افغانستان اور پاکستان ….اسٹریٹجک ڈیپتھ

تحریر: جیئند ساجدی
بین الاقوامی تعلقات عامہ میں ایک کہاوت مشہور ہے کہ دوست اور دشمن مستقل نہیں ہوتے صرف مفادات مستقل ہوتے ہیں، اس کا مفہوم یہ ہے کہ بین الاقوامی ممالک کے درمیان دوستی اسی وقت قائم ہوتی ہے جب ان کے مفادات مشترکہ ہوں اور اگر ان کے مفادات میں تضاد ہو تو آج کے دوست کل کے دشمن بھی بن سکتے ہیں، دنیا میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں، دوسری عالمی جنگ کے وقت روس اور امریکہ اتحادی تھے لیکن جنگ کے بعد دونوں کے مفادات الگ ہوئے تو دونوں حریف بن گئے، پہلی دو عالمی جنگوں میں جرمنی اور فرانس سخت حریف تھے لیکن آج کل ان کے مفادات ایک ہیں تو وہ (نیٹو اور یورپی یونین) اتحادی ہیں۔ افغانستان اور پاکستان کی 78 سالہ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کبھی خوشگوار تعلقات قائم نہیں ہوئے، اس سے یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ دونوں کے مفادات میں تضاد رہا ہے۔ اس کی اہم وجہ ڈیورنڈ لائن کی سرحد ہے، جسے پاکستان ایک بین الاقوامی سرحد مانتا ہے لیکن افغانستان اسے ایک سامراج کی مسلط کردہ سرحد تصور کرتا ہے۔ یہ سرحد 1893ءمیں برطانوی سرکاری ملازم مونٹیگر ڈیورنڈ نے کھینچی تھی، جس کے تحت موجودہ پاکستان کا صوبہ خیبر پختونخوا، فاٹا، بلوچستان کے پشتون علاقے اور پنجاب کے اٹک اور میانوالی کے علاقے افغانستان سے لیکر پاکستان میں شامل کیے گئے تھے۔ 1947ءمیں جب برطانیہ نے اس خطے سے انخلا کیا تو ان علاقوں کو دو ہی آپشن دیے گئے تھے کہ یا تو ہندوستان میں شمولیت کریں یا پاکستان میں۔ اس وقت برطانوی ہندوستان میں پشتونوں کی مقبول ترین پارٹی خدائی خدمتگار تھی جنہوں نے ریفرنڈم میں آزاد پشتونستان کو شامل کرنے کی بھی درخواست کی تھی لیکن ان کو دو ہی آپشن دیے گئے ہندوستان یا پاکستان۔ جس کی وجہ سے خدائی خدمتگار نے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا اور ریفرنڈم کے بعد یہ علاقے پاکستان کا حصہ بن گئے۔ افغانستان نے اس بات کی کھلم کھلا مذمت کی اور آزاد پشتونستان کا نعرہ لگایا۔ اس کے علاوہ افغانستان نے پاکستان کی اقوام متحدہ میں شمولیت کی بھی مخالفت کی۔ افغانستان اور خدائی خدمتگار کے اس عمل سے پاکستانی اشرافیہ میں پشتون فوبیا اور افغانستان فوبیا نے جنم لیا اور انہوں نے ایسی اندرونی اور بیرونی پالیسیاں بنائیں جس سے اس فوبیا کا خاتمہ کیا جائے۔ پاکستان میں مقیم پشتونوں کو اشرافیہ نے شناخت نہیں دی اور ان کے علاقوں کو مختلف انتظامی اکائیوں میں تقسیم کیا، ان کے ایک علاقے کو صوبہ سرحد کا نام دیا گیا، ایک علاقے کو فاٹا کے نام سے الگ قبائلی حیثیت دی گئی، پشتونوں کے کچھ علاقے بلوچستان میں ڈالے گئے اور کچھ علاقے (اٹک اور میانوالی) پنجاب میں ڈالے گئے۔ اس کا مقصد پشتون نیشنلزم کے فروغ کو روکنا تھا۔ پولیٹیکل سائنٹسٹ یہ کہتے ہیں کہ نیشنلزم کے فروغ کیلئے ایک انتظامی حدود میں رہنا بہت ضروری ہوتا ہے، اس سے قوم کے سیاسی عزائم ایک ہوتے ہیں، مختلف انتظامیہ میں رہنے والے لوگوں کی نیشنلزم کمزور ہوتی ہے اور وہ قوم نہیںبن سکتے۔ اس کے علاوہ پاکستانی اشرافیہ کا یہ تصور تھا کہ افغانستان اگر ایک طاقتور ریاست بنتا ہے تو وہ پاکستان کے آدھے سے بھی زائد حصے پر اپنا دعویٰ رکھے گا۔ یاد رہے کہ افغانستان کا دعویٰ صرف پاکستان کے پشتون علاقوں تک محدود نہیں تھا بلکہ غیر سرکاری سطح پر ان کا دعویٰ موجودہ پاکستانی بلوچستان پر بھی تھا۔ ان خدشات کا اظہار متعدد بلوچ دانشوروں نے بھی کیا ہے، جیسا کہ جان محمد دشتی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ افغانستان کا پورے بلوچ سرزمین پر دعویٰ ہے اور اس دعوے کو جائز اس طرح قرار دیتے ہیں کہ چند افغان رہنما یہ سمجھتے ہیں کہ احمد شاہ ابدالی کے دور میں مختصر وقت کیلئے بلوچستان افغانستان کا حصہ رہا ہے۔ حالانکہ ماضی میں خود افغانستان مختلف بیرونی سلطنتوں کا حصہ رہا ہے۔ اس حوالے سے عنایت اللہ بلوچ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب پرنس عبدالکریم نے بغاوت کی اور افغانستان کے علاقے سرلٹھ میں قیام کیا تو انہوں نے اپنے ایک سفیر کو افغانستان کے امیر کے پاس بھجوایا تھا کہ ہماری مدد کریں تو افغانستان کے امیر کا جواب یہ تھا کہ ہم آزاد بلوچستان کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ آزاد بلوچستان گریٹر افغانستان کے منافی ہے لہٰذا عنایت اللہ بلوچ نے یہ تجزیہ کیا تھا کہ بلوچ بحیرہ تک پہنچنا افغانستان جیسے لینڈ لاک کنٹری کا ایک دیرینہ خواب ہے۔
اس کے علاوہ سیلک ہیری سن یہ لکھتے ہیں کہ 1958ءتک افغانستان کے نقشوں میں پشتون علاقوں کے علاوہ پورا بلوچستان شامل تھا لیکن جب یہاں بغاوت ہوئی تو افغانستان نے بلوچ عسکریت پسندوں کی مدد کی اور ان کو ناراض نہ کرنے کیلئے انہوں نے اپنے نقشے سے بلوچستان کو الگ کردیا، تو لہٰذا دونوں ممالک نے ایسی خارجہ پالیسیاں اختیار کیں جو جارحانہ تھیں۔ 1979ءمیں افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہوا اور پاکستانی اشرافیہ نے یہ محسوس کیا کہ یہ ہما رے قومی مفاد میں ہے۔ خانہ جنگی کے بعد 1994ءمیں طالبان حکومت میں آئے اور بہت سے دانشوروں اور تھنک ٹینک کا یہ خیال تھا کہ ان کی مدد پاکستان نے کی ہے اور پاکستان سب سے پہلا ملک تھا جس نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا۔ پاکستانی مقتدرہ کا یہ خیال تھا کہ طالبان کا نظریہ جو اسلامک نیشنلزم پر مبنی ہے وہ نظریہ پاکستان (دو قومی نظریہ) سے بہت مماثلت رکھتا ہے تو لہٰذا طالبان وہ پہلی افغان سرکار ہوگی جو ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد تسلیم کرلے گی۔ اس کے علاوہ پاکستان خطے میں اپنا اثر و رسو خ بڑھانا چاہتا تھا اور پاکستانی دانشوروں نے اسٹریٹجک ڈیپتھ نامی مفروضہ دیا جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ افغانستان کو اپنے پانچویں صوبے کے طور پر استعمال کریںگے او رخطے میں اپنی اہمیت کو بڑھائیں گے لیکن ان کی توقعات کے برعکس افغانستان میں طالبان سرکار نے بھی ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور یہ کہا کہ اسلامی ریاستوں کے درمیان سرحدیں نہیں ہونی چاہئیں۔ اس عمل سے انہوں نے اپنی مذہبی نیشنلزم کے علاوہ لسانی نیشنلزم کا بھی اظہار کیا۔ 2001ءمیں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کردیا تو پاکستانی سرکار کو مجبوراً یوٹرن لینا پڑا اور امریکہ کا اتحادی بننا پڑا لیکن امریکہ کا یہ الزام تھا کہ پاکستان برائے نام امریکہ کا اتحادی ہے اور افغان طالبان سے لڑنے سے قاصر ہے۔ اس بات کی تصدیق سابقہ چیف آف آرمی اسٹاف پرویز مشرف نے بھی کی تھی اور یہ کہا تھا کہ پاکستانی حکام کو صاف الفاظ میں امریکہ کو یہ بتا دینا چاہیے کہ افغان طالبان سے دشمنی ہمارے قومی مفادات کے برعکس ہے۔ ایسی ہی بات حمید گل نے کی تھی کہ ہماری مشرقی سرحد پر انڈیا کی شکل میں ایک دشمن بیٹھا ہوا ہے اسی لیے ہم مغربی سرحد میں افغان طالبان کو ناراض نہیں کرسکتے۔ 2021ءمیں جب امریکہ اس خطے سے چلا گیا تو افغان طالبان پھر سے حکومت میں آگئے تو پاکستانی اشرافیہ کو یہ محسوس ہوا کہ پچھلی طالبان حکومت کی نسبت ہماری زیادہ احسان مند ہے تو یہ ڈیورنڈ لائن تسلیم کریں گے، ٹی ٹی پی اور بلوچ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو افغانستان میںختم کریں گے اور ہمیں اس خطے میں افغانستان کی وجہ سے اسٹریٹجک ڈیپتھ ملے گی۔ دوسری طرف افغان طالبان پر پاکستان حمایت یافتہ گروپ ہونے کا بڑا دباﺅ تھا، سابقہ افغان حکومت نے یہ پروپیگنڈا کیا تھا کہ طالبان پاکستان کے پراکسی ہیں اور عوامی رائے بھی یہی تھی لہٰذا پاکستان کی ہر بات کو تسلیم کرنے سے اس پروپیگنڈے کو تقویت ملتی ہے۔ ماضی کی طالبان حکومت کی نسبت موجودہ طالبان حکومت کو افغانستان کے عوام کی عوامی رائے کی پرواہ ہے لہٰذا اس پروپیگنڈے کو غلط ثابت کرنے کیلئے افغان طالبان نے پاکستان کی ہر بات کو تسلیم نہیں کیا اور ڈیورنڈ لائن پر پاکستان جو باڑ لگا رہا تھا اس کو اکھاڑ کر پھینک دیا اور ٹی ٹی پی کیخلاف کوئی کارروائی کرنے کیلئے وہ تیار نہیں تھا کیونکہ ٹی ٹی پی اپنا امیر افغان طالبان کے سربراہ کو تسلیم کرتی ہے۔ ان وجوہات کی وجہ سے پاکستان نے افغانستان میں فضائی حملے کیے ہیں جس پر افغان طالبان نے جوابی کارروائی بھی کی ہے۔ فوجی اور فضائی حوالے سے پاکستان کا پلڑا افغانستان پر بھاری ہے، جغرافیائی حوالے سے بھی پاکستان کا پلڑا بھاری ہے کیونکہ لینڈ لاک افغانستان کو پاکستانی سمندر کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی درآمدات اور برآمدات کو بھجوا سکے لیکن نظریاتی طور پر افغان طالبان کو پاکستان پر فوقیت حاصل ہے۔ ٹی ٹی پی کی صورت میں افغانستان پاکستان کو بلیک میل کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان کے پاس ٹی ٹی پی جیسے ہارڈ پاور کے علاوہ پشتون نیشنلزم کی شکل میں پاکستان میں سوفٹ پاور بھی ہے ۔ پشتون پاکستان کا دوسرا بڑا لسانی گروہ ہے جس کی تعداد ڈھائی سے تین کروڑ بتائی جاتی ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا اور شمالی بلوچستان کے علاوہ وہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام اور تجارتی شہر کراچی میں بہت بڑی تعداد میں رہتے ہیں اس کے علاوہ پشتونوں کی اچھی خاصی نمائندگی بیورو کریسی میں ہے اور 35 فیصد پاکستانی فوج پشتونوں پر مشتمل ہے۔ طالبان کا تنظیمی ڈھانچہ تقریباً پشتونوں پر مشتمل ہے ، وہ اور پاکستانی پشتون ایک ہی زبان بولتے ہیں، ایک ہی رسم و رواج فالو کرتے ہیں اور بہت سے قبائل بھی مشترکہ ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی حکومت 30 سے 40 لاکھ افغان مہاجرین کو پاکستان سے نکالنے پر آمادہ ہے جن کی اکثریت پشتون لسانی گروہ سے تعلق رکھتی ہے۔ اس عمل سے پشتون نیشنلزم کو مزید فروغ ملے گا۔
اس کی وضاحت خواجہ آصف نے بھی کی تھی اور کہا تھا کہ ہزارہ مہاجرین کو بھی کوئٹہ سے جاناہوگا، غالباً ان کی بات کا مقصد یہ تھا کہ صرف پشتون مہاجرین کیخلاف کارروائی نہیں ہورہی بلکہ تمام افغان مہاجرین کیخلاف کارروائی ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ پنجابی طالبان اور سرائیکی طالبان کی صورت میں افغان طالبان پاکستان کے اندر سوفٹ پاور رکھتا ہے کیونکہ دونوں کے نظریات ایک ہی ہیں۔ اس حوالے سے الجزیرہ کے ایک لکھا ری لکھتے ہیں کہ اگر افغانستان کے امیر پاکستان کیخلاف جہاد جائز قرار دیں تو بہت سے پاکستانی مذہبی انتہا پسند اس فتوے کی حمایت کریںگے۔ تو یوں محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان کو افغانستان میں کوئی اسٹریٹجک ڈیپتھ حاصل نہیں ہے بلکہ افغان طالبان کو پاکستان کے اندر اسٹریٹجک ڈیپتھ حاصل ہے۔ لہٰذا ہندوستان اور افغان طالبان جو ماضی میں حریف تھے اب ان کے مفادات پاکستان دشمنی کی وجہ سے ایک ہوگئے ہیں لہٰذا اب ہندوستان کو بھی افغانستان میں اسٹریٹجک ڈیپتھ حاصل ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ دوست اور دشمن مستقل نہیں ہوتے صرف مفادات مستقل ہوتے ہیں آج کے دور میں افغان طالبان اور ہندوستان کے مفادات ایک ہوچکے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں