کی وجہ شہرت بنے. فلم بینوں اور ناظرین کی جانب سے بھرپور پزیرائی کرنے پر شاہنواز کا اداکاری میں اشتیاق مزید بڑھ گیا.

بہترین کارکردگی پر شاہنواز کی اداکاری کو صوبائی اور قومی سطح پر بھی مانا گیا. پاکستان ٹیلی ویژن اسلام آباد میں ان کو دو اردو ڈراموں میں کام کرنے کا موقع دیا گیا جبکہ پی ٹی وی بولان کوئٹہ میں بھی ایک بلوچی ڈرامہ میں ان کو کاسٹ کیا گیا ہے. یہ ڈرامہ بہت جلد ریلیز ہونے والا ہے.

شاہنواز اس وقت مقامی طورپر کام کرنے والے دو اداروں کے ساتھ کام کررہے ہیں. جس میں ایک ادارہ کا نام خیرجان آرٹ اکیڈمی ہے اور دوسرے کا نام بام فلم پروڈکشن ہے.

شاہنواز کہتے ہیں کہ خیرجان آرٹ اکیڈمی کثیر المقاصد اہمیت کا حامل ادارہ ہے. خیرجان آرٹ اکیڈمی نہ صرف فلمسازی اور تھیٹر کے شعبہ پر کام کرتاہے بلکہ یہ فن و ادب کے دیگر شعبوں اور ثقافتی پروگرام کو بھی پروموٹ کرتا ہے. جب کہ بام فلم پروڈکشن صرف فلمسازی کرتی ہے. اس کے علاوہ جو نوجوان فلمسازی کے شعبہ میں پیشہ ورانہ طور پر آگے آنا چاہتے ہیں ان کی رہنمائی اور مدد بھی کرتا ہے. اس وقت بام فلم پروڈکشن کے تعاون سے بہت سے نوجوان فلمسازی کی اعلیٰ تعلیم مکمل کررہے ہیں.

شاہنواز گلہ کرتے ہیں کہ جو ادارے فلمسازی یا فن و ادب سمیت ثقافت کو اجاگر کرنے کا کام کررہے ہیں ان کو سرکاری پرستی حاصل نہیں. یہ ادارے لوگوں کے تعاون یا اپنی مدد آپ کے تحت آگے بڑھ رہے ہیں. مقامی فنکاروں کو بھی سرکاری حوصلہ افزائی حاصل نہیں. گوادر کے بہت سے فنکار بے روزگاری کی عفریت کا شکار ہونے کے باوجود اپنے فن کا مظاہرہ کررہے ہیں. فلموں یا تھیٹر سے آمدنی نہ ہونے کے برابر ہے.

شاہنواز کو فلم بینوں نے "زار مکن زرگل” میں عورت کے کردار میں بے حد سرآہا. شاہنواز کا کہنا ہے کہ پہلے اس نے عورت کے کردار میں آنے سے معذرت کی لیکن ڈائریکٹر کے بے حد اصرار پر وہ یہ رول اداکرنے پر مجبور ہوا. لیکن جب فلم ریلیز ہوئی تو میرا رول میری شہرت کی وجہ بنی جسے حد سے زیادہ پسند کیا گیا.

بلوچی فلم "زار مکن زرگل” کے متعلق شاہنواز کا کہنا ہے کہ پہلے یہ فلم ایک ڈرامہ سیریل کے طورپر پیش کیا جانا مقصود تھا جو مقامی کیبل سنج ٹی وی کی پروڈکشن تھی جس کا نام "پنڈگ ءِ نام بدنت نان ءِ بز اِنت” رکھا گیا تھا لیکن بعد میں اس کو فیچر فلم میں تبدیل کرکے "زار مکن زرگل” کے نام پر شائع کیا گیا.

شاہنواز کی رائے ہے کہ بلوچی فلموں میں خواتین فنکاروں کی شرکت محدود نہیں ہوئی ہے. بلوچ خواتین کا بلوچی فن و ادب میں ہمیشہ سے کردار رہا ہے اور اب بھی ہے. کراچی کی مثال پیش کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ کراچی میں بلوچ خواتین فنکار فلم کررہی ہیں اور تھیٹر پر بھی آرہی ہیں اس کے علاوہ فلم میکنگ بھی کرتی ہیں.

بلوچی فلمسازی اور تھیٹر کے لیے جدید زرائع اور سہولیات کے حوالے سے شاہنواز کا کہنا ہے کہ اب تک بلوچی فلمسازی وغیرہ کے لیے جو بھی کام ہوا ہے یا ہورہا ہے اس کی بنیاد شوقیہ طور پر استوار ہے. جدید دور کے زرائع سے ہم آھنگ ہونے کے لئے بلوچی فلمسازی کے شعبہ کا پیشہ ورانہ ہونا ضروری ہے جس کے بعد اس شعبہ میں جدید ٹیکنالوجی اور تکنیک کو استعمال کیا جاسکتا ہے. فی الحال جو وسائل دستیاب ہیں یہ ذاتی استعمال کی چیزیں ہیں جن کا استعمال لوگ اپنی شوق کی تسکین کے لئے کرتے ہیں.

شاہنواز بلوچی فلموں کے مستقبل کو تابناک اور روشن دیکھ رہے ہیں. شاہنواز کا اس حوالے سے یہی استدلال ہے کہ پہلے زمانہ میں لوگ فلم یا تھیٹر بغرض تفریح دیکھتے تھے لیکن موجودہ زمانہ میں فلمیں دیکھنے کے بعد فلم بین اور شائقین اس کے معیار اور خامیوں پر بھی رائے زنی کرتے ہیں جس سے یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فلم بینی ختم نہیں ہوئی ہے اور بلوچی فلموں کے دیکھنے کا رجحان اب بھی موجود ہے.

شاہنواز اداکاری کے میدان میں نئے ٹیلنٹ کی شمولیت کو بھی حوصلہ افزاء قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ نئی ٹیلنٹ کا میلان اس شعبہ میں بڑھا ہے. اگر کوئی اور وجہ مانع نہ ہوئی تو بلوچی فلموں کا نیا ٹیلنٹ اپنا بہترین مقام بنا سکتا ہے اور نام کما سکتا ہے.

جس طرح ایک زمانہ میں ہم پر مایوسی طاری ہوئی تھی لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری اور ثابت قدمی دکھاکر اپنے فن کو جاری رکھا. آج بہت سے نوجوان فلمسازی اور اس سے وابستہ تکنیک کی تعلیم حاصل کررہے ہیں جب یہ فارغ ہوکر واپس آئیں گے تو فلمسازی کی جہت میں اضافہ ہوسکتا ہے.

شاہنواز کہتے ہیں کہ فلم یا تھیٸٹر صرف تفریح کا نام نہیں بلکہ یہ کسی بھی قوم کی تاریخ، ثقافت، ادب، زبان اور رہن سہن سمیت معاشرتی مسائل کو بھی اجاگرکرنے کا ذریعہ ہوتی ہیں. بلوچی فلمسازی سے یقینا بلوچ قوم کی تاریخ، ادب، زبان اور ٹقافت کی تشہیر ممکن ہوگی یہ اسی کا لازم و ملزوم حصہ ہے.

شاہنواز عیدالاضحیٰ کے بعد ریلیز ہونے والی ایک مختصر دورانیے کی فلم "دودا” میں جلوہ افروز ہونے جارہے ہیں. شاہنواز کہتے ہیں کہ یہ فلم نوساچ فلم پروڈکشن کراچی کی پیشکش ہے. اس فلم کی ریلیز میں عالمی وباء کرونا کی وجہ سے تاخیر ہوئی تھی. فلم میں مکران سے بھی تعلق رکھنے والے اداکاروں نے اداکاری ہے ان میں ایک نام بلوچی فلموں کے بزرگ و لیجنڈ اداکار مرحوم ماما انور صاحب خان کا بھی ہے.

شاہنواز فخر محسوس کرتے ہیں کہ وہ لیجنڈ اداکار ماما انور کے آخری فلم میں ان کے ساتھ اسکرین پر آرہے ہیں.

اپنا تبصرہ بھیجیں