پنجگور میں بدامنی کا زور
تحریر: اللہ داد بلوچ
بلوچستان کے مغربی حصے میں واقع مکران کے ضلع پنجگور ایک اہم تجارتی اور سرحدی شہر ہے، جو ایران سے متصل ہونے کی وجہ سے تجارتی سرگرمیوں کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ تاہم حالیہ مہینوں میں پنجگور میں بدامنی، چوری، ڈکیتی، ٹارگٹ کلنگ اور انتظامیہ کی مبینہ ناکامی نے شہریوں اور تاجر برادری کو شدید عدم تحفظ کا شکار کر دیا ہے
پنجگور میں بڑھتی ہوئی بدامنی، چوری، ڈکیتی، ٹارگٹ کلنگ اور انتظامیہ کی مبینہ ناکامی کے خلاف انجمن تاجران کی کال پر شہر میں دو روزہ شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی۔ مرکزی بازار سمیت بینک، دفاتر اور تجارتی مراکز مکمل طور پر بند رہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز انجمن تاجران پنجگور نے ایک اہم پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ اگر شہر میں امن و امان کی صورتحال بہتر نہ ہوئی تو احتجاجاً شٹر ڈاؤن کیا جائے گا۔
پنجگور کے نئے ڈپٹی کمشنر میجر ریٹائرڈ عبدالکبیر زرکون نے صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے انجمن تاجران کے صدر فرید احمد اور ڈی پی او کو ملاقات کے لیے طلب کیا۔ فرید احمد کے مطابق ڈی سی صاحب حال ہی میں تعینات ہوئے ہیں، اس لیے موجودہ حالات پر ان سے کوئی شکایت نہیں، لیکن ہم ان سے حالات کو بہتر کرنے کی توقع رکھتے ہیں۔
ڈی سی اور انجمن تاجران کے درمیان ہونے والا اجلاس خوشگوار ماحول میں اختتام پذیر ہوا۔ ڈی سی نے 72 گھنٹوں کی مہلت مانگی اور اعلان کیا کہ وہ خود مرکزی بازار کا دورہ کریں گے اور امن و امان کے معاملات کا جائزہ لے کر انہیں اپنی نگرانی میں بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔
تاجر برادری کے صدر فرید احمد نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ پنجگور میں اسلحہ کلچر عام ہوتا جا رہا ہے۔ بازار میں تاجر محنت سے روزگار کرکے چند پیسے کماتے ہیں لیکن انہیں گن پوائنٹ پر لوٹا جاتا ہے، دکانیں توڑی جاتی ہیں، گھروں کو جاتے ہوئے بھی نشانہ بنایا جاتا ہے اور حتیٰ کہ وہ گھروں میں بھی محفوظ نہیں۔ انہوں نے مزید کہا ہم نے انتظامیہ کو 72 گھنٹوں کی مہلت دی ہے، اگر اس دوران صورتحال بہتر نہ ہوئی تو ہمارا لائحہ عمل مزید سخت ہوگا۔
صدر انجمن تاجران نے حالیہ وارداتوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گزشتہ دنوں ایک تاجر سے سوئفٹ گاڑی چھین لی گئی، دو کمسن بچے اغوا ہوئے، ایک معذور سرکاری ملازم کو لوٹا گیا، حاجی انیس مارکیٹ اور ایک سونے کی دکان کو لوٹ مارکا نشانہ بنایا گیا۔
انہوں نے شکایت کی کہ سابقہ ڈی سی نے کبھی بازار کا دورہ نہیں کیا اور پولیس کی جانب سے بھی کوئی مؤثر کارروائی نہیں ہوئی، حالانکہ متعدد وارداتوں کی ایف آئی آرز درج کروائی گئی تھیں، اور پولیس کو چور، ڈکیتوں کی معلومات بھی ملی تھیں مگر پولیس کی جانب سے کوئ ایکشن نہیں لیا گیا۔
پنجگور میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال پر شہری بھی پریشان ہیں۔ ماضی میں بدامنی کو بارڈر بندش سے جوڑا جاتا تھا، لیکن اب جب بارڈر کھلا ہے، تب بھی وارداتوں میں کمی نہیں آ رہی۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی نااہلی اس صورتحال کی اصل وجہ ہے۔
میئر پنجگور میر شکیل قمبرانی نے بھی حال ہی میں امن و امان کی بہتری کے لیے اجلاس بلایا، جس میں مختلف سیاسی و سماجی شخصیات نے شرکت کی۔ اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے میئر کا کہنا تھا، ڈی پی او کا کردار غیر مؤثر ہے۔ ان کی سرگرمیاں صرف دفتر سے گھر اور میٹنگز تک محدود ہیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ پنجگور میں ایک ایماندار اور فرض شناس ڈی پی او تعینات کیا جائے۔
علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ پنجگور میں بدامنی کی متعدد وجوہات ہیں، سرگرم پرائیوٹ ملیشیا، جن میں اسلحہ کلچر، سیاسی اثر و رسوخ، پولیس میں کرپشن، اور طاقتور افراد کی مجرموں کو پشت پناہی، شامل ہیں۔ پولیس اہلکاروں پر دباؤ، سفارش اور کرپشن کے باعث جرائم پیشہ عناصر کھلے عام دندناتے ہیں۔
پنجگور کے ایک غ نامی نوجوان نے کہا کہ جب پولیس کسی مجرم کو گرفتار کرتی ہے تو بااثر افراد کی فون کالز آ جاتی ہیں کہ یہ ہمارا بندہ ہے، اسے چھوڑ دو۔ جب تک پولیس کو مکمل اختیارات نہیں دیا جاتا اور پولیس اپنی تمام وسائل بروکار نہیں لائے گی حالات اس سے بدتر ہونگے کوئی بھی محفوظ نہیں ہوگا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ منشیات بھی بدامنی کا بڑا سبب بن چکی ہیں۔ شہر میں منشیات فروشی کھلے عام ہو رہی ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ نشے کے عادی افراد گھروں میں گھس کر چوریاں کر رہے ہیں، جن میں پانی کے موٹر، سولر پینل، دروازے، نلکیاں سب شامل ہیں۔ ہر گلی اور محلے میں ٹماٹر اور پیاز شاید دستیاب ہونا مشکل ہو گا مگر منشیات ہر گلی آسانی کے ساتھ دستیاب ہے
پنجگور شہر کو ایماندار افسران کی اشد ضرورت ہے، جو لا اینڈ آرڈر مکمل فعال کر سکیں، اسلحہ کلچر کو ختم کر سکیں ، منشیات کے اڈے بند کر سکیں ، مجرموں کو انکے انجام تک پہنچا سکیں ، کوئ بھی دباؤ میں آے بغیر اپنا فرض بخوبی ادا کریں ۔


