ایرانی تیل کیخلاف کریک ڈاؤن، لسبیلہ سمیت بلوچستان بھر میں معاشی سرگرمیاں ٹھپ

حب(رپورٹ /عزیز لاسی) بلوچستان میں ایرانی تیل کے کاروبارپر پابندی اور کریک ڈاؤن کے احکامات کے بعد صوبے کے دیگر علاقوں کی طرح ضلع لسبیلہ میں بھی کاروباری اور معاشی سرگرمیاں ٹھپ پڑ گئیں ایف سی کی چھاپہ مار کارروائیوں سے ایرانی ڈیزل اور تیل کا کاروبارکرنے والے مراکز اور منی پمپس پر سناٹا چھاگیا لاکھوں واسطہ اور بالواسطہ افراد بیروزگار ہو گئے قومی اور دیگر شاہراہوں پر ٹریفک کی آمد ورفت میں بھی نمایاں کمی سڑکوں پر آبادکھانے اور چائے کے ہوٹل اور دکانیں ویران ہوگئیں،کاروبار سے وابستہ افراد میں تشویش کی لہر دوڑ گئی حکومت سے معاشی قتل بند کرنے کا مطالبہ ایرانی ڈیزل کے کاروبار پر پابندی اور فورسز کے کریک ڈاؤن نے کمر توڑ کر رکھ دی لاکھوں روپے مالیت کا تیل اور آلات ویونٹس ضبط کر لیئے گئے متاثرین کی فریاد اس حوالے سے گزشتہ روز کئے گئے ایک محدود اور محتاط سروے کے دوران ضلع لسبیلہ کے مختلف علاقوں بیلہ اوتھل وندر اور حب میں ایرانی تیل کے کاروبار اور ترسیل کرنے والے گاڑیوں کے مالکان اور ڈرائیورز وکلینر سے حب انکی آراء معلوم کی گئی تو انکا کہنا تھا کہ ایرانی تیل کا کاروبار بارڈر ٹریڈ ہے اور پاکستانی تیل کمپنیوں کی نسبت ایرانی تیل سستا دستیاب ہو تا ہے اسی وجہ سے اسکی طلب زیادہ ہے متاثرہ طبقات کا کہنا تھا کہ اسوقت صوبے کے دیگر اضلاع اور علاقوں کی طرح ضلع لسبیلہ میں بھی ایرانی تیل کے کاروبار سے واسطہ اور بالواسطہ منسلک افراد کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور ہزاروں خاندانوں کی کفالت کا ذریعہ ہے متاثرین نے کہا کہ کوئٹہ اور اسلام آباد کے پُر آسائش محلات میں بیٹھے افسران اور حکمرانوں کو شاید بلوچستان کی پسماندگی اور غربت کا اندازہ نہیں کہ یہاں نہ تو انڈسٹری ہے اور نہ ہی صنعت وزراعت کے وسیع مواقع موجود ہیں انھوں نے بتایا کہ ایرانی تیل کے کاروبار میں سرمایہ کاری کرنے والے مقامی افراد اور صوبے کے دیگر علاقوں تک ترسیل کرنے والے ٹرانسپورٹرز ڈرائیورز گاڑیوں کے کلینر بلوچستان کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور کچے راستوں اور سرکاری چیک پوسٹوں پر تعینات اہلکاروں سے سردردی اور انکی بھتہ خوری کر کے جسطرح سے وہ اپنے خاندانوں کی کفالت کر رہے ہیں اس سے حکمرانوں اور افسر شاہی شاید علم ہوتے ہوئے بھی چشم پوشی کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن بہ یک جنبش قلم انکے کاروبار کو بند کردیا گیا جو کہ کسی ظلم وزیادتی سے کم نہیں متاثرین کا کہنا تھا کہ ایک طرف حکومت نے صوبے کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار کے درواز ے بند کر رکھے ہیں اور اگر ہم اپنا کاروبار کریں تو اُس پر بھی پابندی عائد کرنا بلوچستان کے عوام کے ساتھ کسی جبر اور ظلم سے کم نہیں بلکہ نوجوانوں کو منفی سرگرمیوں کی جانب دھکیلنے کے مترادف ہے انھوں نے کہاکہ حکومت کے اس اقدام سے صوبے میں بیروزگاری کاسونامی آئے گا اسکے اثرات نہایت ہی بھیانک دکھائی دینے ہیں متاثرہ طبقات نے وزیر اعظم عمران خان،وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اور چیف سیکرٹری بلوچستان سمیت اعلیٰ سیاسی وعسکری قیادت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ خدارا اُنکا روزگار نہ چھینا جائے اس اقدام سے اُنکے گھروں میں فاقے ہونگے اور لاکھوں لوگ بیروزگار ہونے سے انکے خاندان دربدر اور بھوک افلاس کا شکار ہونگے واضح رہے کہ ایرانی تیل کے کاروبار پر پابندی اور ایف سی کو کریک ڈاؤن کے اختیارات دیئے جانے کے دوسرے روز ہی ایرانی تیل کے مراکز پر سناٹا چھا گیا ہے جبکہ قومی شاہراہ اور دیگر سڑکوں پر قائم ہوٹلز دکانوں اور ٹائر شاپس بھی ویران ہوگئے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں