امام کا انکار‘ ڈاکٹر نے کورونا مریض کا جنازہ پڑھایا

پشاور،کورونا وائرس کے خلاف فرنٹ لائن پر موجود ڈاکٹر جہاں اس کڑے وقت میں لوگوں کو طبی امداد فراہم کر رہے ہیں وہاں کچھ ڈاکٹر انسانیت کی خدمت میں چار قدم آگے نظر آتے ہیں۔ ایسے ہی ایک ڈاکٹر نے کورونا وائرس سے انتقال کر جانے والے ایک بزرگ کی میت کو غسل دیا اور خود نماز جنازہ بھی پڑھائی۔خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ کی تحصیل بشام میں تعینات ڈاکٹر حافظ ثنا اللہ ان دنوں سرکاری ہسپتال میں کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے علاج پر معمور ہیں۔سوشل میڈیا پر ایک تصویر ایسی نظر آئی جس میں کورونا وائرس سے حفاظت کا لباس اور دیگر تمام احتیاطی تدابیر کے ساتھ ایک شخص کا نماز جنازہ پڑھایا جا رہا ہے۔ نماز جنازہ کی قیادت کرنے والے ڈاکٹر حافظ ثنا اللہ ہیں۔ڈاکٹرحافظ ثنا اللہ نے بتایا کہ کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والا شخص دور دراز علاقے سے آیا تھا۔ انھوں نے ایک مقامی عالم سے رابطہ کیا کہ تو انھوں نے کہا کہ ایسے حالات میں انھیں خوف آتا ہے اور وہ اس معاملے میں نہیں پڑنا چاہتے۔ڈاکٹر حافظ ثنا اللہ نے بتایا کہ وہ خود حافظ قرآن ہیں اور انھیں معلوم ہے کہ میت کو غسل کیسے دیا جاتا ہے اور نماز جنازہ کیسے پڑھائی جاتی ہے۔ انھوں نے پھر میت کو غسل بھی دیا اور نماز جنازہ بھی پڑھائی جس میں ٹی ایم اے اور ہسپتال کا عملہ شریک ہوا۔ڈاکٹر حافظ ثنا اللہ نے بتایا کہ انھوں نے یونیسف کے زیر انتظام ایک تربیت مکمل کی تھی جس میں انھیں بتایا گیا تھا کہ ایسے شخص کو غسل کیسے دیا جا سکتا ہے اور وہ تمام احتیاطی تدابیر انھوں نے اختیار کی تھیں۔حافظ ثنا اللہ نے یہ بھی بتایا کہ انھوں نے غسل دینے کے بعد میت کو پلاسٹک میں بند کر کے کفن چڑھایا اور پھر میت کو تابوت میں رکھا۔انھوں نے بتایا کہ نماز جنازہ کے بعد میت کو قبر میں اتارنے تک کا کام بھی انھوں نے خود سرانجام دیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ سب انھوں نے اللہ کی رضا کے لیے کیا ہے۔شانگلہ میں اب تک کورونا وائرس کے شبے میں بہت سے مریض آئے ہیں لیکن اب تک پانچ افراد کے ٹیسٹ مثبت آئے ہیں جن میں سے ایک صحت یاب ہو چکا ہے اور باقی ابھی آئسولیشن وارڈ میں ہے۔ڈاکٹر حافظ ثنا اللہ نے بتایا کہ ان کے پاس تمام حفاظتی اشیا موجود ہیں جو ایسے مریضوں کے علاج کے لیے ضرورت ہوتی ہیں اور آج بھی انھوں نے متعدد مریضوں کے نمونے لیے ہیں۔مردان کے میڈیکل افسر ڈاکٹر ضیا الرحمان بغیر مکمل حفاظتی انتظامات کے کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرتے کرتے خود اس وائرس کا شکار ہو گئے ہیں۔انھوں نے طبی عملے کے لیے حفاظتی سامان کا مطالبہ بھی کیا تھا جس پر انھیں شو کاز نوٹس جاری ہوا۔ڈاکٹر ضیا الرحمان کو جب تک شوکاز نوٹس ملا اس وقت تک انھیں کورونا وائرس ہو چکا تھا اور ان کا ٹیسٹ بھی مثبت آچکا تھا۔ڈاکٹر ضیا الرحمان نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ مردان میں ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے پیٹرن ہیں اور اس لیے انھوں نے پہلے حکام کو درخواست دی کہ طبی عملے کو حفاظتی سامان فراہم کیا جائے اور جب اس پر عملدرآمد نہیں ہوا تو انھوں نے سوشل میڈیا پر اپنا مؤقف پیش کیا جسے کچھ چینلز نے نشر بھی کیا ہے۔ڈاکٹر ضیا الرحمان چند روز سے آئسولیشن وارڈ میں ہیں جہاں ان کے بقول ان کی صحت میں بہتری آ رہی ہے۔خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے طبی عملے کے لیے سامان فراہم کیا جا رہا ہے لیکن اب بھی ایسے اضلاع ہیں جہاں طبی عملے کے پاس مکمل حفاظتی سامان میسر نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں