ہم اور ہمارا نظام

تحریر: شے حق صالح بلوچ
میں بلوچستان ریزیڈنشل کالج تربت میں پڑھتا ہوں جہاں ہر وقت ہمارے اعلی افسران اکثر ہمارے عسکری قیادت اور دوسرے جو حکومتی نمائندے ہیں اکثر اوقات وہاں دورہ لگا کر ہمارے مسائل پوچھتے رہتے ہیں۔مسائل تو ہر جگہ پر ہوتے رہتے ہیں لیکن بی آر سی تربت چونکہ پہلے سے ایک اسٹینڈرڈ ادارہ ہوا کرتا تھا اور اس لیے وہاں مسائل آپ کو بہت کم ملیں گے اچھی سہولت اور اچھی پڑھائی کے ساتھ ساتھ یہ ایک کمپلیٹ اسٹینڈر ادارہ سمجھا جاتا ہے۔لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ ہمارا انتظامیہ اور اعلیٰ افسران صرف یہی ادارے کو دیکھ کر بار بار ہمارے مسائل پوچھتے رہتے ہیں۔ہمارے حکومتی نمائندوں کو اور اعلی افسران کو یہ نظر نہیں آتا کہ دس منٹ کے فاصلے پر آپ کو کئی سرکاری اسکول اور تعلیمی ادارے ملیں گے جہاں پینے کو پانی نہیں ہے اور کلاس نہیں جہاں پڑھ سکے اور ٹیچر بھی نہیں ہے اور وہاں جاکر درپیش مسائل کو حل کرنے کے بجائے یہ ان اداروں پر زیادہ زور دیتے ہیں جہاں مسائل کم یا آپ کو ملتی ہی نہیں ہیں۔کیا ان کا حق نہیں بنتا کہ ان کے مسائل سنے جائیں اور حل بھی کیے جائیں؟دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ کوئی ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا اور ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دیا گیا ہے۔اس کے علاوہ یہاں قومی دن منائے جاتے ہیں جہاں ہر وقت مخصوص تعلیمی ادارے کے طالب علم حصہ لیتے ہیں کیا دوسرے طالبعلموں کا حق نہیں بنتا ہے کہ وہ اس پروگرام میں حصہ لے کر اپنا کارکردگی دکھائیں اور اپنا قومی جذبہ بیان کرے۔یہ سب کہنے کا مقصد یا لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ ہم سب اس ریاست کے لئے برابر ہیں اور سب کو برابر حق دیا جائے۔ہمارے انتظامیہ کا فرض بنتا ہے کہ سب تعلیمی اداروں پر برابر اپنے دورے لگا کر برابر ان کے مسائل سنے جائیں اور وقت پر حل کیے جائیں نہ کہ ان اداروں پر زیادہ توجہ دیا جائے جہاں پہلے سے مسلہ نہیں ہے۔اگر ہمارے انتظامیہ کارکردگی اس طرح چلتا رہا تو آئندہ وقت یہ قوم تباہی کی طرف جائے گی نہ کہ ترقی کی طرف۔پہلے سے یہ تباہ شدہ صوبے کو اور تباہ نہ کرو بلکہ اس کی ترقی کے لیے کام کرو.بیروکریسی اور انتظامیہ کا فرض بنتا ہے کہ وہ ہر ادارے کی نگرانی کر کے ان کا کارکردگی دیکھیں۔پتہ نہیں کب آئے گا وہ نظام جہاں ہر کسی کو اپنا حق مل جائے گا۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں