مغربی دہشت گردی اور اسرائیل فلسطین تنازعہ
تحریر:جیئند ساجدی
بائیں بازو کے معروف امریکی دانشور نوم چومسکی اپنی کتاب "Western Terrorisim” میں لکھتے ہیں کہ اگر انسانی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تویہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دنیا میں جتنے بھی دہشت گردی کے بڑے واقعات یا انسانی حقوق کی پامالیاں ہوئی ہیں ان کے پیچھے اکثر مغربی ممالک کا ہاتھ رہا ہے۔یورپی براعظم سے تعلق رکھنے والے اقوام اکثرایشیائی‘ افریقی اورلاطینی امریکی براعظموں کے مقامی لوگوں کی سرزمین پر حملے کرتے تھے اور وہاں اپنی سامراجانہ سلطنتیں قائم کرتے تھے۔مقامی آبادی کی مزاحمت کی صورت میں وہ یورپی قوتیں مقامی افراد کی نسل کشی سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ معروف گوریلا لیڈر چی گویرا نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ”سامراجانہ سوچ ایسا مرض ہے جو ان کوو حشی حیوان میں تبدیل کر دیتا ہے“ دوسری عالمی جنگ کے بعد تھیوری کی حد تک دنیا میں سامراجانہ یا نو آبادیاتی نظام ختم ہوگیا اور متعدد ایشیائی افریقی اور لاطینی امریکی ریاستوں نے اپنی اپنی آزادیاں حاصل کیں۔ لیکن بہت ہی کم ممالک ان براعظموں میں عملی طور پر آزاد ہوئے ہیں اور اب بھی ان پر ان کے پرانے سامراجی مغربی قوتیں بلواسطہ حکومت کرتی ہیں۔ آزادی کے بعد بھی سابقہ کالونیوں میں مغربی طاقتوں نے کبھی بھی وہاں جمہوری حکومتوں کی جڑیں مضبوط نہیں ہونے دیں اور اپنے ڈکٹیٹریا بادشاہ تعینات کرکے وہاں کے وسائل کی لوٹ مار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ افریقی ممالک گانا کے سابقہ صدر کو امے نکر ما اپنی کتاب
)Neo- Colonialism the last stage of Imperialism(
میں لکھتے ہیں کہ ”فرانس نے کبھی بھی اپنی سابقہ افریقی کالونیاں میں دخل اندازی نہیں چھوڑی اور وہاں ایسے رہنماء تعینات کئے جو محض نسلاً افریقی تھے لیکن وہ عملًا فرانس کے صنعت کاروں اور فرانسیسی سرکار کے نمائندے تھے اور اپنی عوام کے سخت ترین دشمن تھے۔ ماہر تعلیم دوسری عالمی جنگ کے بعد والے دور کو Neo Colonialism کہتے ہیں اورNeo Colonialism کوColonialism سے کافی زیادہ خطرناک قرار دیتے ہیں. ان کے مطابق کالونیل دور میں دشمن براہ راست آپ کے ملک میں قبضہ کر کے آپ حکومت کرتاتھا لیکنNeo Colonialism دور میں دشمن اپنے کٹھ پتلی نمائندوں کے ذریعے حکومت کرتا ہے اورعام عوام کے لئے اصل دشمن کو پہچاننا کافی مشکل ہوتا ہے۔
Neo- Colonialism کے علاوہ مغربی ممالک کا اپنی سابقہ کالونیوں میں بڑی دہشت گردی یہ تھی کہ انہوں نے اپنی سابقہ نو آباد کار ریاستوں میں مصنوعی سرحدیں اور کچھ مصنوعی ممالک بھی بنائے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان مصنوعی سرحدوں اور مصنوعی ریاستوں کی وجہ سے جنوبی و مغربی ایشیاء‘ مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں مختلف ممالک کے درمیان زمینی تنازعات اور ملکوں کے اندر بھی وفاقی حکومتوں اور وفاقی اکائیوں کے درمیان تنازعات ہیں۔ اس کی چند مثالیں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن کی ہے جو انگریزوں نے 1893ء میں کھینچا تھا۔ڈیورنڈ معاہدے کے تحت انگریزوں نے افغانستان سے لئے گئے علاقے 100سال بعد افغانستان کو واپس کرنے تھے لیکن اپنے جانے سے قبل انہوں نے یہ علاقے نئی ریاست پاکستان میں ڈال کر افغانستان اور پاکستان کے درمیان تنازعہ پیدا کیا اسی طرز کا تنازعہ انگریزوں نے بھارت اور چین کے درمیان Line Mcmahon کھینچے کی صورت میں کیا اور اسی متنازعہ سرحد پرحال ہی میں چینی اور بھارتی فوجیوں کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔ یہ Mcmahon وہی برطانوی سرکاری ملازم تھے جنہوں نے 1896ء میں بلوچستان کے علاقے جنوبی ہلمند‘ نمروز اورریگستان افغانستان میں شامل کئے تھے اور بلوچ افغان سرحد کوبھی Line Mcmahon بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور برطانوی سرکاری ملازم گولڈ سمتھ نے مغربی بلوچستان کا حصہ ایران میں شامل کیا تھا جس کی وجہ سے ابھی تک ایرانی صوبہ سیستان بلوچستان میں تنازعہ ہے۔
مشرق وسطیٰ میں بھی برطانوی و دیگر مغربی طاقتوں نے اپنے جیوپولیٹیکل مفادات کیلئے کہیں مصنوعی ریاستیں بنائیں اور کہیں قومی ریاستیں نہیں بننے دیں جیسے کے کرد جواپنی منفرد زبان،ثقافت اور تاریخ کی بناء پر قوم بننے کی ہر خصوصیات پر پورا ترتی ہے لیکن ان کے پاس کوئی قومی ریاست نہیں اس وقت وہ چار ممالک میں تقسیم ہیں ان سے کئے گئے وعدے باوجودان کو انہی کی تاریخی سرزمین، اپنی ریاست نہیں دی گئی۔ جس کی وجہ سے ابھی تک کرد اور چاروں ممالک کی مرکزی حکومتوں کے درمیان تنازعہ ہے اور اس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا ضیاع ہو چکا ہے۔ افریقہ کی بھی صورتحال یہی ہے انہی تمام زمینی تنازعات کی وجہ سے یہ ریاستیں سیکورٹی ریاستیں ہیں اور معاشی و سماجی خوشحالی سے محروم ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑا تنازعہ برطانوی سامراج نے اسرائیل اورفلسطین کی صورت میں چھوڑا۔سلطنت عثمانیہ کو کمزور کرنے کیلئے برطانوی سامراج نے عرب کارڈ کا سہارا لیا اور عربوں کو یہ باور کروایا کہ سلطنت عثمانیہ کے ٹونٹے کے بعد وہ عربوں کیلئے آزاد ممالک بنائیں گے۔ اس کا براہ راست اعلان انہوں نے Balfour Declaration (1917)کے ذریعے کیا۔ لیکن فرانس‘ برطانیہ اور روس نے اسی وقت ایک اور خفیہ معاہدہ Skies Picot کے ذریعے یہ طے کیا کہ سلطنت عثمانیہ کے ٹوٹے حصوں کو مغربی ممالک آپس میں بانٹ دیں گے۔ اس معاہدے کے تحت مشرقی یورپ روس کو ملنا تھا اردن اور شام فرانس کو اور فلسطین برطانیہ کو۔
اسی دوران ایک اور وعدہ برطانیہ نے یورپ میں مقیم یہودیوں سے بھی کیا تھا کہ وہ انہیں ایک ملک موجودہ اسرائیل میں قائم کر کے دیں گے۔ یہودیوں کا یہ دعویٰ تھا کہ جہاں فلسطینی عرب آباد ہیں وہ ان کا تاریخی ملک تھا اور یروشلم ان کی مقدس جگہ ہے۔پہلی عالمی جنگ کے بعد برطانیہ نے بڑی تعداد میں یہودی فلسطین میں آباد کئے اور دوسری عالمی جنگ تک یہودیوں کی تعداد فلسطین میں 30 فیصد تھی۔دوسری عالمی جنگ سے قبل ہی وہاں یہودی و فلسطینی فسادات شروع ہوئے اور دوسری عالمی جنگ کے ختم ہونے کے بعدبرطانیہ نے اسرائیل فلسطین مسئلے کا حل اقوام متحدہ کے حوالے کر دیا تھا۔ اقوام متحدہ کے فیصلے کے مطابق فلسطین کو تقسیم کر کے دو آزاد ریاستیں قائم کی جائیں گی جس میں غزہ کی پٹی‘ ویسٹ بینک اور مشرقی یروشلم فلسطین کا حصہ بنیں گے۔لیکن 1948ء اور 1967ء میں اسرائیل نے امریکی جنگی و مالی امداد کے ذریعے متعدد عرب ممالک کو شکست دے کر ویسٹ بینک غزہ مشرقی یروشلم‘ مصر کی زمین سینائی پینلسولا اور شام کے گولان ہائیٹ پر قبضہ کر لیا تھا 1978ء میں مصر نے سینائی پینلسولا واپس کرنے کی شرط پر اسرائیل کو قبول کر لیا اوروہ پہلا عرب ملک بنا جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا جبکہ گولان ہائٹس اور ویسٹ بینک ابھی تک اسرائیل کے قبضے میں ہیں اور اقوام متحدہ نے اس قبضے کو عالمی قانون کی خلاف ورزی قرار دیاہے۔ اسرائیل نے اپنے قبضے کو برقرار رکھنے کیلئے امریکی اسلحہ کا بے دریغ استعمال کیا ہے جس نے چی گویرا کی بات کو درست ثابت کیا ہے کہ سامراجانہ سوچ واقعی ہی انسان کو وحشی حیوان بنا دیتا ہے۔ معروف دانشور نوم چوسکی لکھتے ہیں کہ فلسطینی و دیگر عرب شہریوں پر اسرائیل کی بمباری محض اسرائیل کی دہشت گردی نہیں بلکہ مغربی طاقت امریکہ اور اسرائیل کی مشترکہ دہشت گردی ہے کیونکہ اسرائیل میں اکیلے اتنی بڑی دہشت گردی کرنے کی صلاحیت و وقوت نہیں۔ گزشتہ کچھ عرصہ میں اسرائیل نے عالمی قانون کی دھجیاں اڑا تے ہوئے ویسٹ بینک پر تعمیراتی کام شروع کیا ہوا ہے اور فلسطینی زمین پر یہودی آباد کر رہا ہے اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ تنازعہ مزید بڑھتا جائیگا اور اسرائیل مخالف حماس اور حزب اللہ جیسی مزاحمتی تنظیموں کی مقبولیت بھی عرب عوام میں بڑھتی جائیگی۔حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے متنازعہ زمین یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا ہے اور اپنے دو عرب اتحادیوں یو اے ای اور بحرین سے اسرائیل کو تسلیم کروا لیا ہے ماہرین کا خیال ہے کہ اس کے بعد دیگر عرب دنیا بشمول سعودی عرب بھی اسرائیل کو تسلیم کرلے گا۔ سعودی عرب نے غیر اعلانیہ طور پر اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے کیونکہ یو اے ای اور بحرین سعودی عرب کے اتحادی ہے اور ان کی مشاورت کی بنا وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ نہیں کر سکتے ہیں۔ سعودی عرب نے ابو ظہبی سے تل ابیب سفر کرنے کیلئے اپنا فضائی راستہ بھی استعمال کرنے کی اجازت دیدی ہے اور بحرین اور یو اے ای کے اس فیصلے پر تنقید بھی نہیں کی۔امریکی اور اسرائیلی نمائندوں نے بحرین اور یو اے ای کے فیصلے کو خطے میں امن کیلئے خوشگوار قرار دیا ہے لیکن ان تقریبات کے دوران انہوں نے تنازعہ کے سب سے اہم فریق فلسطین کو مکمل طور پر نظر انداز کیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اوراسرائیل اب دو آزاد ریاست والی بات تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اس سے خطے میں بالخصوص مقبوضہ فلسطین میں بدامنی مزید بڑھے گی اور ہزاروں بے گناہ لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور اس کا سب سے بڑا قصور وار امریکہ ہوگا کیونکہ یہ انہی کا رچایا گیا ڈرامہ ہے۔ ماہر سیاسیات کہہ رہے ہیں کہ بحرین اور یو اے ای کے بعد اومان،مراکووغیرہ بھی اسرائیل کو تسلیم کرلینگے۔ ایک اسرائیلی نمائندے نے اس اتحاد کو اسرائیل سنی اتحاد قرار دیا ہے یہ اتحاد شیعہ ایران کے خلاف ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے عالمی طاقت امریکہ کو مشرق وسطی میں امن میں کوئی دلچسپی نہیں محض اور ان کی دلچسپی اپنے مفادات تک محدود ہے۔مغرب کی دہشت گردی مشرق وسطیٰ و دیگر خطوں میں اپنے نمائندہ ملک اسرائیل و دیگرکٹھ پتلی عرب بادشاہ و ڈکٹیٹرز کے ذریعے جاری وساری ہے۔