استحصال ذدہ تاریخی علاقہ کولواہ کا نوحہ

تحریر : شبیر ساجدی
آواران سے ہوشاب کی طرف سفر کرنے کے دوران کولواہ کے علاقے میں خستہ حال کچی سڑک پر آپ کو درجنوں ایسے مزدور ملیں گے جو ہاتھوں میں پھاوڑا بیلچہ اور کُدال لئے صبح سے شام تک پتھر نکالنے اور کندھے پر ریتی بجری اٹھا کر سڑک پر ڈالنے جیسے سخت ترین محنت و مشقت کا کام سرانجام دے رہے ہوتے ہیں۔ ان غریب مزدوروں میں بوڑھے جوان اور بچے شامل ہیں۔ ان کی روزی روٹی کا انحصار کسی سرکاری و غیر سرکاری ادارے کے بجائے سڑک پر چلنے والی ذامیاد و لوکل گاڑیوں پر ہوتا ہے جن سے بقول ان کے دن بھر دو سو سے تین سو روپے کماتے ہیں۔
انہی غربت ذدہ مزدوروں میں سے ایک فضل ولد غلام جان بھی ہے جو ضلع آواران کے علاقے ہور گراڑی بازار سے تعلق رکھتا ہے۔ غلام جان سات بچوں کا باپ ہے لیکن ضلع آواران میں پائی جانے والی بدترین غربت اور بیروزگاری کی لہر نے انہیں بھی نان شبینہ کا محتاج بنا دیا ہے جنہیں کولواہ کے باقی باسیوں کی طرح کاروبار و روزگار کا کوئی خاطرخواہ وسیلہ دستیاب نہیں تاہم کنبہ کی کفالت کے لئے وہ پچھلے ایک سال سے کچی سڑک پر صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک اپنے دو کمسن بچوں سمیت پتھر نکالنے اور ریتی بجری ڈالنے کا کام بہ امر مجبوری سرانجام دیتے چلے آرہے ہیں۔
فضل صبح گھر سے سوکھی روٹی چادر میں لپیٹ کر لاتا ہے اور دن بھر اسی پر گزارا کرتا ہے۔
فضل کے ساتھ سڑک پر کام کرنے والے ان کے دونوں کمسن بچے صادق اور مہیم جو انتہاہی خوبصورت ذہین اور محنتی ہیں ان کی تمام تر ٹیلنٹ روزانہ کی بنیاد پر سڑک پر پتھر نکالتے نکالتے ضائع ہو رہی ہے گویا غربت اور بے روزگاری کی تباہ کن لہر نے فضل کے آنے والی نسل کو بھی متاثر کیا ہے۔
صادق اور مہیم اس مجبوری کا سبب غربت اور بے روزگاری کو قرار دیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ اسکول جانا چاہتے ہیں لیکن اسکول جانے کی صورت میں گھر کے اخراجات پوری کرنا مشکل ہوجائے گا ان کے گاؤں میں ایک لینگویج سینٹر بھی کھولا گیا ہے وہ چاہتے ہیں کہ سینٹر جوائن کریں لیکن اس کے لئے فی بندہ مہینے کے پانچ سو روپے الگ سے کما کر دینا پڑتا ہے جو فی الحال گھر کی اخراجات پوری کرنے کے علاوہ کما کر دینا ممکن نہیں جبکہ یہی مسئلہ علاقے کے باقی غریب بچوں کو بھی درپیش ہے۔
تربت بیلہ رُوٹ پر چلنے والے ذامیاد گاڑیوں کا ذکر کرتے ہوئے فضل کا کہنا ہے کہ کوئی کوئی رکتا ہے لیکن اکثر و بیشتر نہیں رکتے۔ ذامیاد والوں میں کچھ اچھے مزاج کے لوگ بھی ہیں جو رُک کر ان سے سلام و دعا کرتے ہیں اور خیریت دریافت کرتے ہیں جبکہ کوئی تیز گزر کر ان کی محنت و قربانی کو خاطر میں نہیں لاتے جو بقول ان کے سارا دن سڑک پر انہی گاڑیوں کی سہولت کے لئے سرانجام دیا جاتا ہے۔
فضل کے مطابق اس رُوٹ پر چلنے والی ذامیاد گاڑیوں میں انہیں روزانہ ہر قسم کے لوگ ملتے ہیں۔ جن میں شائستہ، بااخلاق، انسان دوست افراد کے علاوہ نشہی، لاپرواہ اور جارح مزاج شامل ہیں۔
ہوشاب آواران شاہراہ جو ڈیڑھ سو کلو میٹر طویل ہے اس کی تعمیر سے متعلق تقریباً ہر دوسرے سال وفاقی اور صوبائی حکومت اعلانات کرتی ہے لیکن اس کی تعمیر کے آثار دُور دُور تک نظر نہیں آتے حال ہی میں سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین جنرل عاصم سلیم باجوہ نے بھی اس کی جلد تعمیر کی نوید سُنائی تھی لیکن گراؤنڈ پر تاحال اس بارے میں کوئی عملی کام کے آثار ناپید ہیں۔
حکومت وقت اور متعلقہ حکام کو چاہیئے کہ وہ ان مجبور و محنت کش افراد کے مسائل کو فوری طور پر ایڈریس کریں انہیں نوکریاں دیں یا کم از کم انہیں یومیہ بنیاد پر اجرت جاری کریں تاکہہ غریب مزدوروں کو ان کا حق مل سکے۔
یاد رہے عرصے سے ضلع آواران اور ضلع کیچ کے درمیان منقسم کولواہ کے علاقے میں کچی سڑک کی نہ گریڈنگ کی گئی ہے اور نہ ہی متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کے ملازمین سڑک پر کام کرنے کی اپنی محکماجاتی ذمہ داریاں پوری کرتی ہیں۔ تاہم یہ ذمہ داری اب غربت ذدہ مقامی افراد نے اپنے کندھوں پر اٹھایا ہوا ہے جس کے نتیجے میں روزانہ سینکڑوں گاڑیوں کا چلنا مشکل ہی سہی لیکن ممکن ہوگیا ہے۔
بدقسمتی سے تاریخی شناخت رکھنے والے اس اہم علاقے کے ساتھ ہر دور میں ناانصافی کی گئی ہے سڑکیں ناقابل سفر ہیں تعلیم و صحت کی صورتحال ابتر ہے بیروزگاری و غربت کا گراف بُری طرح گر چکا ہے علاقہ ویرانے کا منظر پیش کرتا ہے۔لگتا ہے کولواہ کا وسیع علاقہ ریاستی اداروں کی ترجیحات میں شامل نہیں۔
مقتدرہ کو اس جانب توجہ مبذول کرنی چاہئیے لیکن اس کے لئے انتقام نفرت اور تعصبانہ سوچ کو چھوڑ کر متوازی مثبت و تعمیری سوچ کو اپنانے کی ضرورت ہے اس کے علاوہ عوام کو بھی چاہئیے کہ وہ اپنے حقوق کے لئے اُٹھ کھڑے ہوں کسی کو اپنے آئینی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے نہ دیں اور اپنی طرز زندگی کو بہتر بنانے کے لئے ہرممکن اقدامات کریں۔