متبادل قیادت

تحریر:انور ساجدی
کرونا وائرس کے انسانی متاثرین کے علاوہ ہماری ”ریلوکٹا“ جمہوریت بھی شامل ہے جب سے چاروں صوبائی حکومتوں کشمیر اور گلگت بلتستان نے لاک ڈاؤن شروع کیاہے۔وزیراعظم جدوجہد کررہے ہیں کہ ملک کے چیف ایگزیکٹو وہی ہیں انکے ہی اقدامات موثر ہیں لیکن زمینی حقائق اسکے برعکس ہیں البتہ وزیراعظم جس شدت سے مکمل لاک ڈاؤن کی مخالفت کررہے ہیں اسکی وجہ سے صوبائی حکومتوں کی کوششوں کوشدید دھکچہ لگا ہے ٹرانسپورٹ کھلنے کے بعد ہزاروں لوگ شاہراؤں پر رواں دواں ہیں یہ لوگ سپلائی کے ٹرکوں آئل ٹینکروں اور دیگرگاڑیوں میں سوار ہیں،کراچی سبزی منڈی کھلی ہے جہاں لوگ احتیاطی تدابیر کی دھجیاں اڑا رہے ہیں،سہراب گوٹھ اور الآصف اسکوائر میں زندگی معمول کے مطابق ہے۔اندرون شہر بھی ٹریفک کم ہے لیکن چل رہی ہے حتیٰ کہ پرائیویٹ ٹیکسیاں اوررکشے بھی چل رہے ہیں شہر کے اندر مفت راشن کے حصول کیلئے لوگ کافی تعداد میں جمع ہورہے ہیں جبکہ سکھر میں آٹے کے حصول کیلئے سینکڑوں لوگوں کاہجوم نظر آیا،وزیراعظم نے کل سختی کے ساتھ کراچی پورٹ کھولنے کا حکم دیا جس کی وجہ سے کیماڑی میں حفاظتی انتظامات تتربتر ہوگئے اگر دیکھا جائے تو اس وقت عمران خان دنیا کے واحد وزیراعظم ہیں جو کرونا کی وبا کوکنٹرول کرنے کی بجائے معیشت چلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ہندوستان میں مودی جیسے شخص نے بھی21روزہ لاک ڈاؤن شروع کردیا ہے جس پر لوگ سختی کے ساتھ عمل کررہے ہیں اور تواور سعودی عرب نے بھی مکہ،مدینہ،ریاض اوراپنے دیگر شہروں میں کرفیو نافذ کردیاہے۔وہاں پر اس سال کا حج موقوف ہونے والا ہے کیونکہ سعودی عرب موجودہ حالات میں 25لاکھ افراد کے اجتماع کارسک نہیں لے سکتا۔برطانیہ کے وزیراعظم جناب بورس جانسن آفندی نے گزشتہ روز ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس کرونا کی وبا سے نمٹنے کیلئے لاک ڈاؤن کے سوا اور کوئی انتظامات نہیں ہیں ہمارے اسپتالوں میں بیڈ کم ہیں،ادویات کم ہیں،ٹیسٹنگ کٹ کم ہیں اور ڈاکٹروں کی تعداد بھی کم ہے انہوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ گھروں کے اندر رہیں حتیٰ کہ کھانا بھی آرڈر کرکے منگوائیں اسکے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہاجاتا ہے کہ برطانیہ دنیا کی چھٹی بڑی معیشت ہے اس کا یہ حال ہے تو ہم کیابیچتے ہیں،کرونا نے تو سارے بڑے ممالک اور جعلی معیشتوں کواچھی طرح بے نقاب کردیا ہے۔اٹلی انگلینڈ،فرانس،سوئٹزر لینڈ سب کا پول کھل گیا ہے۔صرف جرمنی کے پاس انتظامات پورے ہیں جہاں تک وزیراعظم عمران خان کی مختلف سوچ کا تعلق ہے تو انکے پیچھے روحانی استخارہ کے علاوہ انکی معاشی ٹیم ہے۔حفیظ شیخ،گورنر باقر رضا اور حماد اظہر نے مشورہ دیا ہے کہ کرونا کی وبا کومعیشت کو اوپراٹھانے کیلئے استعمال کیاجائے۔اسی مقصد کی خاطر انہوں نے آئی ایم ایف ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے چار ارب ڈالر کے تازہ قرضے مانگ لئے ہیں جو مفت امداد مل رہی ہے وہ اسکے علاوہ ہے معاشی ٹیم کا خیال ہے کہ پاکستانی عوام کو امداد تو روپیہ چھاپ کردیاجائیگا جبکہ 5ارب ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ اس بحرانی وقت میں بہت کام آئیگا کیونکہ اوورسیز پاکستانیوں کے ترسیلات زراور برآمدات کی آمدنی بہت زیادہ گرنے کا امکان ہے ایسی باصلاحیت معاشی ٹیم اس وقت ساری دنیا میں نہیں ہوگی اور نہ ہی ایسا لیڈر موجود ہے جو ایک عالمگیر قدرتی آفت کو نئے مواقع میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اس اعتماد کی وجہ وہ روحانی استخارہ ہے جس کے مطابق وبا ایک حد سے آگے نہیں بڑھے گی غالباً حضرت مولانا طارق جمیل نے بھی مشورہ دیا ہوگا کہ کروڑوں لوگ اور جید علماء دعائیں کررہے ہیں جو کرونا کے خاتمہ کاباعث بنیں گے۔
تاریخ میں درج ہے کہ بغداد میں جب اطلاع ملی کہ ہلاکو خان کا خونخوار لشکر آگے بڑھ رہا ہے تو خلیفہ نے مشیروں سے پوچھا کیا کیاجائے تو انہوں نے کہا کہ جنگ کی بجائے دعاؤں کا سہارا لیا جائے ہم دعاؤں کے ذریعے کفار کا تہس نہس کردیں گے جبکہ جو ہواوہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے دعاؤں کو ہی وسیلہ بناکرہی تبلیغی جماعت نے اسلام آباد کے قریب ”بھارہ کہو“ میں اپنا اجتماع منعقد کیاتھا لیکن جماعت کے اکثر شرکاء کو کرونا لگ گیا ہے اور بھارہ کہو کوسیل کرکے قرنطینہ بنادیا گیا ہے۔
پوری تبلیغی جماعت ڈاکٹروں کا سہارا لینے پر مجبور ہے،دعائیں اپنی جگہ لیکن ڈیڑھ ارب کیتھولک عیسائیوں کے پیشوا پوپ کرونا میں مبتلا ہوکر تین ہفتوں سے ویٹی کن سٹی میں چھپ گئے ہیں انکی دعاؤں کااثر کرونا کے سامنے زائل ہوگیا ہے ایک دلچسپ خبر فلسطین سے آئی ہے وہاں کی حکومت کے مطابق جن لوگوں میں وائرس پایا گیا وہ پاکستان میں تبلیغی اجتماع میں شرکت کے بعد آئے تھے کئی لوگ حیران ہیں کہ جب پاکستان کی90فیصد آبادی مسلمان ہے تو تبلیغ کا زوریہاں کیوں تبلیغ کی ضرورت ادھر زیادہ ہے جہاں کفار زیادہ ہوں گزشتہ سال وزیراعظم کے روحانی پیشوا حضرت طارق جمیل کو دل کاعارضہ لاحق ہوا تو وہ سیدھے کینیڈا جاپہنچے جہاں مولانا طاہر القادری نے ان کا علاج کروایا مولانا کی موثر دعائیں اپنے بدن پر کام نہ آسکیں۔
ہوسکتا ہے کہ حال ہی میں مولانا نے جو رقت انگیز دعائیں گڑ گڑاکر مانگیں اسکے بعد وزیراعظم کو یقین ہوگیا ہے کہ کرونا کی وبا یا کوئی اور بلا پاکستانی عوام کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی اس لئے وہ لاک ڈاؤن کیخلاف ہیں اور ان کا خیال ہے کہ معمولات زندگی حسب سابق چلنے دیئے جائیں کچھ نہیں ہوگا وبا آئی ہے تو ختم بھی ہوجائے گی اگرخدانخواستہ وبا نے پورے ملک کو لپیٹ میں لے لیا تو حضرت مولانا فرما دیں گے زندگی اور موت کا وقت مقرر ہے اسکی مرضی کے سامنے کس کا بس چلتا ہے۔سنا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کو اوپر سے ہدایت کی گئی تھی کہ مکمل لاک ڈاؤن کیاجائے لیکن وزیراعظم نے مخالفت کرکے اسے روک دیا اور کہا کہ جزوی لاک ڈاؤن کیاجائے چونکہ وفاقی دارالحکومت وزیراعظم کی اپنی عملداری میں ہے اس لئے وہاں انہوں نے مکمل لاک ڈاؤن نہ ہونے دیا اسکے باوجود جب بھاوہ کہو اور چک شہزاد میں تبلیغی جماعت کی وجہ سے وبا تیزی کے ساتھ پھیلی تو انتظامیہ ازخود دونوں مقامات کوسیل کردیا۔
سوشل میڈیا پر خبریں گردش کررہی ہیں کہ سینکڑوں زائرین افغانستان کے راستے بلوچستان میں داخل ہورہے ہیں یہ زائرین صرف ایران نہیں گئے تھے بلکہ انکی بڑی تعداد شام اور عراق میں مقیم تھی گلگت،بلتستان کے وزیراعلیٰ حفیظ الرحمن نے ٹی وی پر بتایا کہ انکے علاقے میں دوہزار زائرین تفتان سے آئے ہیں کوئٹہ میں جتنے لوگ آئے ہیں ان کا حساب کتاب ہی نہیں ہے کوئٹہ کی انتظامیہ کو تین ہفتوں کے بعد خیال آیا کہ شہر کے بعض علاقوں میں بڑی تعداد میں زائرین ایران سے آئے ہیں اور ان کا ٹیسٹ بھی نہیں ہوا ہے اچانک یہ علاقے سیل کرکے انکے ٹیسٹ کا فیصلہ کیا گیا ”دیر آمد درست آمد“ لیکن اگر تباہی پھیل گئی تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا بلوچستان کا مسئلہ یہ ہے کہ اسکی طویل سرحدیں افغانستان اور ایران سے ملتی ہیں۔یہاں پر لاکھوں افغان مہاجرین بھی آباد ہیں جو اکثر وبیشتر سرحد پار آتے جاتے ہیں وزیراعظم نے گزشتہ سال معلوم نہیں کیا سوچ کرفیصلہ کیا تھا یہ لوگ جب تک چاہیں رہیں انہیں زبردستی کوئی نہیں نکال سکتا اگر وزیراعظم کا مقصدیہ تھا کہ افغان مہاجرین کو پاکستان کی شہریت دی جائے تو قانونی طریقہ کار اختیار کیاجاتا ایک آرڈی ننس جاری کیا جاتا اور ان لوگوں کو پاکستانی شہریت کیلئے اہل قراردیاجاتا۔غیر قانونی طور پر جو لاکھوں لوگ مقیم ہیں وہ دونوں ممالک کیلئے مسئلہ پیدا کررہے ہیں انکی وجہ سے نہ صرف اسمگلنگ کا تدراک ممکن نہیں بکہ ان لوگوں کی ایک بڑی تعداد منشیات کی تجارت میں بھی ملوث ہے کرونا کی وبا کے بعد یہی لوگ خفیہ راستوں سے بلوچستان میں داخل ہورہے ہیں اور انتظامیہ انکے سامنے بے بس ہے وہ خبر تو سب نے پڑھ لی ہوگی کہ مردان میں عمرہ سے واپس آنے والے ایک شخص کی وجہ سے پورا گاؤں کرونا کی لپیٹ میں آگیا ان واقعات کے باوجود وزیراعظم ٹوٹل لاک ڈاؤن کے مخالف ہیں اور ان کا حکم ہے کہ ٹرانسپورٹ بند نہ کی جائے اگر ٹرانسپورٹ بند نہ ہوگی تو لاکھوں لوگ سفر میں رہیں گے جس کی وجہ سے کرونا کوروکنا ممکن نہ ہوگا۔
جوتبصرے آرہے ہیں انکے مطابق کرونا کو لیکر وزیراعظم اور قومی ادارے ایک پیج پر نہیں ہیں لیکن جمعرات کو وزیراعظم نے راولپنڈی میں ایک آئسولیشن سینٹر کی بنیاد رکھ کر ثابت کیا کہ ادارے بے شک انکے ساتھ ایک پیج پر نہ آئے ہوں لیکن وہ اداروں کے پیج پر آگئے ہیں انہیں سمجھا دیا ہوگا کہ ضد نہ کرو ورنہ بہت نقصان ہوجائے گا اور اس کا ڈس کریڈیٹ آپ کے نام لکھ دیاجائیگا صورتحال تبدیل ہورہی ہے این ڈی ایم اے کیلئے بھاری مقدار میں فنڈز کااجراء اس تبدیلی کی نشاندہی کررہا ہے توقع یہی ہے کہ وزیراعظم تازہ استخارہ کے بعد خود کو تبدیل کردیں گے اور کرونا کے مقابلہ کا حصہ بن جائیں گے جس کے بعد وہ دوست ملک چین سے مزید سازوسامان بھیجنے کی درخواست کردیں گے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وزیراعظم اپنا موجودہ رویہ نرم کرکے پارلیمانی لیڈروں سے وڈیو لنک کے ذریعے دوبارہ رابطہ کریں پچھلی دفعہ جب وہ خطاب کرکے چلے گئے تو شہبازشریف اور بلاول بھٹو نے کانفرنس کابائیکاٹ کردیا تھا کم از کم شہبازشریف کو متبادل لیڈر کے طور پر ایسا نہیں کرنا چاہئے اگر عمران خان ناکام ہوگئے تو ملک کو موجودہ بحران میں شہبازشریف کے سوا اور کون سنبھال سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں