ایران جوہری معاہدہ تیار،قیدیوں کی رہائی، افزودگی،نقدرقوم متقدم،تیل کامعاملہ موخر
ویانا:مختلف سفارت کاروں نے کہا ہے کہ عالمی طاقتوں کے ساتھ ایران کے 2015 میں طے شدہ جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے باہمی اقدامات کا لائحہ عمل طے کر لیا گیا اور ابتدا میں ایرانی تیل کی برآمدات پرعاید پابندیوں میں چھوٹ شامل نہیں ہے۔ امریکا اور ایران کو معاہدے کی مکمل تعمیل میں واپس لانے کے لیے مفاہمت طے پانے کے قریب ہے۔ایران، روس، چین، برطانیہ، فرانس، جرمنی، یورپی یونین اور امریکا کے ایلچی معاہدے کے مسودے کی تفصیل پر ابھی بات چیت کر رہے ہیں جبکہ مغربی طاقتوں کی جانب سے بار باریہ انتباہ کیا جارہا ہے کہ اصل معاہدے کے متروک ہونے کم وقت رہ گیا ہے۔ویانا مذاکرات میں شریک مندوبین کا کہنا تھا کہ زیادہ تر متن طے پا گیا ہے لیکن کچھ متنازع مسائل ابھی تک تصفیہ طلب ہیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق اس سمجھوتے کا وسیع تر مقصد ایران کے خلاف پابندیاں اٹھانے کی اصل ڈیل پرواپس آنا ہے۔اس میں ایران کے تیل کی فروخت میں کمی بھی شامل ہے، اس کے بدلے میں اس کی جوہری سرگرمیوں پر پابندیاں عاید کی گئی ہیں۔ان میں اس وقت تک توسیع کی جائے گی جب اسے جوہری بم کے لیے کافی افزودہ یورینیم تیار کرنے کی ضرورت ہوگی۔ایران نے ان میں سے بہت سی پابندیوں کی خلاف ورزی کی ۔اس نے 2018میں اس معاہدے سے امریکی دستبرداری اور پابندیوں کے دوبارہ نفاذ کے جواب میں کئی ایک خلاف ورزیاں کی ہیں جبکہ 2015 کے معاہدے میں یورینیم کی افزودگی کو 3.67 فی صد تک محدود کیا گیا تھا، ایران اب ہتھیاروں کے گریڈ کے قریب 60 فی صد تک یورینیم کو افزودہ ہو رہا ہے۔ایران کا اصرار ہے کہ اس کے مقاصد مکمل طور پر پرامن ہیں اور وہ شہری استعمال کے لیے جوہری ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن مغربی طاقتوں کا کہنا ہے کہ جوہری ہتھیار تیار کیے بغیر کسی اور ریاست نے اتنی اونچی سطح تک یورینیم کو افزودہ نہیں کیا ہے اور امریکا کے واک آﺅٹ کے بعد ایران کی پیش رفت کا مطلب ہے کہ 2015 کا معاہدہ جلد ہی مکمل طور پر کھوکھلا اور بے اثر ہوجائے گا


