جمہوریت بمقابلہ آمریت

تحریر: کامریڈ فقیر بلوچ
جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جس میں عوام کو ریاستی امور میں برائے راست بالادستی حاصل ہوتی ہے۔ اس نظام میں طاقت کا سرچشمہ ریاست میں بسنے والے تمام لوگ ہوتے ہیں۔
دراصل جمہوریت کی اصطلاح عربی لفظ ”جمہور“ سے نکلی ہے۔ جس کا مطلب ”عوام“ جمہوریت کا لغوی مطلب ہے۔ عوام کی حکومت جس میں دانشور طبقہ، وکلاء، ڈاکٹر، انجینئر، ماہرین، تاجر، صحافی اور سول سوسائٹی، مزدوروں،کسانوں کے نمائندوں، خواتین اور اقلیت کے نمائندوں پر مشتمل سیاسی حکومت قائم ہو یعنی اکثریت کی حکومت۔ جو عوام کی مرضی کے ووٹوں سے قائم ہوتی ہو اور عوام کے ووٹوں سے قائم ہونے والی حکومت اپنی کارکردگی او رافعال کے لئے عوام کے سامنے جوابدہ ہو۔ جمہوری نظام میں عوام کے منتخب نمائندے دستو ر(آئین) بنانے کا مجاز ہوتے ہیں اور ریاست کی ساری آبادی کے مجموعی مفادات کو پیش نظر رکھ کرآئین تشکیل پاتی ہے۔
جمہوری حکومتوں کے بنیادی مقاصد میں داخلی اور بیرونی خطرات سے شہریوں کی عزت نفس کی حفاظت کرنا، تمام شہریوں کو روزگار اور اس کا تحفظ، رنگ نسل، مذہب، زبان، جنس او رسماجی تفریق کے قطع نظر ہر شہری کے مساوی حقوق کو آئینی تحفظ دینا، جمہوری نظام میں جمہوریت کی بنیاد اس پر ہوتی ہے کہ تمام شہری نظام حکومت میں حصہ لینے کے مساوی حق رکھتے ہیں خواہ وہ ووٹ کے ذریعے اپنا حق استعمال کریں یا کسی ادارے کے لئے امیدواربن جائیں۔
جمہوریت کا دائرہ کار صرف طرز حکومت تک محدود نہیں ہوتا بلکہ جمہوریت ملک کی سیاسی نظام کو بطریق احسن چلانے کے لئے مساوات، انصاف،احتساب، آزادی اور جوابدہی جیسے بنیادی اصول وضع کرتی ہے۔
جمہوری نظام میں ہر شہری کو بلا تفریق تحریر و تقریر، جلسے جلوس، احتجاج، مظاہرے اور تنظیم سازی کی آزادی حاصل ہوتی ہے ہر شہری کو حکومتی پالیسیوں سے اختلاف رائے رکھنے کی آزادی اور اپنے فکر و نظریہ کا پرچار کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ ابلاغ عامہ مکمل آزادی ہوتی ہے او رصحافی اپنے پیشہ ورانہ کام میں آزاد ہوتے ہیں جمہوری نظام میں ہر شہری کو اختلاف رائے رکھنے کی آزادی ہوتی ہے مگر آپ اپنی رائے زبردستی کسی پر نہیں ٹھونس سکتے۔ کیونکہ اس نظام میں اکثریت کے فیصلے کو فوقیت حاصل ہوتی ہے لیکن اقلیت کے رائے کا احترام بھی ضروری ہوتا ہے۔ جمہوری نظام میں عدالتیں اپنے کا م میں مکمل طورپر آزاد اور خود مختار ہوتے ہیں۔ معاشی اور معاشرتی حقوق حاصل ہوتے ہیں جمہوری اداروں میں انہیں مساوی نمائندگی حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح جمہوریت اقلیتی آبادی کو اپنے مذہبی رسومات منانے کی آزادی کا حق دیتا ہے۔ اقلیتوں کے سیاسی، معاشی حقوق کو آئینی تحفظ دیتا ہے۔ جمہوری اداروں میں انہیں مساوی نمائندگی حاصل ہوتی ہے۔ مزدوروں اور کسانوں کو انجمن سازی کی مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے او رجمہوری اداروں میں ان کی مساوی نمائندگی ہوتی ہے جمہوری نظام میں ملکی دولت اور وسائل پر عوام کے حق کو برابر ی کے بنیاد پر تسلیم کیاجاتا ہے اس نظام میں شہریوں کو عقل و فہم سے اپنے برے بھلے پر غور فکر کرنے کی صلاحیت کو آزادی سے استعمال کرنے کاموقع فراہم کرتا ہے جس سے سماجی ارتقا پروان چڑھتی ہے جمہوری دور حکومت میں ملک اقتصادی طور پر ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے کاروبار، تجارت وسعت پاتی ہے جس سے ملکی معیشت پروان چڑھتی ہے عوام کے معیار زندگی پر اس کے مثبت اثرات پڑھتے ہیں۔
عوام سے حاصل ہونے والے ٹیکس سے ہونے والی آمدن کو عوام کے فلاح و بہبود، پانی، تعلیم، صحت و صفائی کی سہولیات، ترقیاتی منصوبوں او ر انفراسٹکچر پر خرچ کیا جاتا ہے اورحکومت باقاعدہ اس آمدن اور اخراجات کے حساب و کتاب کو عوام کے سامنے پیش کرنے کا پابند ہوتا ہے۔
اس کے برعکس غیر جمہوری آمرانہ طرز حکمرانی میں ریاست کے سارے اختیارات فرد واحد کے پاس ہوتے ہیں جن کی منہ سے نکلنے والا ہر لفظ قانون کا درجہ رکھتا ہے۔ ملک کے نظم و نسق کا نظام ایک مطلق العنان حاکم کے تحت چلایا جاتا ہے سارے تعریفیں و توصیف فرد واحد کے لئے ہوتے ہیں مخالف سیاسی جماعتوں پر قد غن لگائی جاتی ہے ریاستی خفیہ اہلکاروں کو سیاستدانوں کی خبر گیری پر لگا دیا جاتا ہے۔ تنظیم سازی اور اظہار رائے پر پابندی عائد ہوتی ہے بنیادی حقوق سلب ہو تے ہیں آمرانہ غیر جمہوری حکومتوں میں عوام سالہا سال سے گھٹن اور خوف کے ماحول میں رہتے ہیں سارا معاشرہ نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔عوام کے بنیادی انسانی حقوق پامال ہوتے ہیں۔ خواتین کو محض جنس کی بنیاد پر امور مملکت سے دور رکھا جاتا ہے اس نظام میں خواتین غیر محفوظ ہوتے ہیں ان کے حقوق سلب ہوتے ہیں، اقلیتوں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ اس نظام میں مذہبی تعصبات کا شکار رہتے ہیں ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ مزدوروں کو یونین سازی کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے ا ن کے سیاسی و معاشی حقوق دینے سے انکار کیاجاتا ہے عدالتیں فرد واحد کے تابع ہوتے ہیں جس کے باعث عوام کو انصاف نہیں ملتا غیر جمہوری آمرانہ حکومت میں عوام کو روزگار، علاج و معالجہ، پانی اور ضروریات زندگی سے محروم رکھا جاتا ہے۔ غربت، مہنگائی اور طبقاتی تفریق او رسماجی اونچ نیچ کے باعث عوام کے اندر بے چینی او رنفرت پیدا ہوتی ہے غیری جمہوری ریاست ہمیشہ انتشار، انارکی اور غیر یقینی صورت حال سے دوچار رہتا ہے اس نظام میں ملکی وسائل پر چند خاندانوں کی اجارہ داری رہتی ہے۔ ہر طرف چور بازاری، رشوت ستانی، اقربا پروری، سفارش، منافع خوری او کمزور کا حق مارنے کی روش پروان چڑھتی ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان بننے کے بعد ملک کا سیاسی اقتدار اعلیٰ اسٹیبلشمنٹ، نوکر شاہی اور جاگیرداروں پر مشتمل تکون (ٹرائیکا) کی گرفت میں رہی ہے لیکن اس تکون کی اصل طاقت اسٹیبلشمنٹ کے پاس تھی جنہوں نے شروع دن سے پاکستان میں جمہوریت اور پارلیمانی نظام کو پنپنے نہیں دیا اور اپنے غیر جمہوری آمرانہ پالیسیوں او راقدامات کے تحت طویل عرصہ تک ملک پر مسلط رہے۔
پاکستان کی 73ء برس کی سیاسی تاریخ کے تیس سالہ دور کو آمریت کے دور سے یاد رکھا جائے گا تیس برس کے عرصہ میں پاکستان میں چار مرتبہ فوجی مارشل لاء لگا، تین مرتبہ آئین منسوخ کیا گیا دو منتخب وزیراعظم قتل ہوئے ایک کو پھانسی ہوئی او ردو منتخب شدہ حکومتوں کو چلتاکردیا۔تیس برس تک مطلق العنان کی حیثیت سے ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔ملک کے پہلے وزیراعظم کو امریکہ بھیج کر معاہدے کرنے پر مجبور کیا پاکستان کو امریکہ کے گود میں ڈال کر سامراجی بندھنوں میں جکڑ دیا۔ خارجہ پالیسی کو امریکہ اور مغرب کے مفادات کے تابع کردیا۔ سیٹو سینٹو جیسے سامراجی معاہدوں میں شمولیت اختیار کی گئی ملکی وسائل کو بروئے کار لانے کی بجائے امریکہ، مغرب او رعربوں کے خیرات او رقرضوں پر انحصار کیا جس کے ملکی معیشت پر دور رس نتائج برآمد ہوئے۔
ون یونٹ کا نفاذ کیا صوبوں کے عوام کے اندر نفرتوں کی بنیاد رکھی پھر پاکستان میں بسنے والی قومیتوں پر اردو زبان مسلط کر دی مشڑقی پاکستان کے عوام نے اس کے خلاف تحریک چلائی جہاں پویس کی وحشیانہ کاروائی سے کئی بنگالی طلباء مارے گئے اس دن سے مشرقی پاکستان کے بنگالی عوام کے دلوں میں نفرت پیدا ہوئی اور وہ خود کو پاکستان میں غیر محفوظ سمجھنے لگے۔
پاکستان میں سیاست کو شجر ممنوع قرار دیا ہر قسم کی سیاسی سرگرمیوں پر قدغن لگائی سیاستدانوں پر طرح طرح کی جابرانہ پابندیاں عائد کردی اپنے غیر جمہوری آمرانہ اقدامات کے تحت ملک میں جمہوریت عمل کے امکانات کو معدوم کردیا ان کے ان پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانے والے سیاستدانوں کو عوام کی نظر وں میں معیوب کرنے کے لئے ان پر غداری او رملک دشمنی کے جھوٹے الزامات لگائے۔ان پر کرپشن او ربد عوانیوں کے مقدمات قائم کئے سیاسی کارکنوں، طلباء،مزدور رہنماؤں، وکلاء برادری اور جمہوریت کی بحالی اور عام انتخابات کرانے کے لئے اٹھنے والے ہر اس آوازکو دبایا۔ ان کے عوام دشمن اقدامات کے خلاف چلنے والی عوامی تحریکوں کو کچلنے کے لئے ریاستی طاقت کا استعمال کیا انہیں گرفتار کرکے فوجی عدالتوں کے ذریعے لمبی سزائیں دیں ان کے دور میں کئی سیاستدان اور سیاسی کارکن قتل ہوئے۔ حقیقی سیاسی جماعتوں کو کاؤنٹر کرنے کے لئے اپنی ڈمی سیاسی جماعتیں کھڑی کیں نظریہ ضرورت کے تحت خوش آمد، چاپلوس اور ابن الوقت سیاستدان پیدا کئے او ر انہیں عوام پر مسلط کردیا۔اخبارات پر سنسر شپ عائد کر دی،سیاستدانوں کی ہر قسم کی خبر پر پابندی لگادی ان کے آمرانہ پالیسیوں کے خلاف لکھنے والے صحافیوں کے پیٹھ پر اسلامی کوڑے برسائے اور ان کو انتقام کا نشانہ بنایا۔ سرکاری اخبارات میں اپنے کارناموں کے واہ واہ کے ڈونگرے برساتے رہے اور اپنے غیر جمہوری آمرانہ دو رکو خوشحالی او رترقی کے دور سے تعبیر کیا۔ اس دوران عوام کے خون پسینے کی کمائی سے سرمایہ دار طبقے کا ایک خاندان وجود میں آیا ملکی دولت پر ان کی اجارہ داری قائم ہوئی جس سے طبقاتی تضاد کو جنم دیا۔ عوام غریب سے غریب تر اور خواص امیر سے امیربن گیا۔ ملک میں ترقی پسند، روشن خیال سوچ رکھنے والے بائیں بازو کے جمہوریت پسند عوام دوست قوتوں کے آگے بند باندھنے کے لے درجنوں ترقی دشمن، رجعت پرست مذہبی جماعتوں کی تشکیل کی اور انہیں عوامی قوتوں کے خلاف استعمال کیا۔ عوام کو جدید علوام سے روشناس کرانے کے لئے سائنسدان پید اکرنے کی بجائے مذہبی اسکالر پیدا کئے جنہوں نے اپنی حکمت سے عوام کو حکمرانوں کی اطاعت گزاری او رعاجزی کے راستے پر ڈال کر ذہنی پستی کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔ شہریوں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا عدالتوں کو اپنے تابع کیا عوام انصاف کے حصول کے لئے ترستے رہے۔ان کے غیر جمہوری آمرانہ پالیسوں کے نتیجے میں ملک ٹوٹ گیا۔ لیکن اس سانحہ کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی۔
امریکہ اور مغرب کے مفادات کی خاطر افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی۔ جہاد ی پیداکئے چند ڈالروں کے عیوض ملک کو پرائی آگ میں جھونک دیا علاقے میں قتل غارت گری کا بازار گرم کیا جس کے باعث ملک بم دھماکوں، خودکش حملوں اور دہشت گردانہ کاروائیوں کی زد میں رہا۔ ہزاروں بے گناہ شہری لقمہ اجل بن گئے۔ لعل مسجد پرلشکرکشی کی اور نواب اکبر خان بگٹی کو ان کے ساتھیوں سمیت کارپٹ بمبوں سے شہید کیا۔اس واقعہ کے بعد بلوچستان میں جو آگ لگی تمھنے کانام نہیں لیتی۔ ان تیس برسوں میں ملک سیاسی عدم استحقام کا شکار رہا۔ موجودہ سیاسی، معاشی و اقتصادی بدحالی، گیس، بجلی کا بحران، مہنگائی اور بے روزگاری دور آمریت کے تحفے ہیں جو عوام کو بھگتنے پڑ رہے ہیں۔
پاکستان کے جمہوری او رپارلیمانی دو رمیں بھی ملکی سیاست پر غیر جمہوری طاقتوں کی بالادستی قائم رہی۔ جنہوں نے عوام کے منتخب حکومتوں کا تختہ الٹنے او ربنانے کا سلسلہ جاری رکھا۔بار بار جمہوری اداروں اور ملکی سیاست میں مداخلت کی جمہوریت کی نشوونما کے لئے سیاسی اور جمہوری اداروں کو کام کرنے نہیں دیا۔ اپنی مرضی کی حکومت لانے کے لئے انتخابات میں مداخلت کی اور جمہوری نظام کو ناکام بنانے کے لئے فلور کراسنگ، ہارس ٹریڈنگ، دھونس دھمکی اور سیاستدانوں کی خرید و فروخت کو رواج دیا۔ سیاستدانوں اور عوام کے درمیان بد اعتمادی پیدا کرنے کے لئے میڈیا کو استعمال کیا۔
بنیادی طو رپر پارلیمانی طرز حکمرانی کی کامیابی کے لئے جمہوری اقدار کی پاسداری کرنا ضروری ہوتا ہے لیکن پاکستان میں ابتداء سے ہی ان اقدار کو پامال کیا گیا یہی وجہ ہے کہ پاکستان7دہائیوں سے ایک جمہوری ریاست نہیں بن سکا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں