ڈوبتا بلوچستان اور پاکستانی میڈیا

نصیر بلوچ

بلوچستان کا 80 فیصد آبادی سیلاب کی زد میں آچکا ہے لوگ بے گھر ہوچکے ہیں اور کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
یہ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان کا 80 فیصد آبادی اس سیلاب سے متاثر ہوچکا ہے اور وہ بے یار مدد گار پڑے ہیں۔ حکومتی اقدامات متاثرین کو ابھی تک نہیں پہنچ سکے۔ یہ تھی الجزیرہ رپورٹ جبکہ جیو نیوز کی 60 سیکنڈ کی رپورٹ کچھ یوں ہے سندھ اور بلوچستان بھی سیلابی ریلیوں سے بری طرح متاثر ہوچکا ہے حکومت امدادی ٹیمیں متاثرین کی بروقت امداد میں مصروف۔ نہ حقائق واضح ہیں اور نہ ہی رپورٹ بذاتِ خود رپورٹنگ کے لئے متاثرہ علاقوں میں بھیجے گئے ہیں جہاں سے وہ زمینی حقائق دیکھ سکتے بلکل اپنے کیمرے سے وہ حقائق دنیا اور ہمارے بے حس حکمرانوں کو دیکھاتے۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ مناسب ہے کہ کیا ہمارے نام نہاد میڈیا مالکان اور رپورٹرز اس سیلابی بارشوں کے تباہی کے مناظر سوشل میڈیا میں نہیں دیکھتے یا انکے نظروں سے نہیں گزرے ہوں گے؟ یقیناً جواب ہاں میں ہوگا۔
تو پھر کیوں وہ ان حقائق کو سکرین پر نہیں دکھاتے۔ اسے میڈیا کی آزادی کہیں یا پھر میڈیا کی پابندی۔ چلیں اسے کچھ حقائق سے سمجھ لینے کی کوشش کریں گے۔ چند دن پہلے میری پاکستان کے معروف کالم نگار پرویز فتح صاحب سے وٹسپ پر ایک سیرِ حاصل گفتگو ہوئی۔ انہوں نے کہا بلوچستان سے بہت کم لکھاری و صحافی ایسے ہیں جو واقعی بلوچستان کے جینوئن مسائل پر لکھتے ہیں۔ ویسے تو آج کل کوئی بلوچستان کے مسائل پر لکھنے کی زحمت تک نہیں کرتا البتہ بلوچستان کے اپنے باسی بھی۔ میں نے کہا جناب آپکی قلم بھی کبھی ہم پر مہربان نہیں ہوئی ہے۔ ہم چاہ کر بھی بلوچستان کے مسائل پر نہیں لکھ سکتے وہ کیوں سر پوچھ لر بات کو زرا سے گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کی تو پرویز صاحب کا کہنا تھا بلوچستان میں پرویز مشرف کے دور سے میڈیا بلیک شروع ہوا جو اب تک نافذ ہے۔ البتہ مقتدردہ نے موجودہ دور میں میڈیا پر اپنی ہاتھ ڈیلی رکھی ہیں لیکن وہ خوف ابھی تک میڈیا مالکان اور لکھاریوں کے دل میں موجود اس لئے وہ چاہ کر بھی بلوچستان کے مسائل پر لکھنے کی زحمت نہیں کرتے۔ ہمیں تو حقائق بی بی سی سے معلوم ہوتے ہیں کہ بلوچستان میں کیا کچھ ہورہا ہے۔ بہرحال میڈیا کے اسی المیہ سے سقوط ڈھاکہ کی پیش آیا اسکے باوجود بھی انہوں نے ہوش کے ناخن نہیں لئے۔ اگر میڈیا کا رویہ بلوچستان والوں پر اسی طرح برقرار رہا تو اسکے نتائج سنگین ہوسکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں