کیا افغانستان میں امن آ سکتا ہے؟

زبیر بلوچ
افغانستان میں پچھلے 40 سالوں سے جنگ چل رہی ہے جس نے افغانستان کا ستیاناس کرکے رکھ دیا ہے کیونکہ جب دنیا میں قومیں جنگ کرتی ہیں تو وہ جنگ اْن کی بقاء اور قومی ترقی کیلئے ہوتی ہیں لیکن افغان ان بدبخت اقوام میں سے ہے جہاں پر جنگ کا کوئی مستقبل نہیں بلکہ یہ جنگ صرف تباہی بربادی اور بحیثیت قوم زوال پزیری کا نام و نشان ہے۔ افغان پچھلے 40 سالوں سے لڑ تو رہے ہیں لیکن آج تک بحیثیت قوم اْن کو یہ سمجھ نہیں آئی ہے کہ یہ جنگ اْن کی نہیں ہے۔
پچھلے کچھ مہینوں سے ایک مرتبہ پھر افغانستان میں امن کے چرچے چل رہے ہیں، یہ چرچے تب شروع ہوئے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ وہ افغانستان میں اپنی افواج کو واپس لانا چاہتا ہے اور وہ امریکا کی تاریخ میں سب سے بڑی لڑی جانے والی جنگ یعنی افغان جنگ کا خاتمہ کرنے کا خواہاں ہے کیونکہ امریکیوں کو 19 سال بعد عقل آیا ہے کہ طالبان کو شکست نہیں دی جا سکتی جبکہ امریکا کو اپنی فوجیوں کیلئے رحم آ رہا ہے جو یہاں پر پھنسے ہیں ہاں البتہ وہ الگ بات ہے کہ امریکا کے دنیا بھر کے 150 ممالک میں 800 سے زائد فوجی اڈے ہیں جہاں پر 165,000 سے زائد فوجی موجود ہیں، امریکا کو اْن فوجیوں کیلئے کوئی رحم نہیں بس افغانستان میں پھنسے فوجیوں کیلئے رحم آیا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ امریکا کو عراق میں موجود اپنے ہزاروں فوجیوں پر بھی رحم نہیں آتا جہاں پر ایران سمیت مختلف پراکسی تنظیموں کی جانب سے اْن کی جان کو خطرہ ہے اور باقاعدہ عراقی حکومت کی جانب سے امریکی فوجیوں کو نکلنے کا کہا گیا ہے لیکن ان سب کے باوجود امریکا عراق چھوڑنے کیلئے تیار نہیں لیکن ٹرمپ کا دل بس افغانستان میں موجود فوجیوں پر پگھل چکا ہے۔
اگر ہم طالبان کی ظہور پزیری، سویت یونین کے انہدام امریکا اور طالبان کے رشتے کی نوعیت پاکستان کے کردار، حکومت پر طالبان کے حملے، حکومت پر قبضہ، شریعت قوانین کے نفاذ و طالبان حکومتی نظام، نائن الیون کے حملے اور ان کے پیچھے موجود طالبان کا کردار، اسامہ بن لادن، امریکی حملہ، پھر امریکا کا عراق پر حملہ اور وہاں قبضہ جمانا، طالبان کا پاکستان میں آنا، روس، چین،ایران اور دیگر ممالک کے کردار، طالبان کی زوال پذیری سے پھر سے اْبھار، امریکی حملے اور طالبان کی جانب سے لڑی جانے وانے خونی جنگ، عام عوام پر حملے اور نقصانات، امریکا کے ساتھ بار بار کے مزاکرات کی ناکامی، امریکی فوجیوں پر طالبان کی جانب سے حملے اور ان دیگرامور پر تفصیل سے گفتگو کرنا تو قصہ بڑا لمبا ہو جائے گا اور ان سب کو ایک تحریر میں سمو دینا شاید ممکن نہ ہو جبکہ قصہ مختصر یہ ہے کہ آج جن طالبان سے امریکا لڑنے کا دعوی کر رہا ہے یہ امریکا کے اپنے بنائے گئے سپاہی ہیں جبکہ جن ہتھیاروں کو طالبان استعمال میں لاتے ہیں بھی امریکا کی طرف سے دیے گئے اسلحہ ہیں۔
بات 1979 کی ہے جب سویت یونین انقلاب کا نام لیتے ہوئے دنیا پر قابض ہونے کی منصوبہ بندیاں کر رہی تھی، اسی منصوبے کے تحت سویت یونین کی فورسز نے بغیر افغان عوام کی مرضی و منشا کے افغانستان پر فوجی حملہ کر دیا، چونکہ افغان قوم تاریخی طور پر ایک قبائلی قوم رہی ہے اس لیے اس حملہ کو اْنہوں نے بلکل ہی ناپسند کیا، سویت یونین فورس کابل پر قبضہ جمانے میں تو کامیاب ہو گئی لیکن افغانستان کے 80% لوگوں نے اس کے خلاف جہاد کا اعلان کیا، چونکہ سویت یونین امریکا کا سب سے بڑا حریف تھا اور امریکا اس کے خلاف کسی بھی جنگ کو بڑھ چڑھ کر سپورٹ کرنے کو تیار تھا تو انہوں نے سویت یونین کے خلاف لڑنے کیلئے طالبان کا قیام عمل میں لایا، اس پورے قصہ میں مملکت خداداد نے امریکا کا بھرپور ساتھ دیا، سویت کے خلاف چین برطانیہ اور دیگر کئی ممالک نے مملکتِ خداداد کو اچھی خاصی بھاری رقم دیا، اور اس طرح 9 سال تک سویت فورسز کے قبضہ کے خلاف جنگ ہوئی اور مجاہدین کامیاب ہوئے لیکن پھر کیا ہونا تھا، اب جن طالبان پر امریکا نے کروڑوں ڈالر خرچ کیے تھے سویت کے انہدام کے بعد یہ کسی کے کام کے نہیں تھے، ان کو امریکا سمیت دیگر ممالک نے مکمل طور پر چھوڑ دیا اور انہوں نے چھ سال بعد افغانستان حکومت پر حملہ کر دیا، لڑکیوں کے اسکول بند کر دیے اور افغانستان میں شریعت نافذ کر دیا جس کے بعد 6 سال تک افغانستان دنیا بھر کے دہشتگردوں کا حب رہا اور پھر کیا ہونا تھا امریکا کو اس علاقے میں قدم جمانے تھے کیونکہ اب عالمی طاقتوں کی جنگ کا مرکز مشرقِ وسطی ہونا تھا تو امریکا نے 2001 میں باقاعدہ افغانستان پر حملہ کر دیا، حکومت قائم ہوئی، طالبان کا نظام ختم ہوا جبکہ وہ پھر سے اپنے سیف زونز میں چھپ گئے اور جنگ کا سلسلہ آج تک جاری ہے، جبکہ امریکا نے اس علاقے میں قدم جمانے کے بعد عراق پر بھی حملہ کر دیا۔
اس پورے قصہ میں امریکا اور طالبان کی جنگ میں اگر کسی کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے تو وہ بحیثیت قوم افغان کا ہوا ہے، آج افغان ایک ایسی جنگ میں ہیں جن میں افغان کی بحیثیت کوئی مستقبل نہیں ہے، یہاں پر کوئی جہاد کے نام پر تو کوئی انسانی قوانین اور امداد و مدد کے نام پر افغان قوم کا لہو بہا رہا ہے، ان میں سے کوئی اس قوم کا دوست نہیں ہے اور جو بھی معاہدہ ہو رہا ہے اس میں کچھ بھی افغان قوم کے مفاد میں نہیں ہے جس کی واضح مثال یہ ہے کہ اس معاہدے میں امریکا کا افغان حکومت کا مکمل ساتھ نہیں دے رہا ہے جبکہ افغان حکومت کے ساتھ طالبان بات کرنے تک تیار نہیں ہیں، کیا محض امریکی فوجیوں کے جانے سے افغانستان میں امن قائم ہوگا؟ جبکہ یہ سوال بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ کیا امریکا مستقل طور پر افغانستان چھوڑ دے گا؟ تاریخ اس کی گواہی نہیں دیتی کہ امریکا ایسی غلطی کا مرتب ہو جبکہ اس کے علاوہ کیا طالبان کی حکومت میں آنے کے بعد پھر کیا طالبان لوگوں کی آزادی،خواتین کے حقوق کا احترام، انسانی و عالمی قوانین کی پاسداری کرے گا کیا پھر لڑکیوں کو اسکول جانے سے نہیں روکا جائے گا؟ کیا پھر افغانستان عالمی دہشتگرد اور مذہبی انتہا پسندوں کا گڑھ نہیں بن جائے گا، کیا پھر بچیوں کے ہاتھوں سے قلم واپس چھینا نہیں جائے گا، پھر کیا لوگوں کو اپنی مذہبی آزادی پریکٹس کرنے کا حق دیا جائے گا؟
یہ کچھ ایسے سوال ہیں جن کا کوئی جواب نہیں ہے کیونکہ اصل میں ایسے کوئی حقیقت وجود ہی نہیں رکھتی، کچھ باتیں جن کا کلئیر ہونا ضروری ہے، ایک امریکا کبھی افغانستان کو مکمل طور پر چھوڑے کیلئے تیار نہیں ہوگا، دوسری بات طالبان جیسی فورس کسی بھی صورت عام عوام کی اظہار رائے کی آزادی اور سیاسی حقوق کو دینے کیلئے راضی نہیں ہوگی، وہ فورس جو کرونا جیسے وباء کے وقت بھی اپنی خون ریزی میں کمی لانے پر تیار نہ ہو وہ عوام کی زندگیوں کو کیسے سدھارے گی۔
حالیہ ادوار میں افغانستان میں امن کے کوئی آثار دیکھائی نہیں دے رہے جس کی مثال گزشتہ دنوں طالبان کی جانب سے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات سے انکار تھا۔ افغانستان میں امن صرف ایک صورت میں ممکن ہے اور وہ ہے افغان نیشنلسٹ فورسز کی افغانستان میں بالادستی، افغان قوم پرست لوگ ہی اس ملک کو مزید تباہی سے بچا سکتے ہیں ورنہ قتل غارت کا یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہے گا۔

2 تبصرے “کیا افغانستان میں امن آ سکتا ہے؟

  1. افغان قبائلی قوم رہی ہے نہیں بلکہ قبائلی ہے آپ کا تجزیہ دلچسپ تھا مگر خطے میں جنگ کی وجوہا ت بیاں کرتے آپ کی تحر یر میں مزید نگار آتا روس سے لے کر امریکی کی جو کہانی ہے اس کے پیچھے ایک کہانی موجود ہے جو افغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ تصور کرتا رہا ہے یہ خواب کبھی پورا نہیں ہو ا ہے افغان ایک تاریخ قوم ہے جسے تقسیم کردیاہے قبائلیت کے نام پر مذہب کے نام پر علا قات کے نام ایسے بہت خصلت ہیں جو افغان قوم کو تقسیم کی ہے ان پر اپنے آنے والے تحریر میں مزید روشنی ڈالیں
    قومی طاقت ابھر کر نہیں آتی ہے بلکہ جو انتشار قوم پا رہے ہیں انکو تجزیہ کرنا ہو گا اس قوم کے ساتھ مزاق ہو رہی ہے سب بڑی کھلا ڑی پاکستان ہے

Intekhab کو جواب دیں جواب منسوخ کریں