سی بی اے کے زیر اہتمام کسیکو آفس کوئٹہ میں نجکاری کیخلاف احتجاجی جلسہ

کوئٹہ:آل پاکستان واپڈا ہائیڈرو الیکٹرک ورکرز یونین(سی بی اے) کے زیر اہتمام پورے ملک اور صوبے کی طرح چیف ایگزیکٹو آفس کوئٹہ میں بھی نجکاری کو روکنے، کارکنوں کی جان کی حفاظت اوردیگر مطالبات کے حق میں جلسہ منعقد ہوا۔جلسے سے یونین کے صوبائی چیئرمین محمد رمضان اچکزئی، وائس چیئرمین عبدالباقی لہڑی، جوائنٹ سیکریٹری محمد یار علیزئی، محمد حیات بلوچ، جہانگیر شاہ، عبدالسلام، سید اکبر شاہ، ذوالفقار محمد شہی، اعجاز احمد،نقیب اللہ اور دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے منشور میں کہا گیا تھا کہ واپڈا اور پاور سیکٹرکی نجکاری کے بجائے اس میں اصلاحات لاکر منافع بخش بنایا جائے گالیکن افسوس ہے کہ انہوں نے حکومت میں آنے کے بعد ندیم بابر، تابش گوہر اور رزاق داؤد جیسے مفاد پرست افراد کو معاون خصوصی اور مشیر لگا کر واپڈا اور پاور سیکٹر کو مزید تباہی کی طرف دھکیل دیا ہے اور پاور سیکٹرمیں سیاسی اور نان پروفیشنل بورڈ آف ڈائریکٹرز تعینات کرکے انھیں سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ1958ء میں جب واپڈا کے مستعد ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا تو ملک میں بڑے بڑے ڈیمز، بڑے بڑے پاور ہاؤسز، گرڈاسٹیشنز اورٹرانسمیشن لائنز بناکرصارفین کو 24 گھنٹے سستی بجلی مہیا ہو رہی تھی لیکن 1994ء میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی ڈکٹیشن قبول کرتے ہوئے واپڈا کے منظم ادارے کو چھوٹی چھوٹی کمپنیوں میں تقسیم کرکے اور اس میں بڑی بڑی منیجمنٹ تعینات کرکے ادارے کے اخراجات کوبڑھایا گیا اور ادارے کو سیاسی طور پر استعمال کرکے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے خسارے میں اضافہ کیا گیا، بجلی مہنگی کی گئی اور لوڈ شیڈنگ میں 12 سے 16 گھنٹے تک اضافہ ہوا جس کی وجہ سے ملک میں کارخانے، صنعتیں، زراعت اور تجارت کی ترقی متاثر ہوئیں۔ مقررین نے کہا کہ متحدہ روس جب زوال پذیر ہوا تو اس کے پاس بڑی فوج،ایٹم بم، نائٹروجن بم، میزائل اور ہوائی جہازموجود تھے لیکن اس کو بد انتظامی، نااہلیت پر مبنی فیصلوں اور خراب معیشت نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا کسی ملک کی معاشی ترقی میں تیزی اور بہتری اس کی سلامتی کی ضامن ہے۔ اس وقت آئی ایم ایف،ورلڈ بنک اور ملک کے بین الاقوامی آقا جانتے ہیں کہ اس ملک کو لڑائی سے شکست نہیں دی جاسکتی اس لئے اس کے معاشی شہرگ پاور سیکٹر کو تباہ کرکے ملک میں معاشی ترقی کا پہیہ جام کیا جائے یہی وجہ ہے کہ یونین نے بارہا حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ پاور کمپنیوں کو تحلیل کرکے واپڈا کو تمام کمپنیوں کا چارج دیا جائے واپڈا اتھارٹی جو منظم طریقے سے کام کرتی ہیں وہ اس پاور سیکٹرکے معاملات کو بہتر بنا کر ملک کو تباہی سے بچانے میں اپنا کر دار ادا کر سکتی ہے۔ مقررین نے کہا کہ یونین نجکاری کے خلاف جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کررہی ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کیسکو سمیت پاور سیکٹر کی تمام کمپنیوں میں آفیسرز ایسوسی ایشن کے نمائندے اور موجودہ عارضی چیف ایگزیکٹوز خود پرائیویٹ چیف ایگزیکٹو کیلئے C.V جمع کرا کر نجکاری کی حمایت کرتے ہیں جو کہ مفاد پرستی کا ثبوت ہے۔انہوں نے کہا کہ موجودہ عارضی چیف ایگزیکٹو آفیسر کیسکوچیف انجینئر کے عہدے پر کیسکو میں ڈسلوکیشن کی پالیسی کے تحت بھیجے گئے تھے اور بعد میں انھیں جنرل منیجر بنا کر کیسکو کا عارضی چارج اس بناء پر دیا گیا تھا کہ انہوں نے اس وقت کے پاور سیکریٹری کو بتایا تھا کہ وہ بلوچستان اور کوئٹہ سے ایف ایس سی کرچکے ہیں اور وہ یہیں کے ڈومیسائل بھی رہے ہیں جب انھیں کوئٹہ بھیجا گیا تو وہ ڈسلوکیشن نہیں ہوئے تھے بلکہ اپنے گھر پہنچ گئے تھے لیکن انہوں نے کوئٹہ آکر نہ صرف ڈسلوکیشن کی مد میں دو،دو تنخواہوں سمیت دیگر مراعات سے مستفید ہوئے بلکہ بعد ازاں تیسری تنخواہ عارضی چیف ایگزیکٹو آفیسر کے چارج کی بھی لی وہ جب کوئٹہ آئے اور کیسکو کا چارج لیا تو اس وقت کیسکو کے 262 ارب روپے صارفین کے ذمے واجب الادا تھے اور ان کے ہوتے ہوئے یہ قرضے 404 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں ان کی بد انتظامی سے متعلق بہت سی مثالیں ہیں جس میں سے ایک یہ ہے کہ وہ سینئر منیجمنٹ اور مزدوروں کی سرپرستی کرنے کے بجائے 07 ایکسینز پر مشتمل ایک گروپ کی سرپرستی کرکے تبادلوں اور دوسرے انتظامی فیصلوں میں میرٹ کی دھجیاں اڑا رہے ہیں اور ان کے دور میں کرپشن عروج پر ہے جس کی کی وجہ سے ایماندار آفیسرز اور انجینئرز دلبرداشتہ ہو کر کام کر رہے ہیں جو کسی بھی صورت کیسکو کیلئے بہتر نہیں ہے۔مقررین نے کہا کہ کیسکو میں ساڑھے چھ لاکھ کے قریب قانونی کنزومر زکے ساتھ ساڑھے چھ لاکھ سے زیادہ غیر قانونی کنکشنز بجلی چوری کے چل رہے ہیں لیکن موجودہ بورڈ آف ڈائریکٹراور انتظامیہ اس پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں بلکہ کیسکو کی انتظامیہ سیاستدانوں اور طاقتوروں کے قدموں میں گر کر کیسکو کے مفادات کے بجائے اپنے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔ یونین رہنماؤں نے موجودہ عارضی چیف ایگزیکٹو آفیسر سے مطالبہ کیا کہ ڈسلوکیشن پالیسی کے خاتمے کے بعد وہ کیسکو سے جا کر فیصل آباد میں جنرل منیجر کا چارج سنبھالیں اور کیسکو میں 07 ایڈیشنل چیف انجینئر کی آمد کے بعد کسی ایک کو عارضی چیف ایگزیکٹو آفیسر کا چارج دے کر کیسکو کو مزید تباہی سے بچایا جائے۔ مقررین نے کہا کہ امسال کیسکو کے 04 نوجوان کارکن عبدالمنان پشین، سجاد احمد لورالائی، عبدالحمید نوشکی، محمد اکبر گنداوہ کام کے دوران نااہلی اور غیر ذمہ داری سے قتل کیے گئے ہیں اور یونین نے مطالبہ کیا ہے کہ بورڈ آف ڈائریکٹرز،اعلیٰ انتظامی آفیسر اور یونین نمائندے پر مشتمل ایک غیر جانبدار انکوائری کمیٹی قائم کرکے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے، اس وقت مزدوروں میں اشتعال پایا جاتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان چار مزدوروں کا قاتل عارضی چیف ایگزیکٹو آفیسر ہے جو ذمہ داروں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ مقررین نے کہا کہ اس وقت چیف ایگزیکٹو آفس میں آئے روز کسی دفتر میں فرش توڑنے، دوبارہ لگانے، صوفے بدلنے، وال پیپرز اورٹیبل بدلنے کے ساتھ ساتھ پورے آفس کو بحریہ ٹاؤن بنا دیا گیا ہے اب اس میں صرف گدھے، گھوڑے، ہاتھی اور گائے کے مجسمے اور کچھ کیسکو کو تباہ کرنے والے آفیسرز کے مجسمے لگانا باقی ہیں تاکہ کیسکو کو تباہ کرنے والوں کو یاد رکھا جاسکے جبکہ نچلے دفاتر میں کرسی، ٹیبل، پینے کا پانی، صارفین کیلئے بیٹھنے کی جگہ تک مہیا نہیں ہے، کیسکو میں ناقص میٹریل کی خریداری سے مزدوروں کی جانوں کو خطرات لاحق ہیں۔مقررین نے حکومت سے پر زور مطالبہ کیا کہ پاور سیکٹر کے معاملات کو بہتر بنانے کیلئے کمپنیوں کو تحلیل کرکے واپڈا کے سپردکیا جائے، خالی آسامیوں پر بھرتیاں کی جائیں، 40 غیر قانونی بھرتی کیے گئے آفیسروں کی نیب یا ایف آئی اے سے انکوائری کروا کر قانونی کارروائی کی جائے، عدالتی فیصلوں کے مطابق ایمپلائز سن کوٹے پر فوری طور پر عملدرآمد کیا جائے، تمام کٹیگریز کے ملازمین کو پروموشن اور اپ گریڈ ایشن دی جائے،ڈپلومہ ہولڈر LM-I،LM-II،ALM اور SSA اورASSA کے ڈپلومہ ہولڈر کے پروموشن فوری طور پر کرنے کا بندوبست کیا جائے، کارکنوں کیلئے کالونیوں میں فلیٹس اورمکان تعمیرکیے جائیں، جہاں دفاتر نہیں وہاں دفاتر تعمیر کیے جائیں، جون کے بجٹ میں 10% تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کو فوری طور پر منظوری کرکے تنخواہوں میں شامل کیا جائے، ٹرانسفارمر کے جلنے پر لائن سپرنٹنڈنٹ کو شوکاز دینے کے بجائے غیر معیاری ٹرانسفارمرز خریدنے اوربنانے والوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے، تمام ملازمین کے بقایا جات کی فوری ادائیگی کی جائے، اسٹاف کو ٹی اینڈ پی اور بکٹ گاڑیاں دینے کا بندوبست کیا جائے، شیخ ماندہ پاور ہاؤس کو چلایا جائے اور اس کے 32 ملازمین کو ملازمت کا تحفظ دیا جائے،اسی طرح جینکو ز سے سرپلس کیے گئے 1700 سے اوپر ملازمین کی ملازمتوں کو تحفظ دیا جائے، پاور ہاؤسز کو اونے پونے بیچنے کے بجائے ان کو واپڈا کے قابل انجینئرز کے ذریعے چلا کر ملک میں سستی بجلی پیدا کرنے کا بندوبست کیا جائے۔مقررین نے کہا کہ تمام فیصلے قانون اور رولز کے مطابق میرٹ پر کرتے ہوئے ادارے کو نجکاری سے بچایا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں