گینگ ریپ

انور ساجدی
صدرعارف علوی بظاہر ایک مہذب انسان ہیں لیکن بجلی پیدا کرنے والی پرائیویٹ کمپنیوں کے گھپلوں کاذکر کرتے ہوئے وہ صبر کادامن چھوڑبیٹھے اور کہا کہ وزیراعظم سے ملاقات کے دوران انہوں نے کہا کہ اگر گھپلوں کی رپورٹ صحیح ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مافیا نے ملک کے ساتھ ریپ نہیں گینگ ریپ کیا ہے صدرصاحب نے یہ نہیں بتایا کہ جواب میں وزیراعظم نے کہاکہ البتہ وزیراعظم نے ایک کمیشن بنانے کااعلان کیا ہے جس کی سفارشات آنے پرفرانزک آڈٹ ہوگا جس کے بعد ممکنہ طور پر ذمہ دارسیٹھ صاحب کیخلاف کوئی کارروائی ہوگی کیاکارروائی ہوگی یہ کوئی نہیں جانتا کیا بعید کے حکومت اپنے ہی سرکردہ شخصیات کا نام دے کر معاملہ نیب کے سپرد کردے تاکہ نیب تاخیری حربے استعمال کرکے ان اصحاب کو چھوٹ دیدے۔
آئی پی پی ایز پرائیویٹ پاور پروڈیوسرزبے نظیربھٹو کی پہلی حکومت کے دور میں آئے اس وقت بجلی کی شدید قلت تھی اور واپڈا اس پوزیشن میں نہیں تھی کہ وہ مستقبل کی ضروریات کوپوری کرسکے چنانچہ وزیراعظم نے متعدد پرائیویٹ کمپنیوں کو اپنے پلانٹ لگانے کی اجازت دیدی اس وقت کا سب سے بڑا پلانٹ حبکو پاور تھا جو گڈانی کے مقام پر قائم کیا گیا یہ پلانٹ دوہاتھوں میں بک کراب ملک کے سب سے بڑے سرمایہ دار گروپ کے ہاتھ میں آگیا ہے جب یہ معاملہ ہواتو میاں نوازشریف اپوزیشن لیڈر تھے انہوں نے شور مچایا کہ ان کمپنیوں سے بھاری رشوت لیکر مہنگی بجلی خریدنے کے معاہدات کئے گئے ہیں اس زمانے میں نوازشریف کا اعتراض سچ تھا لیکن بینظیرحکومت کے خاتمہ کے بعد میاں صاحب نے دیکھا کہ آسان پیسہ کمانے کاواحد ذریعہ یہی سیکٹر ہے چنانچہ انہوں نے کئی نئی پارٹیوں کواجازت نامے جاری کردیئے یوں یہ سیکٹر لوٹ مار کاایک دیوبن گیا اوپر سے واپڈا بھی ان سے مل گئی یہ جتنی بجلی پیدا کرتے تھے واپڈا کے افسران بالا یہ چیک نہیں کرتے تھے کہ ان کا دعویٰ کس حد تک سچ ہے اور بل منظور کرتے تھے میاں صاحب نے اپنے آخری دور میں کارخانوں کی منظوری دی جن میں کوئلہ سے چلنے والے پلانٹ بھی شامل تھے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت بہت قرض دار ہوگئی آخرکار حکومت نے قرضہ اتارنے کیلئے چارکھرب80ارب روپے کی رقم جاری کردی لیکن آج تک اس کا آڈٹ نہیں ہوا میاں صاحب نے ایک ستم یہ ڈھایا کہ شوگرمافیا کو بھی بجلی پیدا کرنے کی اجازت دیدی یہ استعمال شدہ گنا جلاکر بجلی پیدا کرنے لگے پتہ نہیں یہ بجلی پیدا بھی کرتے تھے کہ نہیں اس فیصلہ سے جن لوگوں کو فائدہ ہوا ان میں نکے میاں صاحب کے علاوہ جہانگیرترین انکے چچازاد بھائی ہارون برادران خسروبختیار میاں صاحب کے سمدھی چوہدری منیرمخدوم احمد محمود اور دیگرشامل تھے 10سال کے عرصہ میں ان سب نے مل کر قومی خزانہ کو پانچ کھرب روپے کاچونا لگادیا چینی سے کمائی الگ اور بجلی کی کمائی الگ کچھ عرصہ قبل آئی پی پی ایز نے حکومت کودھمکی دی کہ اگر انکے واجبات ادا نہیں کئے گئے تووہ پیداواربند کردیں گے اس پر حکومت نے ایف آئی اے کو انکوائری کاحکم دیا جس کی رپورٹ حال ہی میں صدر اور وزیراعظم کو پیش کی گئی جبکہ آٹا اور چینی کے گھپلوں کی رپورٹ اس سے پہلے پیش کی گئی تھی دونوں رپورٹوں میں کئی نام مشترک ہیں اگروزیراعظم نے دونوں اسکینڈلوں کے ذمہ دار افراد کیخلاف کارروائی کی اور پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی لوٹ مار کے مرتکب افراد کو نشان عبرت بنایا تو یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہوگا اگرانہوں نے لیت ولعل سے کام لیا یامعاملہ کو نیب کے سردخانے میں ڈال دیا تو یہی سمجھا جائیگا کہ دال میں کچھ نہیں بہت کچھ کالا ہے اگراپوزیشن کرونا زدہ نہ ہوتی یا نیب کی کارروائیوں سے نہ ڈرتی تو آسمان سرپراٹھاسکتی تھی لیکن بوجوہ ساری اپوزیشن غیرموثر ہوگئی ہے کرونا کی آڑ لیکر حکومت قومی اسمبلی اور سینیٹ کا اجلاس بلانے سے بھی گریزاں ہے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری اس وقت اپوزیشن کا یہ حال ہے کہ بلاول کے سوا سارے لیڈران کرام قرنطینہ میں چلے گئے ہیں انہیں کرونا لگنے کا خوف ہے کیونکہ بیشتر رہنما60سے اوپر کے ہیں اور لگتا ہے کہ جب تک کرونا جان نہیں چھوڑتی اپوزیشن غیر فعال رہے گی ہونا یہ چاہئے تھا کہ چینی،آٹا اوربجلی گھپلوں کی رپورٹوں پراپوزیشن اپناالگ ہوم ورک کرتی اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ان رپورٹوں کوطلب کرکے متعلقہ محکموں سے جواب طلب کرتی لیکن رانا تنویر صاحب غائب ہیں اور اپنے گھر کے کسی گوشہ میں چھپے ہوئے ہیں میاں شہبازشریف بیماری اور حکومت دونوں سے خوفزدہ ہیں انہوں نے نیب کی پیشی سے استثنیٰ کیلئے خط لکھا کہ وہ کینسر کے مریض ہیں اس لئے انکی قوت مدافعت کم ہے اس لئے وہ پیش نہیں ہوسکتے انہوں نے اپنی عمر بھی69سال بتائی ہے معلوم نہیں کہ معلوم شہبازشریف کیا سوچ کر لندن سے پاکستان آئے تھے یہاں پر انکا کوئی کردار باقی نہیں رہا وہ نام کے اپوزیشن لیڈر ہیں انہیں جن عناصر نے قومی حکومت کا جھانسہ دے کر بلایا تھا وہ رفوچکر ہوگئے ہیں کیونکہ حکام بالا کی اس دوران دوبارہ ہم آہنگی ہوگئی ہے کرونا اور بھاری امداد کی آس نے انہیں ملادیا ہے وہ بہم ہوکر کام کرنے لگے ہیں عمران خان نے کرونا کے آغاز پر لیڈرشپ کاجو خلا چھوڑا تھا وہ حکام بالا نے خود پرکردیا جس کے نتیجے میں اپوزیشن کا کردار مزید محدود ہوکر رہ گیا ہے حالانکہ یہ حکومت کو نیچادکھانے کابہترین موقع ہے صدرعلوی کے بقول جن لوگوں نے قوم کی اجتماعی عصمت داری کی ہے وہ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں اگراپوزیشن کرونا کو غلط ڈیل کرنے اور کھربوں روپے کی لوٹ مار کر لیکر مہم چلاتی تو حکومت کودن میں بھی تارے نظرآجاتے لیکن کیاکریں خود اپوزیشن کے پاؤں میں بھی لوٹ مار کی زنجیریں ہیں۔نوازاورشہباز کے بچوں نے بھی اس بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے ہیں جب وہ خود شریک جرم ہیں بھلا وہ کیسے حکومت کونیچا دکھاسکتے ہیں جہاں تک پیپلزپارٹی کا تعلق ہے اسے ایک طرف کرونا کی وبا اور دوسری طرف حکومتی کرونا کا سامنا ہے اومنی گروپ کے سربراہ اور حسین لوائی ابھی تک ضمانت پر چھوٹے نہیں ہیں پوری وفاقی حکومت سندھ پر حملہ آور ہے اس لئے وہ اپنے آپ کو حکومتی غیض وغضب اورکرونا کی تباہ کاریوں سے بچانے کی کوشش کررہی ہے لہٰذا وہ بھی موثر اپوزیشن نہیں کرسکتی جبکہ بلاول نے شروع میں کہا تھا کہ کرونا کے دوران کوئی سیاست نہ کی جائے انہوں نے اسمبلی کے پہلے اجلاس میں وزیراعظم کو سلیکٹڈ کانام دیا تھا لیکن پھر خود ہی انہیں اپناوزیراعظم تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے وزیراعظم کا یہ حال ہے کہ کراچی کے ڈاکٹر لاک ڈاؤن پر زوردے رہے ہیں جبکہ وزیراعظم اور وفاقی وزراء لوگوں کو لاک ڈاؤن توڑنے پر اکسارہے ہیں گورنر کی شہ پر کراچی کے تاجروں نے لاک ڈاؤن توڑ کر دکانیں کھولیں جنہیں صوبائی حکومت نے بند کروادیا یہ کشمکش اوررسہ کشی جاری ہے البتہ کرونا حکومت کیلئے نعمت ثابت ہورہی ہے اس نے ایک طرف اپوزیشن کو دوشانے چت کردیا ہے تو دوسری طرف معیشت کی ڈوبتی نیا کو بھی بچالیا ہے وزیراعظم خود کرونا میں گرفتارساری عالمی برادری سے امداد مانگ رہے ہیں یہ جو صدرٹرمپ سے انکی ٹیلی فون پربات ہوئی ہے اور ٹرمپ نے امداد کا وعدہ کیا ہے لگتا ہے کہ لگے ہاتھوں وزیراعظم نے امریکی صدر سے بھی چندہ مانگ لیا ہے امریکہ اور یورپ میں سینکڑوں پاکستانیوں کی ہلاکت کے باوجود وزیراعظم کی ٹیلی تھون کانفرنس اور اوورسیز پاکستانیوں سے چندہ مانگنا اس بات کی دلیل ہے کہ حالات کچھ بھی ہوں انہیں چندہ مانگنے سے کوئی باز نہیں رکھ سکتا اس سے کہیں بہتر تھا کہ ملک کے جو کھرب پتی سیٹھ صاحبان ہیں وزیراعظم انکو بلاتے اور کہتے کہ آپ لوگ مل کر10کھرب کاچندہ اکٹھا کریں اگر میاں منشا،ملک ریاض،داؤد آدمجی،حبیب گروپ،اے کے ڈی،عارف حبیب،اینگرو یوریا چاہیں تو انکے لئے ایک کھرب دنیا کوئی مشکل کام نہیں ہے لیکن یہ لوگ کسی اور کام کیلئے بھی چندہ دیتے ہیں لہٰذا مستقل ڈونرز کو اتنا تنگ نہیں کیاجاتا تاکہ انکا دست شفت آئندہ بھی دراز رہے۔جنگ اور جیو نے حکومت سے صلح کے بعد خیرسگالی کے طور پر صدر عارف علوی کاانٹرویو کیا لیکن یہ انٹرویو بھی حکومت کیلئے مشکلات کا سبب بنے گا صدرعلوی نے گینگ ریپ کا جوقہرآلود اورغیرمہذب لفظ استعمال کیا ہے اس نے حکومت کو بہت مشکل میں ڈال دیا ہے صدر کے اس بے رحمانہ ریمارکس کے بعد حکومت کیلئے مشکل ہوگا کہ وہ اپنے ساتھیوں کوبچالے اگربچا بھی لیا تو بدنامی ہمیشہ اس کا پیچھا کرے گی جو دھبے لگیں گے وہ کافی برساتوں کے بعد بھی دھل نہیں سکیں گے ویسے صدر سے پوچھا جائے کہ1958ء میں جب ایوب خان نے 1956ء کاآئین منسوخ کرکے مارشل لا لگایا تھا وہ گینگ ریپ نہیں تھا یحییٰ خان نے1969ء میں مارشل لا لگاکر 1962کاجوآئین منسوخ کیا وہ اجتماعی زیادتی نہیں تھی یحییٰ خان کی نااہلی سے ملک دولخت ہواوہ کیا تھا 5جولائی1977ء کو پہلے متفقہ آئین کومنسوخ کرکے پارلیمانی نظام کو بلڈوز کرکے ضیاء الحق نے جو کچھ کیا وہ قوم کی اجتماعی عصمت دری نہیں تھا جنرل پرویز مشرف نے دوبارآئین توڑا اور ابھی تک ہر طرح کی گرفت اور احتساب سے بالاتر ہے اسے کیا نام دیاجائے اگر اس قوم کی مختلف مواقع پر اجتماعی گینگ ریپ نہ ہوتا تو پسماندگی اور زبوں حالی کی آخری سرحد پرایستادہ نہ ہوتا جس ریاست میں اجتماعی زیادتی کوئی بڑاجرم نہ ہو اور اسکے مرتکب افراد ”قانون یاقنون“ کی گرفت سے آزاد ہوں وہ کبھی آگے نہیں جاسکتی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں