فرنٹ لائن ورکرز

تحریر
ببرک کارمل جمالی

اس وقت بلوچستان کے فرنٹ لائن ورکرز پیرامیڈیکل اسٹاف کورونا وائرس کے خلاف اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر جس جانفشانی سے جہاد کر رہے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں ان مجاہدوں کو کئی اہم شخصیات نے سیلوٹ بھی پیش کیا ہے سچ تو یہ اس سیلوٹ کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے بلکہ ان کو ضرور ہے تو اس وقت رسک الاؤنس اور سروس اسٹرکچر کی اشد ضرورت ہے رسک الاؤنس نہ ملے تو رسک پہ کام کرنا خود کو موت کے منہ میں پھینکنے کے برابر ہوتا ہے یہ رسک الاؤنس بلوچستان کے علاوہ پاکستان کے تمام صوبوں کو پچھلے کئی سالوں سے مل رہا ہے صرف بلوچستان کے فرنٹ لائن ورکرز اس سے محروم ہیں۔

اس وقت بلوچستان کے عوام اور حکومت وقت کو چاہیے کہ پیرا میڈیکل اسٹاف اور ڈاکٹر حضرات نرس اور اسپتالوں میں کام کرنے والے ہر عملے کی حوصلہ افزائی کریں اس مشکل کی گھڑی میں یہ لوگ اپنے بچوں کو چھوڑ کر بلوچستان کے بچو کی خدمت میں دن رات لگے ہوئے ہیں۔ یہ وقت شکوے شکایت کا نہیں کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنے کا ہے۔

سچ تو یہ کہ جس طرح گزشتہ دنوں چائنہ میں حالیہ ایمرجنسی میں پیرا میڈیکل اسٹاف ڈاکٹر نرس کو خدمات کے اعتراف میں چائنہ حکومت اور عوام نے ان اسٹاف کو اعزازیہ کے ساتھ اعزازات اور ہر گلی کوچے میں ان کو سلام بھی پیش کیا تھا اور شہریوں نے ان سب کا والہانہ استقبال بھی کیا تھا کیا بلوچستان کے لوگ اس مصیبت کی گھڑی سے نکلنے کے بعد ان فرنٹ لائن ورکرز پیرا میڈیکل اسٹاف ڈاکٹرز نرسنگ اسٹاف اور ہسپتال میں کام کرنے والے تمام افرادکو سلام پیش کریں گے۔ جی بالکل نہیں ۔یہ حقیقت ہے کہ فرنٹ لائن ورکرز اپنے ناقص انتظامات کے سبب اپنے قیمتی جانوں کو موت کے منہ میں دھکیل چکے ہیں ۔ کہیں کل ایسا نہ ہو کہ بلوچستان کے فرنٹ لائن ورکرز کرونا وائرس کی وجہ سے نا پید ہو جائیں وہ تو لفظ سنا ہے نہ۔۔۔۔میری گندم خریداری کرنے والو تھوڑا آٹا آدھا دے دو۔

اس وقت فرنٹ لائن ورکرز کرونا وائرس کی رحم کرم پر بغیر ماسک گلوز اور حفاظتی کٹ کے میدان جنگ میں اتر چکے ہیں۔کہیں ایسا تو نہیں کہ کرونا وائرس کی آڑ میں پیرامیڈیکس فرنٹ لائن ورکرز کی زندگی اور موت کا قیمت کوئی شخص وصول کیا جا رہا ہے اس وقت بلوچستان میں فرنٹ لائن ورکرز کے ساتھ عجیب قسم کی عقیدت اور شکر گزاری کے اشتہار سامنے آ رہے ہیں پچھلے کئی دہائیوں سے ان فرنٹ لائن ورکرز کی کردار کُشی کی کی گئی ہے اتنی کسی اور ملازم پیشہ کی نہیں کی گئی۔ یہاں تک کہ پیرا میڈیکل اسٹاف اور پروفیسروں ڈاکٹروں کو ہتھکڑیاں بھی لگائی گئیں تھی۔

بلوچستان میں فرنٹ لائن ورکرز کے دو طبقے موجود ہیں ایک تو وہ جو کہ نوٹ چھاپنے کی مشینیں ہیں۔ جن کے گھر کی ٹونٹیاں اور بچوں کے ڈائیپرز بھی دوائیوں کی کمپنیاں فراہم کرتی ہیں۔دوسرا وہ طبقہ ہے جو اپنی سروس سٹرکچر اور ہسپتالوں میں سہولیات، ادویات اور انتظامات کی کمی کی بنا پر پچاس پچاس روز تک سڑکوں پر بیٹھ کر گزارتے ہیں۔ان فرنٹ لائن ورکرز نے ہسپتال بیچنے کی مخالفت میں ہڑتالیں بھی کیں تھیں،اور ریلیاں بھی نکالیں تھی اور احتجاج بھی کیے تھے اپنی تنخواہوں میں رسک الاؤنس اور سروس اسٹرکچر شامل کرنے کے لیے سڑکوں پر آئے تھے تو حکومت نے ان فرنٹ لائن ملازمین کو ملازمتوں سے نکالنے کی بھی دھمکیاں دیںتھیں اور قتل کے بھی دھمکیاں دی تھیں اور مقدمات میں پھنسایا بھی گیا تھا لیکن ان فرنٹ لائن ملازمین کو مطالبات کی نوعیت کو دیکھے بنا، جانے بنا ان کے ہڑتال کرنے کے حق کو نہ مانتے ہوئے ان کو ہڑتال توڑنے کا حکم سنا دیا اور ان کی ہڑتال کو ناجائز قرار دے دیا گیا تھا ااور بلوچستان اسمبلی میں ایسے قوانین پاس کروانے کی کوششیں بھی کی گئیں کہ فرنٹ لائن ورکرز آئندہ ہڑتال بھی نہ کر سکیں۔

آج ان فرنٹ لائن ورکرز کو ہیرو بنا کر پیش نہ کریں، ان کو ان کی ضرورت کا سامان اور سروس اسٹرکچر اور رسک الاؤنس فراہم کریں تاکہ اپنی حفاظت کیلئے زندہ رہتے ہوئے خود کام کریں۔ ہم جناب وزیر اعلی بلوچستان میر جام کمال خان سے پر زور اپیل کرتے ہیں کہ محکمہ صحت فرنٹ لائن ورکرز کی سمری چیف سکریٹری کے آفس تک پیرامیڈیکل کی 3642 HD پڑی ہوئی ہے منظور فرما کر پورے بلوچستان میں کرونا وائرس سے لڑنے والے فرنٹ لائن ورکرز کا دل جیت لیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں