حب چوکی گندگی کی لپیٹ میں

تحریر۔ ۔۔۔ابوبکردانش بلوچ
بلوچستان کا سب سے بڑا صنعتی شہرحب میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں ہیں جس کی وجہ سے آلودگی میں مستقل اضافہ ہورہا ہے۔ کچرے کا ڈھیر بڑھ جانے کی وجہ سے لوگوں کو پیدل چلنے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے ۔کچرے کا ڈھیر اس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ ٹریفک جام کا مسئلہ بھی ہوجاتا ہے۔ جو بچے ان کچروں کے ڈھیر میں کھیل رہے ہوتے ہیں وہ بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
گھر وں میں بجلی اور پانی نہیں اور گھر سے باہر سکون نصیب نہیں ۔ ماحولیاتی آلودگی کے ساتھ ساتھ فضائی آلودگی نے بھی مسائل کا انبار لگا رکھا ہےشہر کے باسی جائیں تو جائیں کہاں، کس سے فریادکریں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ایک صوبائی حکومت ہے وہ بھی دکھائی نہیں دیتی۔ لوگ ناامید ہو چکے ہیں۔ پھر بھی صاحبان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی،،
حقیقت تو یہ ہے کہ بلدیاتی اداروں کی نااہلی اور غفلت نے لاکھوں شہریوں کو متعدی امراض اور دیگر مسائل کا شکارکر رکھا ہے ۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ اس شہر میں” سرکاری ذمہ دار“ نام کی کوئی ہستی موجود نہیں، ورنہ یہ شہر اس طرح بے سروسامان نہ ہوتا ۔کیسی بات ہے کہ بلوچستان کاسب سے زیادہ صنعت دینے والا شہر لاوارث ہو گیا ہے۔ حکومت کی طرف سے صفائی ستھرائی اور عوام کی خدمت کے دعوے محض بیانات و اعلانات تک محدود ہیں ۔اگر دیکھا جائے تو عملاً ان کا کوئی وجود نہیں ۔گندگی کے ڈھیر ابلتے ہوئے گٹر اور پھر سڑکوں اور گلیوں میں بہتا ہوا گندا پانی آج کانہیں ، برسوں پرانا مسئلہ ہے ۔ ماحولیاتی آلودگی کا ایک اور سبب پلاسٹک کی تھیلیاں ہیں جو ہر طرف بکھری دکھائی دیتی ہیں۔
دھنک کے صفحہ پر جو تصویر شائع کی گئی ہے وہ دراصل حب شہر کے ایک علاقے کی ہے جوکہ شہر کی وسط میں مدینہ کالونی کی نام سے پہچانا جاتاہےجس کو دیکھ کر ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ یہاں انسان توکیا کسی غیرانسانی مخلوق کا رہنا بھی محال ہوگا۔ یہ صرف ایک محلے یا علاقے کی بات نہیں ، پورے کا پورا شہرہی کچرا کنڈی کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔ صوبہ بلوچستان کے سب سے بڑے صنعتی شہرذمہ داران کی غفلت سے اس حال کو پہنچ چکا ہے۔ یوں کہئے کہ اقتدار کی رسہ کشی نے حب شہرکو گندگی کا ڈھیر بنا دیا ہے ۔گندے پانی کے جوہڑ، اسپتال او راسکولوں کے سامنے بنی کچرا کنڈی ،علاقے میں پھیلی بیماریاں ہر جگہ کچرے کے ڈھیر او رپھر تعفن زدہ گلیوں نے شہریوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ حب شہر کی حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہاہے،

اپنا تبصرہ بھیجیں