حکومت مسائل حل کرے، ورنہ فیصلہ کرنے میں آزاد ہونگے، بلوچستان پرائیویٹ سکولز

کوئٹہ: آل بلوچستان پروگریسو پرائیویٹ سکولز ایسو سی ایشن کا ایک ہنگامی اجلاس اتوار کو مرکزی و صوبائی صدر محمد نواز پندرانی کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں پروفیسر محمد ابراہیم ابڑو،حافظ نعمت اللہ خان کاکڑ، عبد الو ہا ب کا کڑ، زاہد حسین، عبد الرحمن لونی، ایڈوکیٹ عمر فاروق، محمد عارف، سید عطا محمد شاہ،طارق کیازئی، محمد جعفر بلوچ، قاری محمد فیصل،عبد الناصر کھوسہ،عبد القادر سموں، میروائس خان خلجی،محمد وسیم خان یوسفزئی،حافظ محمد قاسم اچکزئی،لیاقت علی ہزراہ،محی الدین مری،یونس جاوید دشتی،عتیق بلوچ،منظور احمد پندرانی،عبدالجبار بنگلزئی،عبداللہ اچکزئی،حاجی عبدالطیف بلوچ،قطب خان،محمد ضیاء جوگیزئی، شراف الدین مردانزئی، نثار احمد بھنگر، رئیس محمد صدیق دہوار، احمد نواز برفت،محمد عاصم، نثار احمد مشوانی، رئیس محمد ایوب، کلیم اللہ خان اچکزئی، حاجی عصمت اللہ خان بڑیچ، شازیہ علی،کنیز فاطمہ مینگل،صابرہ طارق و دیگر ڈسٹرکٹس ہیڈز، ڈائرکٹرز اور پرنسپل صاحبان کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ صوبائی صدر محمد نواز پندرانی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں پرائیویٹ تعلیمی ادارے صوبے بھر میں معیاری تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی و دینی تعلیم بھی فراہم کر رہے ہیں حالیہ کرونا وائرس سے سکولز کی بندش نے سکول مالکان کو مالی مشکلات میں مبتلا کر دیا ہے اور کثیر تعداد میں اساتذہ صاحبان تنخواہ سے محروم ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ صوبہ سندھ،پنجاب،اسلام آباد،کے پی کے، گلگت بلستان،آزاد کشمیر کے وزرا تعلیم نے اپنے اپنے صوبوں کے پرائیویٹ سکولز کے مسائل کے مطابق پالیسی کا اعلان کر چکے ہیں لیکن صوبہ بلوچستان میں وزیراعلیٰ بلوچستان اور وزیر تعلیم نے ہم سے مسائل کے حل یا سفارشات نہ لینے کے ساتھ ساتھ ملنے سے بھی انکار کرتے ہوئے ابھی تک کسی ریلیف کا اعلان کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی ہم حکومت بلوچستان سے اپیل کرتے ہیں کہ ھمارے ساتھ مشورہ کر کے ریلیف اور پالیسی کا اعلان کیا جائے ایسا نہ کرنے کی صورت میں بلوچستان کے 33 اضلاع میں 10 اپریل 2020 سے تمام سکولز کے پرنسپل / ڈائریکٹر صاحبان اپنے آفس کھول دینگے اور دفتری امور کے ساتھ والدین سے ماہوار فیس بھی طلب کی جائیگی تا کہ سکول بلڈنگ کے کرائے، سکول اساتذہ اور معاون سٹاف کو تنخواہ دی جا سکے ایسی صورت میں حکومت بلوچستان نے اگر طاقت کا مظاہرہ کیا تو بلوچستان کے 2800 پرائیویٹ سکولز کے 32000 اساتذہ اور معاون عملہ بمعہ 7 لاکھ 35 ہزار طلبہ احتجاج کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہوئے تاریخ رقم کرتے ہوئے جیل جانے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔انہوں نے کہا کہ کچھ عرصے سے سوشل میڈیا پر چند تعلیم دشمن افراد اپنی سیاست چمکانے کے لیئے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے خلاف ایک مہم شروع کی ہوئی ہے ہم پرائیویٹ سکولز میں زیر تعلیم بچوں کے والدین کو اپیل کرتے ہیں کہ اس مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیں اور سوچیں کہ اگر انکے عدم تعاون اور عدم دلچسپی کی وجہ سے اگر یہ سکول بند ہو گئے تو کیا وہ 500 یا 1000 یا 2000 اور چند سکولز 3000 ماہانہ فیس وصول کرتے ہیں کیا اس کی جگہ 5،10اور15ہزار روپے ماہانہ فیس دے سکیں گے؟ جب پرائیویٹ تعلیمی ادارے بلوچستان میں محکمہ تعلیم کے شانہ بشانہ طلباء و طالبات کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت بلوچستان کو سالانہ 50 سے 55 ارب روپے بچا کر بھی دے رہے ہیں پھر پرائیویٹ سکولز کے ساتھ یہ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیوں کیا جا رہا ہے؟ اگر آج تمام پرائیویٹ تعلیمی ادارے مالی بحران کی وجہ سے بند ہو جائیں تو کیا بلوچستان حکومت کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ اچانک 7 لاکھ 35 ہزار بچوں کے لئے نئی بلڈنگ بنا سکے اور مزید اساتذہ کو بھرتی کر سکے تا کہ بچوں کی تعلیم اور سال ضائع نہ ہو۔آخر میں محمد نواز پندرانی نے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اور وزیر تعلیم سردار یار محمد رند سے اپیل کی کہ آل بلوچستان پروگریسو پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشن کی سفارشات کو مد نظر رکھتے ہوئے تعلیمی اداروں کے لئے فورا مالی ریلیف کا اعلان کیا جائے تا کہ بچوں کو آن لائن پڑھانے کے لئے سسٹم خرید کر آنے والی نسلوں کو تباہی سے بچایا جا سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں