بلوچ کلچرڈے کا تقاضا

تحریر فیصل بلوچ

دنیا میں بہت سی قومیں آباد ہیں جن کااپنا کلچر زبان تاریخ رسم و رواج اور تہذیب ہے زندہ قومیں وہ ہوتی ہیں جو اپنی رسم و رواج ثقافت کو زندہ رکھتی ہیں بلوچ قوم ان زندہ قوموں میں شمار ہوتی ہے جو کئی سالوں سے غلامی، ظلم و زیادتیوں اور حق خودارادیت کیلئے جدوجہد میں مزاحمت کرتی آ رہی ہے اس مزاحمت میں انہیں کئی قربانیاں دینے کے باوجود اپنی ثقافت کو زندہ رکھا ہے مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں بلوچ ہوں میری ثقافت میری پہچان ہے بلوچستان میرا دیس ہے مجھے بلوچستان کی مٹی سے اور یہاں کے بسنے والے لوگوں سے پیار ہے. بلوچ قوم کی ثقافت رسم و رواج, تاریخ، مہمان نوازی، بہادری اور اپنے قومی مفاد کی خاطر سیاست، جدو جہد اور مزاحمت تاریخ کے صفحات میں لکھے گئے ہیں بلوچ کلچر ڈے ہر سال 2 مارچ کو بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے کلچر ڈے منانے کا مقصد دنیا کو اپنی ثقافت اور تہذیب سے واقف کرنا اور پیغام دینا ہے کہ بلوچ اپنی ثقافت آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہیں لیکن بدقسمتی سے موجودہ دور میں نوجوان بلوچ قوم کی ثقافت کو صرف دو مارچ کے دن ہی سمجھتے اور اسی دن محدود رکھتے ہیں اقوام متحدہ کی ایک تنظیم نے زبانوں کی بنیاد پر سروے کیا تو ان کی ریپورٹ میں کچھ ایسی زبانیں تھیں جو آنے والے دنوں میں ان زبانوں کے ختم ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا جس میں بلوچی اور براہوئی زبان بھی شامل تھے. اس رپورٹ سے ہمیں یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم اپنی ثقافت کے ساتھ ساتھ اپنی زبان کو بھی بھول گئے ہیں آج ہماری زبان ہماری زبان نہیں رہی آج ہم نے دوسروں کی ثقافت اور زبان کو اپنا کر اپنی ثقافت اور زبان کو ختم کرنے میں آگے نظر آرہے ہیں. موجودہ حالات میں ایک طرف بلوچ قوم اپنی حق خودارادیت اور وجود کی خاطر مزاحمت کر رہی ہے اور ایک غم و صدمے سے گزر رہی ہے ہمارے مرد یہاں تک کے ہماری خواتین اپنی تعلیم اپنی ننگ و ناموس اپنی حق و حقوق اور اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے سڑکوں پر بیٹھ کر اپنی جنگ لڑ رہی ہیں ایسے بھی گھر ہیں جہاں عید کے دن بھی خوشی نہیں آتی اور دوسری جانب چند افراد بلوچ کلچر ڈے منانے کی تیاریوں کے لیے نئے کپڑے، نئے جوتے، نئے جیکٹیں آرڈر پر تیار کرواتے ہیں مختلف کمپنیاں، این جی اوز اور برینڈز اپنی پبلسٹی کیلئے بڑے بڑے سیمینارز اور پروگرامز منعقد کرکے کرایہ پر کلچر میں ملبوس مرد و خواتین لاکر تماشا کرتے ہیں جو بلوچ ثقافت اور روایات کے بلکل برعکس ہے اور کئی افراد جو عام دنوں میں بلوچ اور بلوچیت جانتے نہیں اپنی ثقافت و تاریخ کو بھول کے ان کیلئے تالیاں بجاتے ہیں بڑے بڑے شلوار پہننے مونچھیں تھاؤ دیکر ٹک ٹاک کے لیے ویڈیوز بنا کر اور سیلفیاں لیکر فیس بک پر تصویریں اپلوڈ کر کے خود کو بلوچ کہتے اور ظاہر کرتے ہیں. شاہد ہم یہ بھول چکے ہیں کہ ہماری ثقافت تہذیب صرف دستار پہننا نہیں اس ثقافت کو زندہ رکھنے کیلئے کئی قربانیاں دینی پڑی ہے دستار کی عزت کیلئے کئی سر قربان ہوئے ہیں اور یہ قربانی صرف دو مارچ کے بلوچ ہونے کیلئے نہیں دی گئی ہمیں اپنی تاریخ کو نہیں بھولنی چاہیے دو مارچ کو دستار پہننے کے ساتھ اپنی قومی ذمہ داریوں کو بھی یاد رکھنا ہوگا اس مزاحمت کا حصہ بننا ہوگا جس مزاحمت سے یہ ثقافت ہمیں ملی عام دنوں میں اگر ہم دستار سر پر نہیں باندھ سکتے تو کم از کم اپنے سر وہ زمہ داریاں ضرور لیں جو بلوچ ہونے سے مجھ پر فرض ہوجاتی ہیں ہمیں ان ماؤں بہنوں کی عزت و طاقت بننا چاہیے جو ظلم و ستم اور اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے مزاحمت کر رہی ہیں اگر ہم قومی ذمہ داریوں سے غافل اپنی تاریخ تہذیب بھول جائیں اور مظلوم ماؤں بہنوں کی عزت اور اپنے بھائیوں کی طاقت نہ بنیں گے تب ہم دو مارچ کیا روزانہ سر پر دستار باندھیں تب بھی ہم بلوچ ثقافت پر فخر اور بلوچیت پر اترنے والے نہیں بن سکتے.

اپنا تبصرہ بھیجیں