مزاحمت۔یا سیاسی مزاحمت؟
تحریر: راحت ملک
بلوچستان میں سینیٹ کے انتخاب کے تین پہلو دلچسپ بحث کا باعث بن چکے ہیں۔اول۔
کیا پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر جناب سردار یار محمد رند کے صاحبزادے جناب میر سردار خان رند انتخاب جتیں گے؟ یا پی ٹی آئی کے نامزد کردہ امیدوار معرکہ ماریں گے؟جناب سردار یار محمد رند کے صاحبزادے آزاد امیدوار ہیں اور انہیں اپنے والد بزرگوار کی حمایت کا میسر ہونا فطری بات ہے تو کیا سردار صاحب اپنے برخوردار کی کامیابی کے لئے اپنا اثرورسوخ بروئے کار نہیں لائیں گے؟ یقینا اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔گذشتہ روز محترم سردار یار محمد رند نے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی مرکزی قیادت سے برملا شکوہ بھی کیا کہ
” سینیٹ کے لئے ٹکٹ جاری کرتے ہوئے صوبائی قیادت سے مشاورت نہیں کی گئی”۔سردار خان رندآزاد حیثیت میں جیتے تو یقینا انہیں پی ٹی آئی اور باپ کے ووٹ ملیں گے۔کیا ان کی کامیابی کو سرمائے کا چمتکار قرار دیا جائے گا؟یا سیاسی فیصلہ سازی میں پارٹی کے تنظیمی دائرہ عمل و ڈھانچے کو درخور اعتنا نہ سمجھے جانے کا منطقی نتیجہ؟ یہ سوال بھی سیاسی مباحثے کا اہم حصہ ہے کہ آیا میر سردار خان رند انتخاب جیت کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لیں گے؟بادی النظر میں اس کا امکان موجود ہے کیونکہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی اس دلیل پر سردار یار محمد رند صاحب کے صاحبزادے کو ووٹ دے کر کامیاب کرائیں کہ وہ بعد از انتخاب پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلیں گے یوں پی ٹی آئی ارکان پر مرکزی قیادت کی تنقید یا خفگی کم ہو جائے گی۔میر ا خیال ہے 3مارچ تک ایسی فضاء برقرار کرنے یا رکھے جانے کی امید کی جاسکتی ہے لیکن بعد از کامیابی میر سردار خان رند کی بہ عجلت پی ٹی آئی میں شمولیت کا فوری امکان نہیں۔وہ سیاسی منظر نامے میں بدلاؤ کا بغور جائزہ لے کر اپریل کے وسط تک اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھنا پسند کرینگے البتہ جناب یوسف رضا گیلانی کی جیت انہیں جلد سیاسی وابستگی اختیار کرنے پہ مائل کرے گی۔ویسے جناب گیلانی کی فتح بذات خود سیاسی وحکومتی منظر نامے میں فوری تبدیلی کا آغاز ہوگا جو چیئرمین سینیٹ کے انتخابی معرکے میں فیصلہ کن صورت سامبے آیے گا۔ لیکن اس انتخاب کا حلقہ نیابت بہت اھم ہے قومی اسمبلی میں سرکاری امیدوار کی شکست کے معنی ہونگے حکومت ایوان میں اکثریت کا اعتماد کھو چکی لہذا اس کا برقرار رہنا آئین کے منافی ہے اس حوالے سے پی ٹی آئی کا اقتدار جبکہ دوسری طرف جناب زرداری کی سیاست کا مستقبل داو پر لگ چکا ہے۔ دوم
بلوچستان میں
باپ نے کے پی سے تشریف لائی ہوئی محترمہ ستارہ ایاز کو نامزد کر کے اپنی پارٹی کی خواتین میں سیاسی ہیجان اور سراسیمگی کی لہر دوڑائی ہے۔ شنید ہے کہ محترمہ ستارہ ایاز نے کوئٹہ میں اپنی رہائش کے لئے اب مکان بھی خرید لیا ہے ان کے انتخاب کے اثرات کے پی اسمبلی میں محسوس ہونگے جہاں باپ کے چار اسمبلی ارکان موجود ہیں۔ وہ کس کو ووٹ دینگے؟ یہ سوال باپ اور پی ٹی آئی کے سیاسی اتحاد پر اثرات مرتب کرے گا۔
سوم۔ جناب عبدالقادر بھی سینیٹ کے بہت اہم امیدوار ہیں جنہیں پی ٹی آئی نے نامزد کرنے کے فوری بعد اپنی ٹکٹ واپس لے لی تھی جناب قادر چیئرمین سینیٹ جناب صادق سنجرانی کے قریبی دوست ہیں اور صاحب ثروت بھی۔ چنانچہ جب پی ٹی آئی نے اپنے وعدے سے یوٹرن لیا تو عبدالقادر صاحب نے بھی اپنا رخ موڑ کر براہ راست باپ کی شفقت حاصل کر لی وہ بھی باپ میں نووارد ہیں لیکن باپ کی ساخت اور داخلی تخلیقی کردار میں یہ سوال اہمیت نہیں رکھنا وہ یوں کہ از خود باپ بھان متی کا کنبہ ہے جس کی تشکیل مسلم لیگ نون کو دیوار کے ساتھ لگانے کے لئے ” ماہرین ” نے اپنی ”مہارت” اور کسی کے امدادی سرمائے کے ذریعے کی تھی۔ تاریخ کو دہرانے کا کیا فائدہ باپ اور اس کے سبھی” اہل خانہ” اس دور ن ٍ خانہ کاری گری سے بخوبی واقف ہی نہیں بلکہ اس کا فخریہ اظہار بھی کرتے ہیں یہ عجب سیاسی قافلہ ہے جو سیاسی آلودگی یا سیاست میں غیر سیاسی مداخلت کی کھلے عام تائید کرتے ہوئے اعلانیہ مداخلت کاروں کو کہتا ہے
چشم ماروشن دل ما شاد۔
سیالکوٹ ڈسکہ این اے75کے انتخابی عمل سے دو نکات سامنے آئے ہیں بادی النظر میں 2018 کے برعکس اب پی ٹی آئی کو پس پردہ ماہرانہ دھاندلی کرنے والوں کے تعاون کی عدم دستیابی کا سامنا ہے اور دوئم یہ کہ پی ٹی آئی حکومت شفاف اور دیانتدارانہ جمہوری اظہار رائے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ نہ وہ وہ جمہوری مسلمہ آدرش سے کماحقہ وابستگی رکھتی ہے چنانچہ اسے انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے بلکہ نتائج بدلنے کے لئے وہ سب کچھ تنہا کرنا پڑا جس کا دفاع کرنا اب کسی کے لیے ممکن نہیں۔20حلقوں سے انتخابی عملہ کا لاپتہ ہوجانا اور پھر صبح پانچ بجے سب کا باجماعت نمو دار ہونا ہی یہ ثابت کرنے کے لئے معقول دلیل ہے کہ سارا عملہ کسی ایک جگہ ہی قیام پذیر تھا۔جو دن نکلتے چیف سیکرٹری پنجاب کے حکم پر آر او آفس ”ڈار ” کی طرح اثرے۔ اس واردات کا کھرا جناب عثمان بزدار اور محترمہ فردوس عاشق کی دہلیز تک جاتا محسوس ہوتا ہے جس پر جناب شہباز گل کے ٹویٹ نے تصدیق ثبت کردی ہے۔ حکومتی موقف ہے کہ 20فروری کی شب تمام نتائج جمع ہوچکے تھے لہذا نتیجے کا اعلان روکنا مناسب نہیں اگر یہ مان لیا جائے تو پھر بتایا جائے کہ اتنخابی عملے نے اپنے اپنے پونگ اسٹیشن سے مرتب شدہ مصدقہ دستخط یافتہ نتیجہ کس طرح آر او آفس پہنچایا تھا جو خود تو 21کی صبح کو نمودار ہوئے تھے اگر موبائل فون یا وائس ایپ کے ذریعے نتائج آر او صاحب تک پہنچے تھے تو اس کا ریکارڈ موجود ہوگا؟ اس دلیل کا ناقص پہلو یہ ہے کہ ڈسٹرکٹ الیکشن آفیسر کے دفتر پہنچے سے پہلے تو انکے موبائل فون ہی بند تھے اگر وہ نتائج بذریعہ موبائل بجھوا سکتے تھے تو آر او آفس کی کالز کیوں نہیں سن پا رہے تھے؟ یقینا الیکنش کمیشن اس کا جائزہ لے کر مناسب نتیجے تک پہنچ سکتا ہے۔یہ سوال بھی توجہ طلب ہے کہ لاپتہ انتخابی عملے کی جانب سے جناب شہباز گل کو نتائج سے کیونکر اور کس لئے مطلع کیا گیا تھا؟ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ گمشدہ لاپتہ انتخابی عملے نے اپنے بیس حلقوں میں قابل استعمال ووٹوں کی شرح بھی آسمان تک پہنچا دی جہاں دھند نہیں تھی وہاں تو 30سے35فیصد ووٹ ڈالے گئے اور جہاں دھند کا راج تھا وہاں 85فیصد ووٹ کیسے ڈل گئے؟ دھند کے سیاسی انتخابی کردار اندازہ دھاندلی کے اس فقید المثال معرکے سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
انتخابی عمل2018ء میں نتائج چوری کیے جانے سے جس بری طرح سے مجروح ہوا تھا اس سے عوام کے وسیع حلقوں میں جمہوری عمل پر اعتماد ختم ہوا تھا تو انتخابات کرانے کے ذمہ داران کی ساکھ اور وقار بھی منہدم ہوگیا تھا اب این اے 75کے ضمنی انتخاب کے طور واطوار سے جمہوری عمل۔ جمہوری سیاسی جدوجہد اور سیاسی مزاحمت کی اثرآفرینی بارے شکوک گہرے کیے ہیں اس دھاندلی کو ایک انتخابی حلقہ۔۔۔تک محدود رکھ کر کوئی رائے قائم کرنے کی بجائے ملک کے ان علاقوں کے سیاسی منظر نامہ کے ساتھ دیکھا جانا چاہیے جہاں جہاں پارلیمان جمہوری سیاست کے مقابل مسلح مزاحمت کو ترجیح دینے کی سعی جاری ہے ان علاقوں میں پرامن جمہوری پارلیمانی سیاست کاروں کو جن مشکلات کا سامنا ہے انہیں نظر انداز کرنے سے حالات کی گھمبیرتا مزید سنگین ہوسکتی ہے۔
نہیں بھولنا چاھیے کہ سیاسی جدوجہد کی کامیابی کا حتمی انحصار آزادنہ شفاف پرامن انتخابات کے انعقاد پر ہوتا ہے اگر لوگوں کی رائے چرانے،نتائج بدلنے یا جمہوری انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کا سلسلہ قائم ہو جائے تو معاشرے میں بدامنی پھیلتی ہے۔سیاست پرامن مکالمے اختلافات رائے ذریعے اتفاق پیدا کرنے۔ آزادانہ اظہار اور اس کے تحمل و بردباری کے ساتھ سمجھنے کا نام ہے اسی طرح سماج کے اندر موجود مختلف تضادات پرامن طور پر تحلیل ہوتے ہیں جبکہ جبر سے جبر کو تقویت ملتی ہے وزیرآباد کے متذکرہ واقعے کو پی ڈی ایم کی پرامن سیاسی مزاحمت کی راہ میں ایک سوالیہ نشان بننے سے قبل ریاست کے تمام آئینی اداروں کو آگے بڑھ کر ووٹ اور عوام کے حق حکمرانی کو عزت دینے اس کے احترام کو غیر متزلزل بنانے کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں اگر بروقت ایسا نہ ہوا تو خدشہ ہے کہ آج کی سیاسی مزاحمت صرف مزاحمت نہ بن جایے۔ آئین جمہوریت، وفاقیت اور پارلیمانیت کے مجموعے کا نام مملکت پاکستان ہے اگر اس میں کسی بھی سطح پر تحریف ہو تو مملکت کے جغرافیائی وجود کو خطرات لاحق ہوتے ہیں سقوط مشرقی پاکستان اس کی بھیانک واضح مثال ہے الیکشن کمیشن پر ملک کی سلامتی کا سوال اب آزادنہ جمہوری عمل کی بازیابی اسکے تسلسل واستحکام کی صورت آن پڑا ہے یقین رکھنا چاہیے کہ غیر آئینی تعبیروں اور سرگرمیوں کی بجائے ہمارے ادارے آئین پاکستان کی روح اور الفاظ پر عمل پیرائی اختیار کرینگے تاکہ وفاقیت کے پارلیمانی سانچے کو مستحکم بنانے پر توانائی صرف ہو سکے۔ وزیر آباد کے انتخاب میں کی گئی غفلت کا فوری ازالہ ہونا چاہیے کیونکہ محترمہ مریم نواز نے اعلانیہ کہا ہے کہ آئین جمہوریت پر شب خون کے خلاف وہ مختلف انداز سے سامنے آسکتی ہیں۔۔
پرامن سیاسی جدوجہد کے راستے میں گڑھے کھودنے والے ملک کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے ہیں میں غداری کی اسناد فروشی کا قائل نہیں مگر ملک کی سالمیت وسلامتی کے خطرات سے لاتعلق رہنا بھی گوارا نہیں کرتا۔
1977کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی سے ملک میں فوجی آمریت مسلط ہوئی بعد ازاں ہونے والے انتخابات پر بھی جانبداری کا الزام آیا چنانچہ 1988کے بعد عام انتخابات کے انعقاد کے لئے غیر جانبدار عبوری حکومت کا تصور رائج ہوا۔غیر جانبداری کے تاثر کو تقویت دینے کے لئے اب الیکشن قواعد کے مطابق کسی انتخابی عمل کے دوران کوئی وزیر یا رکن اسمبلی اپنی پارٹی کے امیدوار کی انتخابی مہم میں شریک نہیں ہوسکتا۔حکومت پر پابندی ہے کہ وہ انتخابی شیڈول جاری ہونے کے بعد متعلقہ حلقہ میں کسی قسم کی ترقیاتی کام نہیں کرسکتی نہ ہی ایسا کوئی اعلامیہ یا فنڈ جاری کئے جا سکتے ہیں انتخابی مہم کے دوران متعلقہ حلقے میں تعینات اہم انتظامی عہدوں پر تبادلے بھی ممنوع ہوتیہیں لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سینٹ کے انتخابات میں اسکے برعکس سرکاری اثرورسوخ روکنے کی جانب توجہ نہیں دی گئی!!! جناب عمران خان کھل کر ان انتخابات میں پیسے کے استعمال کی بات کرتے ہیں ہارس ٹریڈنگ اور ووٹ خریدنے کے واقعات بطور شواہد بھی پیش کئے جاتے ہین ووٹر پر صرف مالی طور پر اثر انداز نہیں ہواجاسکتا۔مفادات کے عوض ووٹ حاصل کرنا بھی بعید از قیاس نہیں اور یہ کام حکومتی امیدوار ہی کرسکتاہے اگر وہ خود امیدوار بھی ہواور وزیر بھی تو بات بہت آگے بڑھ جاتی ہے 3مارچ کو ہونے والے سینیٹ انتخابات میں تین وفاقی وزیر امیدوار ہیں وزیر خزانہ جناب حفیظ شیخ،وزیراطلاعات جانب سید شبلی احمد اور جناب فیصل وؤڈا۔
سوال یہ ہے کہ غیر جانبداری کے اس اصول ومعیارات کو جو نگران حکومت کے قیام کے متقاضی ہیں اور دیگر قواعد جن کا سطور بالا میں ذکر موجود ہے۔سینیٹ کے انتخابات میں نظر انداز کیوں کیا جاتا ہے؟
کیا وزیر خزانہ و اہم وزارتوں پر متمکن دیگر معزز وزراء سینیٹر بننے کے لئے اپنے ووٹر کو اپنے سرکاری اختیارات کے ذریعے مفادات کا لالچ دے کر ووٹ نہیں خرید سکتے؟
اٹھائے گئے سوال پر اگر غور کیا جائے تو پہلی فرصت میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو چاھیے کہ وہ وزراء کو انتخاب سے الگ کردینے کا حکم جاری کرے یہ سیاسی تجویز ہے قانون وضوابط کیا ہیں؟ میں
کماحقہ نہیں جانتا لیکن اگر قوانین و اصولی معیار اس کی اجازت دیتے ہیں تو پھر معاملات چلتے رہنے چاہیں۔