خوف کا نیا ماحول۔۔۔

تحریر: رشید بلوچ
بلوچ معاشرے میں مزہبی شدت پسندی کا رجحان کبھی نہ تھا،ہندو اور پارسی کمیونٹی ہزاروں سالوں سے بلوچستان میں رہتی چلی آرہی ہیں لیکن گزشتہ 20سالوں کی شورش کی وجہ سے زیادہ تر اقلتی کمیونٹی کے لوگ بلوچستان چھوڑ کر پاکستان کے مختلف شہروں اور بیرون ملک چلے گئے، ان 20سالوں میں مزہبی شدت پسندی سے نہ صرف اقلیتی کمیونٹی متاثر ہوئی ہے بلکہ مقامی آبادیاں بھی اس خطرناک رجحان سے محفوظ نہ رہ سکیں،تین چار سال پہلے تک مکران میں بچیوں کے سکولوں میں گمنام مذہبی تنظیموں کے نام سے دھمکی آمیز پمفلٹ پھنیکے جاتے رہے، سکولوں کی چار دیواریوں پر چاکنگ بھی ہوتی رہی،دھمکیوں میں کہا یہ جاتا رہا کہ بچیوں کو تعلیم نہ دی جائے، بلکہ بسا اوقات یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ مخلوط نظام تعلیم غیر شرعی عمل ہے،بچے اور بچیوں کو اکھٹے نہ پڑھا یاجائے، معاشرے میں دہشت پہلانے کیلئے بچیوں کو پڑھانے والے نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو بھی ہدف بنا کر مارا جاتا رہا، شدت پسندوں کی دھمکیوں کے خوف سے والدین اپنے بچیوں کو سکول نہیں بھیجا کرتے، گمنام شدت پسندوں کی ڈر سے بہت سارے خاندان چھوٹے شہروں سے بڑے شہروں میں منتقل ہوئے، پنجگور میں روز،روز کی دھمکیوں سے تنگ ہزاروں شہریوں نے احتجاجی مظاہرے کئے، کیچ میں بھی مظاہرے ہوئے،مقامی انتظامیہ کے دفاتر کے سامنے دھرنے بھی دیئے گئے، کئی سالوں بعد جب دھمکیوں کے اثرات کم ہوئے تو والدین نے دوبارہ اپنے بچیوں کو سکول بھیجنا شروع کردیا،دھمکیوں کا رجحان کم ہونے کے بعد ایک اور رجحان کو پروان چڑھا یاگیا،حجام کے دکانوں کو خلاف شریعت داڑھی بنانے سے منع کیا گیا،یعنی داڑھی کی تراش خراش،شیو کرنے سے منع کیا گیا، خواتین پر بازاروں میں خریداری کیلئے پابندی کا کہا گیا، گویا کہ آدھے بلوچستان میں زبردستی طالبان نظام حکومت لاگو کرنے کی کوشش کی گئی،آہستہ آہستہ
دھمکیوں کی اثرات زائل ہوتے گئے خوف کا ماحول زرا سا تھم گیا،اسکے بعد نظام زندگی میں بہتری آنا شروع ہوئی، اب ایک بار پھر معاشرے میں خوف کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، گزشتہ روز سردار اختر مینگل کے آبائی راجدانی وڈھ میں ایک ہندو نوجوان کو قتل کیا گیا، قتل کی وجہ بھتہ نہ دینے کا کہا جارہا ہے، اشوک کمار نام کے اس نوجوان کی اپنا کوئی کاروبار نہ تھابلکہ وڈھ شہر میں اپنے کسی قریبی رشتہ دار کی پرچون کی دکان پر بطور ملازم کام کیا کرتا تھا، ممکن ہے یہ قتل اس لئے کیا گیا تاکہ وڈھ یا ضلع خضدار کے ہندو تاجروں کو کو کوئی پیغام دینا مقصود ہو، لیکن اچھنبے کی بات یہ ہے کہ ہندو نوجوان کے قتل کے دن ہی وڈھ بازار میں کسی غیر معروف، گمنام تنظیم,, کاروان سیف اللہ،، نامی تنظیم کی جانب سے ایک پمفلٹ تقسیم کیا گیا، اس
تنظیم کا نام پہلی بار سننے کو مل رہا ہے،پمفلٹ کے متن میں مقامی تاجروں اور ہندو تاجروں کو تنبیہ کیا گیا ہے کہ وہ خواتین کوبازاروں میں آنے نہ دیں،بلکہ مقامی لوگوں کو بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنی خواتین کو بازار جانے کی اجازت نہ دیں،اور ساتھ میں نہ صرف تاجروں کو بلکہ مقامی آابا دی کو بھی برے نتائج کی دھمکی دی گئی ہے، پمفلٹ کی عبارت ہاتھ سے لگھی گئی ہے جس میں کوئی ردھم نہیں پایا جاتا ہے، عبارت پڑھنے سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ کسی پڑھے لکھے شخص کی لکھائی نہیں ہے بلکہ اسے جس نے بھی لکھا ہے اسکی تعلیم واجبی سی ہے،رائٹنگ سے یہ بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کسی مدرسے کا پڑھا ہواہوگا، علاقے میں ایک عمومی رائے یہ بھی ہے کہ یہ پمفلٹ ہندو نوجوان کے قتل کا رخ موڑنے کیلئے تقسیم کیا گیا تاکہ اگر کوئی تحقیقات ہو بھی جائے اسے ڈائیورٹ کیا جاسکے، ہندو نوجوان کے قتل اور پمفلٹ کی تقسیم کے بعد ہندو برادری میں ڈر کا ماحول پیدا ہوا ہے،مقامی آبادی بھی خوف زدہ ہوگئی ہے، ہندو تاجر کے قتل کا وقعہ رونما ہونے کے بعد سردار اختر مینگل نے بیرون ملک سے علاقے کے میر و معتبرین کے نام ایک آڈیوپیغام جاری کیا تھا جس میں، سردار صاحب نے اپنے علاقے کے میروں کو ہندو تاجر قتل کے بعد خاموشی اختیار کرنے پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔۔۔۔
عمومی طورپر بلوچستان کے دیہی علاقوں میں خواتین بازار نہیں جایا کرتیں،خواتین اس وقت گھروں سے باہر نکلتی ہیں جب انہیں کسی رشتہ دار کے گھر جانے کی ضرورت ہو یا کسی بیماری کے علاج کیلئے ہسپتال جانے کا اتفاق ہو، جب کہ اسکے بر عکس دیہی خوتین بازروں کی بجائے کھیتی باڑی کیلئے زیادہ گھروں سے نکلتی ہیں،اس پمفلٹ کے پس پردہ مقاصد خواہ کچھ بھی ہوں لیکن یہ ضرور ہے کہ معاشرے کو ایسے حرکات سے مزہبی شدت پسندی کی جانب سلو پوائزن (Slow Poison) دینے کی کوشش کی جارہی ہے،عموما ہمارے مزہبی حلقے کی اکثریت خواتین کے باہر جانے کے سخت مخالف ہیں،معاشرے کا ایک قلیل طبقہ ایسے گھناؤنی حرکات کواچھی نظر سے دیکھتے ہیں، بلکہ بسا اوقات اسکی حمایت بھی کرتے ہیں، ممبر و محراب بھی ایسے شدت پسندی کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں، لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ ایسے معاملات کو معاشرے کی اکثریت معمومی واقعہ سمجھ کر اسے اہمیت نہیں دیتے جس کی وجہ سے بظاہر معمولی واقعات بڑے سانحات میں بدل جاتے ہیں،ریاستی مشینری کا حال معاشرے سے بھی برا ہے،یہ مان بھی لیا جائے کہ وڈھ میں تقسیم کیا جانے والا پمفلٹ کسی منظم گروہ کی کارستانی نہیں بلکہ یہ ایک فرد کی شرارت ہے تب بھی ریاست کو اپنی پوری زمہ داری نبھانی چاہئے، معاملے کی تہہ تک جاکر اصل کردار کے چہرے سے پردہ نوچنا چاہئے تاکہ علاقے میں پایا جانے والا خوف و ہراس زائل ہوسکے،بلوچستان کی 20سال کی شورش میں خضدار سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہروں میں شامل ہے،کسی دور میں میں خضدر کو بلوچستان کا دوسرا بڑا شہرمانا جاتا تھا، اس شہر میں صحافی، ڈاکٹر، وکیل، تاجر، غرض ہر طبقہ فکر کے لوگ معمولی اختلافات کی وجہ سے مار دیئے، 2015کے بعد اس شہر کی رونقیں بحال ہونا شروع ہوئیں، لوگ طویل گھٹن زدہ ماحول سے آہستہ آہستہ نکلنے کی کوشش کرر ہے ہیں لیکن وڈھ کے حالیہ معاملے نے ایک بار پھر لوگوں کو ماضی کے خوف میں مبتلا کردیا ہے،خوف کے اس ماحول کو رفع کرنے کیلئے بلوچستان حکومت کوسنجیدہ ہونا ہوگا،

اپنا تبصرہ بھیجیں