گورنمنٹ ڈگری کالج تونسہ شریف میں تعلیمی و علمی فقدان

تحریر: ہارون الرشید بلوچ

کسی بھی معاشرے میں تعلیم کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا آپ دنیا کی کسی بھی ریاست ،معاشرے اور قوم کی ترقی کا راز جاننا چاہے تو وہاں تعلیم کی اہمیت روز روشن کی طرح عیاں ہو گی۔
اکیسویں صدی میں جہاں دنیا تعلیم کے شعبے میں دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہی ہے جہاں کالج اور یونیورسٹیوں میں مختلف جدید مضامین کے کلاس کا آغاز کیا جا رہا ہے ۔

لیکن اس جدید دور میں بھی تونسہ شریف اور کوہ سلیمان کے دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے طلباء و طالبات کو تعلیمی اور علمی سہولیات میسر نہیں۔

ڈگری کالج تونسہ شریف کا قیام1976 میں عمل میں لایا گیا جس کا مقصد لوگوں کو تعلیم جیسی بنیادی اور علم جیسی روشنی سے منور کروانا تھا لیکن بدقسمتی سے وہ صرف علاقہ مکینوں کے لئے ایک خواب ہی رہے گیا اور گورنمنٹ ڈگری کالج تونسہ کا کنٹرول قبضہ مافیا کے ہاتھوں میں آگیا اور چند لوگوں کی ٹولی نے اس پر اپنا قبضہ جما لیا اور آج تک ڈگری کالج تونسہ قبضہ مافیا کے قبضے میں ہے ڈگری کالج تونسہ اپنے قیام سے لے کر آج تک مسائل کا گڑھ بن چکا ہےجس کی وجہ سے ہر سال ہزاروں طلباء وطالبات کا تعلیمی استحصال کیا جا رہا ہے۔

پچھلے چند سال سے وزیر اعلیٰ جناب عثمان بزدار کی طرف سے کالج کو پوسٹ گریجوایٹ کا درجہ دیا گیا ہے لیکن سابقہ پرنسپل صاحبان سے لے کر آج تک کسی بھی پرنسپل صاحب نے کالج کو فعال کرنا گوارا نہیں کیا ۔
ڈگری کالج تونسہ شریف کے تمام پروفیسرز صاحبان نے ڈگری کالج کو یرغمال بنایا ہوا ہے اور اپنی اکیڈمیز بنا کر ہر مہینے غریب اسٹوڈنٹس سے کروڑوں روپے بٹور کر عیاشیوں میں لگے ہوئے ہیں۔جب بھی طلبہ کالج کلاسز لینے جاتے ہے تو ان سے کہا جاتا ہے کہ آپ اکیڈمیز میں آجائیں ہم آپ کو وہاں اچھی طرح سے پڑھیں گے جس کی وجہ سے کالج میں سوڈنٹ نہ ہونے کے برابر ہیں۔

لیکن دوسری طرف ہمارے پرنسپل صاحب خاموش تماشائی بن ہوئے ہیں کیونکہ ان کو باقی اکیڈمیز کی طرف سے ماہانہ لاکھوں روپے کالج کو نہ فعال کرنے کے عوض دیے جاتے ہیں۔جب سے کالج میں بی ایس کلاسز کا آغاز ہو تو ان کالج کے پروفیسر کی جانب سے ایک یونی ورسٹی کیمپس کا آغاز کیا گیا ہے اور طلبہ کو وہاں آنے کا کہا جارہا ہے جہاں کالج کی بجائے پرائیویٹ طور پر ہزاروں کی تعداد میں فیس لی جاتی ہے۔
اج بھی ڈگری حاصل میں ایف ایس سی ،ایف اے اور آئی سی ایس کے اسٹوڈنٹس نہیں ملے گئے جن کا نام تو کالج میں درج ہیں لیکن ٹیچرز کی جانب سے ان کو کالج میں نہ آنے کا کہا دیا جاتا ہے۔

سب سے بڑا الیمہ ہے کالج میں داخلے کے لئے میرٹ نہ ہونے کے برابر ہے تمام تر داخلے اثرورسوخ رکھنے والے اسٹوڈنٹس کو دی جاتی ہیں
اطلاعات کے مطابق سابقہ پرنسپل جناب سیف اللہ مکلانی صاحب کو اس بنیاد پر سے اپنے عہدے سے ہٹایا گیا کیونکہ انہوں نے میرٹ کے بنیاد پر داخلے کروانے کی کوشش کی۔

کالج انتظامیہ کی طرف سے اسٹوڈنٹس کو دانستہ طور پر ٹیسٹوں اور پیروں میں فیل کر دیا جاتا ہے اور ان سے جرمانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے اگر کوئی سٹوڈنٹ جرمانہ ادا نہ کرے تو اس کا داخلہ نہیں بھیج جاتا ہے۔

حال ہی میں ( سی ٹی آئی) کی طرف سے کالج میں انٹرنی ٹیچنگ کی طرف سے لیکچررز کی بھرتی میرٹ کی بجائے ذاتی تعلقات اور اثر ورسوخ کی بنیاد پر کی گئی جس کے خلاف میڈیا پر آواز اٹھائی گئی

آج بھی آپ کو ڈگری کالج میں ہزاروں اسٹوڈنٹس کے لئےصرف اور صرف ایک واٹر کولر دیکھنے کو ملے گا جس کی حالت انتہائی خاستہ ہے جو کہ کی دہائیوں پرانی ہے جہاں گلاس تک کی سہولت موجود نہیں دوسری جانب ٹیچرز صاحبان کا رویہ نا قابل برداشت ہے جو ٹیچرز کم اور ایک جیلر زیادہ لگتے ہیں۔
ڈگری کالج کی انتظامیہ کی طرف سے رواں سال میں تین مرتبہ یونی فارم تبدیل کیا گیا جو یہاں کے غریب اسٹوڈنٹس اور ان کے غریب والدین کے ساتھ مکمل زیادتی ہے۔

اسٹوڈنٹس کو کلاس میں گالیاں اور دھمکیاں دی جاتی ہے اگر کوئی اسٹوڈنٹس کالجز کے ان مسائل پر آواز بلند کر ے تو اس کو زبردستی سے امتحانات میں فیل کر دیا جاتا ہے اور اسٹوڈنٹس کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جاتی ہے جس کی وجہ سے یہاں کے غریب عوام اور طلبہ کسی بھی قسم کی بات کرنے سے بہت ڈرتے ہے۔

حال ہی میں جب چند دوستوں نے کالج انتظامیہ کے ان رویوں کے خلاف اجتجاج کیا اور میڈیا پر اپنے مسائل کو لانے کی کوشش کی گئی تو ان اسٹوڈنٹس اور ان کے والدین کو کالج کے پرنسپل جناب ظہور صاحب کی طرف سے بلایا گیا
ان کے والدین سے کہا گیا کہ یہ اسٹوڈنٹس غلط سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور ان کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے۔
کالج انتظامیہ کی طرف سے فیمل اسٹوڈنٹس کو حراساں کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے کالج کے تمام طلباء وطالبات ذہنی اذیتوں سے گزر رہیں ہیں۔

لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے تونسہ شریف جس کو یونان صغیر کہا جاتا ہے وہاں کے رہنے والے باشندے جن میں وکیل، استاد،ڈاکٹر ،دانشور اور زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ مکمل خاموش نظر آتے ہے جو کہ تعلیم دوشمن رویہ ہے
اگر آج بھی یہاں کے رہنے والے طلبہ و طالبات نے اور ان کے والدین نے اپنے بچوں کے لئے آواز بلند نہیں کی تو لاشعوری ،جاہلی, پسماندگی اور بےراہ روی ہمارے معاشرہ کی مقدر ہوگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں