سرکاری ٹولے کی جانب سے طلبہ تنظیم اور قیادت کیخلاف ہزرہ سرائی قابل افسوس ہے، بی ایس او

کوئٹہ (انتخاب نیوز) بلوچ اسٹونٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے جامعہ بلوچستان میں ہونے والے واقع پر انتہائی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے میڈیا کو جاری بیان میں کہا ہے کہ اس واقعے کو لے کر کچھ لوگ بلوچ طلباء تنظیم بی ایس او اور قوم پرست پارٹی کی لیڈرشپ کے خلاف ایک پروپیگنڈا مہم چلارہے ہیں جو دراصل جھوٹ پر مبنی ہے۔ ترجمان نے کہا ہے کہ جامعہ بلوچستان میں بی ایس او کی جانب سے بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کی ریلی میں شرکت کرنے کیلئے موبلائزیشن سرکل لگایا تھا اس دوران جامعہ آرٹس فیکلٹی کے سامنے چند لوگوں پر مشتمل ایک گروہ اچانک آکر جمع ہوگیا جو اپنے ہاتھوں میں بی ایس او کے نام کا بینر اٹھائے ہوئے تھے۔ تنظیم کی سینئر قیادت نے معاملات کو دیکھتے ہوئے انتہائی سنجیدگی سے انکو سمجھانے کی کوشش کی اور ان سے درخواست کی گئی کہ تنظیمی نام کو استعمال نہ کریں لیکن اس گروہ نے اچانک سے بی ایس او مردہ باد اور بلوچ قوم پرست قیادت کو مردہ باد کہنا شروع کردیا۔ جب تنظیمی دوست ان سے گفت و شنید کرنے کیلئے گئے تو اس گروہ سے کچھ لوگوں نے اپنے پاس پہلے ہی سے موجود ڈنڈوں سے دوستوں پر حملہ کردیا جس کے بعد دونوں طرف سے کشیدگی چھڑگئی۔ مخصوص گروہ کے لوگوں نے بی ایس او اور بلوچ قیادت کیخلاف نعرہ لگا کر انتہائی ناشائستہ زبان استمعال کرتے ہوئے جامعہ کے سامنے سریاب روڈ کو بلاک کردیا۔ تاہم جامعہ بلوچستان کے معزز اساتذہ اور افسران کے ایک وفد نے تنظیم کے سرکل میں آکر معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی تو بی ایس او، بی ایس او پجار اور پی ایس ایف کے مرکزی رہنماؤں نے وفد کو یقین دلاکر کشیدگی کو ختم کیا۔ اسکے بعد مخصوص گروہ کی جانب سے نہ صرف یونیورسٹی گیٹ بند کرکے تنظیم اور بلوچ لیڈر شپ کیخلاف غیرشائستہ نعروں کا استعمال کیا گیا بلکہ سوشل میڈیا پر بھی منفی پروپیگنڈا کو فروغ دیکر انتہائی نامناسب زبان استعمال کی گئی لیکن بلوچ اساتذہ کے احترام اور روایات کی پاسداری کرتے ہوئے تنظیم کی جانب سے کارکنان کو کسی بھی قسم کے منفی پروپیگنڈے سے دور رہنے کی ہدایت کی گئی۔ ترجمان بی ایس او نے کہا کہ یہ مخصوص ٹولہ جس کا قیام 2018ء میں کچھ بلوچ دشمن عناصر کی سرپرستی میں رکھا گیا جس کا مقصد بلوچ طلباء تنظیموں کے درمیان انتشار کو ہوا دینا، قومی مسائل سے توجہ ہٹا کر نوجوانوں کو سطحی اور طبقاتی مسائل کی طرف راغب کرنا اور بی ایس او کا نام استعمال کرکے تعلیمی اداروں میں غیر سیاسی رویوں کو فروغ دینا تھا۔ تنظیم کی جانب سے متعدد موقعوں پر ان کو نام استعمال کرنے کیلئے نہ صرف سختی سے منع کیا گیا تھا بلکہ تنظیم نے بلوچ قوم کے نام پیغام جاری کرکے ان کے کرتوتوں اور پس پردہ سازشوں سے آگاہ کیا تھا لیکن یہ ٹولہ ہمیشہ تنظیم اور قوم پرستی کی سوچ کے سامنے منفی ہتھکنڈے استعمال کرتا رہا ہے۔ یاد رہے کہ اس گروپ میں شامل لوگوں کی تعداد دو درجن سے بھی کم ہے جبکہ خود کو اس ٹولہ کا چیئرمین کہنے والا شخص ایک سرکاری ملازم ہے جو آئی ٹی یونیورسٹی میں لیکچرر بھی ہے۔ ترجمان بی ایس او نے کہا ہے جب بھی بلوچستان میں کوئی اہم مسئلہ چل رہا ہوتا ہے تو گروہ اس مسئلے سے توجہ ہٹانے کیلئے پہنچ جاتا ہے۔ گزشتہ ہفتے جب ریڈ زون میں لاپتہ افراد کا پروگرام جاری تھا تو ان ہی لوگوں نے جامعہ بلوچستان میں بک اسٹال لگانے کا ڈرامہ رچایا جب انتظامیہ کی جانب سے انکو اجازت نہ دی گئی تو یہ لوگ سریاب روڈ پر کتابیں پھینک کر احتجاج کرتے رہے اور انتہائی حیرانگی ہوئی جب یہ لوگ انتظامیہ کے بجائے بی ایس او اور بلوچ سیاسی قیادت کے خلاف نعرے لگاتے رہے۔ بدھ کے روز جب بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین نے ایک ریلی کا انعقاد کیا تھا اور جامعہ بلوچستان میں اساتذہ سمیت ملازمین و آفیسرز ایسوسی ایشن کا احتجاج جاری تھا تو یہ لوگ واضح ڈائریکشن کے تحت باہر سے نازل ہوئے جن میں سے زیادہ تر جامعہ کے طالبعلم نہیں ہیں۔ آج کے مسئلہ پر اس مخصوص ٹولے نے جسطرح بی ایس او اور بلوچ سیاسی قیادت کیخلاف ہرزہ سرائی کی دراصل یہ انکے آقاؤں کی منشاء تھی۔ ان تمام معاملات میں تنظیم نے خاموشی کو بہتر سمجھ کر انکا جواب نہیں دیا۔ ان چند افراد پر مشتمل سرکاری گروہ کے تمام منصوبوں سے بلوچ طلباء واقف ہیں اور بلوچ طلباء نے ان کو پہلے ہی دن مسترد کردیا ہے۔ لہٰذا ہم اس طرح کے سرکاری گروہ کو بی ایس او کا نام استعمال کرکے بلوچ طلباء میں کنفیوژن پیدا کرنے اور انتشار پھیلانے کی اجازت نہیں دینگے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں