دنیا کی بری خبریں‘بلوچستان کے میڈیاہاؤس

تحریر: انور ساجدی
مسلمانوں کی مقدس ترین سرزمین حجاز سے تشویشناک خبریں آرہی ہیں ضعیف العمر فرمان روا شاہ سلمان اور ولی عہد محمد دوردراز جزیروں میں چھپ گئے ہیں ملک کے تمام بڑے مقامات پر کرفیو لاگو ہے جبکہ300شہزادے کرونا میں مبتلا ہوگئے ہیں ریاض کے گورنر ترکی الفیصل شدید علیل ہیں اگرچہ سعودی حکومت نے پاکستان کی طرح کم اعدادوشمار بتائے ہیں لیکن ہزاروں لوگ کرونا کی گرفت میں آگئے ہیں مکہ اور مدینہ کے مقدس شہر بند ہیں باجماعت نمازوں پرپابندی ہے اور خدشہ ہے کہ رمضان شریف کے دوران بھی باجماعت نمازوں پر پابندی برقرار رہے گی چونکہ سعودی عرب ایک بندملک ہے جس کی معلومات پوشیدہ ہیں لیکن لگتا ہے کہ وہاں پر اسپتالوں اورصحت کی سہولتوں کاوہی حال ہے جو باقی اسلامی ممالک میں ہے اچھے وقتوں میں شہزادے اپنے طیاروں میں بیٹھ کر علاج اور سیاحت کیلئے یورپ اور امریکہ جایا کرتے تھے اس لئے انہوں نے اپنے وہاں اچھے اسپتالوں اور غریب رعایا کی صحت کیلئے اچھی سہولتوں کابندوبست نہیں کیا اس لئے جب سے کرونا کی وبا آئی ہے سعودی حکمران گھبراگئے ہیں اور وہاں پر ایک افراتفری کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے گزشتہ ماہ روس اورسعودی عرب کی لڑائی نے تیل کی قیمتیں گرادی تھیں لیکن اب مجبور ہوکر شہزادہ محمد نے صدر پوٹن سے سمجھوتہ کرلیا ہے جس کے تحت تیل کی روزانہ پیداوار کم کردی گئی ہے تاکہ قیمتوں میں مناسب اضافہ ہو سعودی عرب پر جو معاشی بوجھ آیا ہے وہ دیگر ممالک سے مختلف ہے کیونکہ وہاں پر تیل کے سوا آمدنی کا ذریعہ نہیں ہے اسکی معیشت کو جوخطرات لاحق ہوگئے ہیں اسکے پیش نظر تمام غیر ملکیوں کو نکالنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ان لوگوں میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد شامل ہے اگر سعودی عرب کی طرح عرب امارات کویت،بحرین اور قطر نے بھی لاکھوں پاکستانی نکالے تو پاکستان تباہ کن صورتحال سے دوچار ہوجائے گا اس وقت تقریباً اوورسیز پاکستانی20ارب ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ بھیجتے ہیں یہ رقم آدھی ہوسکتی ہے کیونکہ ساری دنیا کرونا کی لپیٹ میں ہے ہر ملک سے ترسیل زرمشکل ہوجائے گا صورتحال کی سنگینی کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت پاکستان کے کل زرمبادلہ کے ذخائر 12ارب ڈالر رہ گئے ہیں جبکہ برآمدات بھی انتہائی کم ہونے کا امکان ہے لہٰذا پاکستان کو تمام اخراجات ختم کرکے اپنی آمدنی کے مطابق گزارے کا منصوبہ بنانا پڑے گا اگر مئی تک کرونا ختم نہ ہوا تو کافی عرصہ بعد حج موقوف ہونے کی نوبت آئے گی۔عمران خان کی معاشی ٹیم نے اراکین پارلیمنٹ کو جو بریفنگ دی ہے وہ ہوش ربا ہے اگرچہ حفیظ شیخ کا دعویٰ ہے کہ معیشت کو آخری تنزلی سے بچالیا جائیگا لیکن یہ باتیں قبل از وقت ہیں اس کا دارومدار کرونا کے بڑھنے یا ختم ہونے پر ہے ابھی تک تو وبا پھیلتی جارہی ہے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق متاثرین کی تعداد تقریباً پانچ ہزار سے کچھ کم ہے لیکن ٹیسٹ کہاں ہوئے ہیں اصل صورتحال تو ٹیسٹ ہونے کے بعد ہی سامنے آئیگی امریکہ میں اب تک20لاکھ لوگوں کے ٹیسٹ ہوئے ہیں جن میں سے تقریباً پانچ لاکھ پازیٹو ہیں کل پہلی مرتبہ صدرٹرمپ نے اپنی بے بسی کااظہار کیا ہے ان کا کہنا تھا کہ ساڑھے بتیس کروڑ آبادی کا ٹیسٹ کرنا بہت مشکل ہے پھر بھی کوششیں جاری رکھی جائیں امریکہ میں پاکستان کی طرح گورنروں نے صدر کی تجویز مسترد کرکے ازخود لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا ورنہ اس سے بھی زیادہ تباہی پھیلتی وہاں پر صدر ٹرمپ نے کوئی ٹائیگر فورس نہیں بنائی بلکہ ٹاسک فورس بناکے لاکھوں رضاکار تیار کئے ہیں ان رضاکاروں کاتعلق حکمران جماعت سے نہیں ہے بلکہ اس میں تربیت یافتہ رضاکار شامل ہیں لاک ڈاؤن سے ابتدائی انکار کے بعد وزیراعظم عمران خان آج کل کہہ رہے ہیں کہ ماہ رواں کے آخر تک ہزاروں لوگ گرفت میں آسکتے ہیں انکی کابینہ کے ایک وزیرغلام سرور خان نے کہا ہے کہ 25اپریل تک70ہزار لوگ متاثر ہوسکتے ہیں اور سات سو کے قریب لوگ جان کی بازی ہارسکتے ہیں گزشتہ ہفتہ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ متاثرین کی تعداد50ہزارتک بڑھنے کاامکان ہے دعویٰ کیاجارہا ہے کہ 50ہزار لوگوں کے ٹیسٹ ہوئے ہیں لیکن اس دعوے کاکوئی ثبوت نہیں ہے حکومت نے اسپتالوں کی حالت بہتر بنانے کی بہت کوشش کی ہے قرنطینہ مرکز بھی بنائے ہیں لیکن تعداد کم ہے سہولتیں ناکافی ہیں وزیراعظم کوئٹہ کی صورتحال دیکھنے خود گئے اپوزیشن نے الزام لگایا کہ صوبائی حکومت نے وزیراعظم کو ”ماموں“ بنادیا وہ انہیں بی ایم سی لے گئی جہاں ایک رات میں کرونا کے مریضوں کیلئے آئسولیشن وارڈ آراستہ کیا گیا مختلف جگہوں سے بیڈپکڑ کر رکھے گئے اس الزام کی حکومتی ترجمان لیاقت شاہوانی نے تردید کی ہے ویسے سنا یہ تھا کہ افسر اکثروبیشتر وزیراعظم وزرائے اعلیٰ اور وزراء کوماموں بناتے رہتے ہیں لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ ایک صوبائی حکومت نے ملک کے وزیراعظم کو ہی ماموں بنادیا کوئٹہ جیسے چھوٹے شہر میں اس بات کا کھوج لگانا کونسا مشکل ہے خود احتجاجی ینگ ڈاکٹرز اصل صورتحال بتاسکتے ہیں خدا کرے کہ ماموں بنانے والی بات غلط ثابت ہو ورنہ لیاقت شاہوانی کو اپنی حکومت کے کامیاب دفاع پر داد دی جاسکتی ہے کیونکہ جتنا مشکل کام وہ کررہے ہیں کسی صوبے کا وزیر اورمشیر نہیں کرسکتے۔
پنجاب کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ اگر میڈیا ورکرز کرونا سے متاثر ہوئے تو فی کس ایک لاکھ روپے دیئے جائیں گے موت کی صورت میں 10لاکھ خاندان کو ادا کئے جائیں گے خدا نہ کرے کہ میڈیا ورکرز کرونا کی وجہ سے جان کی بازی ہارجائیں کیونکہ جان کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ہے پھربھی پنجاب حکومت نے احساس کیا اسکی مہربانی ہے لیکن بلوچستان میں تمام میڈیا ورکرز اور میڈیا ہاؤس اللہ کے سہارے پر زندہ ہیں جب سے یہ حکومت آئی ہے میڈیا ورکرز کی اہمیت تو کجا اس شعبہ سے وابستہ لوگوں کو انسان بھی تسلیم نہیں کیاجارہا ہے پنجاب حکومت نے تو میڈیا ہاؤسز کے واجبات بھی فوری طور پر ادا کرنے کا حکم دیا ہے لیکن بلوچستان حکومت کو اس بارے میں سوچنے کی فرصت ہی نہیں ہے جس کی وجہ سے میڈیا ہاؤسز اور ورکرز بہت بری حالت سے دوچار ہیں وہ لاج کے مارے یہ بھی نہیں بتاسکتے کہ دیہاڑی دارمزدوروں کی طرح انکے گھروں میں بھی فاقے ہیں سفید پوشی کا بھرم رکھنے کیلئے وہ امداد اور راشن کیلئے بھی حکومتوں سے رجوع نہیں کرسکتے اگر صوبائی حکومت مہربانی کرکے میڈیاکا قصور بتائے تو وہ اپنی موجودہ خاموشی کو مزید طول دیں گے اور اپنے لب حب منشا سی کر رکھیں گے حالانکہ بلوچستان کے میڈیا کا دیگر صوبوں کے میڈیا سے مقابلہ کیاجائے تو کوئی مقابلہ بنتا ہی نہیں ہے بلوچتان میں حکومتی نکتہ نظر کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے جبکہ کراچی،لاہور اور اسلام آباد میں میڈیا نے حکومتوں کا جینا دوبھر کردیا ہے اتنے شریف اور مسکین لوگوں کے ساتھ حکومت بلوچستان کا بے رحمانہ رویہ سمجھ سے بالاتر ہے اس حکومت سے کوئی مطالبہ کرنا تو بے سود ہے البتہ اسے مشورہ ہے کہ وہ پنجاب حکومت کی طرح میڈیا ہاؤسز اور ورکرز کیلئے خصوصی پیکیج کااعلان کرے تاکہ ورکرز کو تنخواہوں کی ادائیگی کی جاسکے میڈیا ورکرز بھی جان خطرے میں ڈال کر عوام کو آگاہی دینے کی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں انہیں نامساعد حالات میں بھی کرونا کا ڈر نہیں ہے اور وہ دن رات اپنے فرائض نہایت دلیری کے ساتھ ادا کررہے ہیں بجائے کہ انکی خدمات کو سراہا جائے ان کا احساس تک نہیں کیاجارہا۔
حکومت بلوچستان کوایک بات سمجھنا چاہئے کہ جس طرح کرونا کی قدرتی آفت کی وجہ سے ہر صوبہ اور ہر علاقہ اپنے ہاں تک محدود ہوگیا ہے یہ سلسلہ کرونا کے بعد بھی جاری رہے گا بعد میں بھی ہرایک اپنی فکر کرے گا لہٰذا صوبائی حکومت ”غیر نوازی“ کی پالیسی ترک کردے کیونکہ جو بلوچستان کامیڈیا ہے وہی اپنے عوام کی خدمت کرے گا بے شک باہر کا میڈیا بااثر اورپاورفل ہے لیکن وہ بلوچستان کیلئے کسی کام کا نہیں ہے یہ جو ابتک صوبے کے وسائل ان پر لٹایاجاتارہا ہے وہ بے کارثابت ہوا۔
یادرکھنا چاہئے کہ اہل بلوچستان کیلئے بلوچستان اہم ہے باقی صوبے اچھے خوبصورت اور خوشحال کیوں نہ ہوں انکے کام تو بلوچستان آئیگا جام صاحب جتنے قابل کیوں نہ ہو کوئی اور صوبہ تو انہیں اپنا وزیراعلیٰ نہیں بنائے گا اگر لیاقت شاہوانی سریاب کی بجائے گلبرگ اور جوہر ٹاؤن لاہور جائیں تو کون انکی پذیرائی کرے گا،لہٰذا بلوچستان اور اسکے اداروں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے یہ ”دردوستی“ کام نہیں آئیگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں