سی پیک: بلوچستان کی ترقی یا معاشی قتل؟

شہداد شاد

بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال ایک امیر خطہ ہے۔ سیندک، ریکوڈک، سوئی گیس اور سات سو سے زائد میل پر مشتمل ساحل اور گوادر پورٹ امیر صوبے کے مشہور اثاثے ہیں۔ بلوچستان کو ون یونٹ کے خاتمے کے بعد 1971 میں صوبے کا درجہ ملا۔ سیاسی میدان میں کئی نشیب و فراز آئے، کبھی قوم پرست رہنماؤں نے اقتدار کی کرسی سنھبالی تو کبھی وفاق پرست اقتدار کی کرسی پر براجمان رہے۔ بلوچستان کی ترقی کے لیے مختلف ادوار میں مخلتف پیکجز بھی متعارف کرائے گئے، آغازِ حقوق بلوچستان سمیت دیگر پیکجز بلوچستان کے غریب لوگوں حالتِ زار بھی بہتر نہ کر سکے۔ بلوچستان سے متصل ملک ایران کے صوبہِ بلوچستان و سیستان میں بلوچوں کی اکثریتی آبادی ہے جن کا مشرقی بلوچستان جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا صوبہ ہے، سے خونی اور قومی رشتہ ہے۔ بلوچستان کی اکثریتی آبادی کے روزگار کا دارومدار ایرانی بارڈر سے پر ہے۔ نوکری اور دیگر روزگار کے مواقع کی عدم دستیابی پر بلوچستان کی اکثریت آبادی، بچّوں سے لے کر نوجوانوں اور بوڑھوں تک کے گھر کا چھولہ اسی بارڈر سے چلتا ہے۔
چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور المعروف سی پیک سے پہلے بلوچستان کے لوگ باعزت طریقے سے بارڈر سے منسلک کاروبار سے نہ صرف اپنے گھر کے چولہے چلاتے تھے بلکہ اپنے بچّوں کو بھی تعلیمی اداروں میں بھیج کر علم کی روشنی سے آشنا کرانے میں کامیاب ہوتے تھے۔ مگر جب سے سی پیک آیا ہے، بلوچستان بالخصوص مکران اور رخشان کے لوگ بجائے ترقّی کے، مزید تباہی کے گڑھوں میں گرتے جا رہے ہیں۔ سیکورٹی اور امن و امان کے نام پر بارڈر ٹریڈ کو بند کیا گیا ہے۔ سی پیک سے پیدا ہونے والی نوکریوں اور اسکالرشپس سے بلوچستان کے لوگوں بجائے دوسرے صوبوں کے لوگ استفادہ حاصل کر رہے ہیں۔
پاک-ایران بارڈر پر لوگوں کے ذرائع معاش، اشیائے خورد و نوش اور ایرانی ڈیزل پر منحصر ہے، ہزاروں کی تعداد لوگ درج بالا ذرائع سے اپنے گھر کا چولھا جلاتے تھے۔ ان سے نہ صرف ان غریبوں کا چولہا جلتا تھا بلکہ سیکڑوں کی تعداد میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی چیک پوسٹس سے ایک گاڑی پر 1 سے 5 پانچ ہزار فی چیک پوسٹ بھتہ وصول کیا جاتا ہے جو ایک دن میں کروڑوں روپے بنتے ہیں۔
اسی کاروبار سے جڑے ہمسایہ ملک کی بارڈر فورسز کی فائرنگ کی وجہ کئی سے اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں، جو وہاں مرنے کے لیے نہیں بلکہ اپنے بچّوں کو بھوک و افلاس کی وجہ سے مرنے کے بجائے زندہ رکھنے کے لیے گئے تھے۔ ایک دو مہینے قبل پنجگور سے متصل پاک-ایران بارڈر پر ایرانی فورسز کی اندھا دھند فائرنگ سے 20 سے 30 لوگ اپنی جان کی بازی ہار گئے مگر اس پہ ان حکومتی نمائندگان اور ذمہ داروں کی جانب سے کارروائی تو دور کی بات مذمتی بیان تک سامنے نہیں آیا جو مقبوضہ کشمیر میں کتّوں کی مرنے پہ افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ اسی طرح پچھلے چودہ دنوں نے پاک ایران سرحد پہ پھنسی ہزاروں تیل بردار گاڑیوں کو واپس آنے نہیں دیا جا رہا، اشیائے خوردونوش ختم ہونے کی وجہ سے اب تک تین لوگ زندگی کی بازی ہار گئے ہیں اور ہزاروں کی جانیں خطرے میں ہیں اور اتنے دن گزرنے کے باوجود اداروں اور حکومتی نمائندگان کی خاموشی سوال جنم دے رہا ہے کہ یہ سی پیک بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی کا ضامن ہے یا معاشی قتلِ عام ہے؟!

اپنا تبصرہ بھیجیں