لوگوں نے اپنے اَبّا کی زمین سمجھ کرعمارتیں بنا دیں، کسی کو نہیں چھوڑیں گے،چیف جسٹس

کرا چی:چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کراچی سے متعلق مختلف معاملات کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ شہر میں لوگوں نے اپنے اَبّا کی زمین سمجھ کرعمارتیں بنا دیں، کسی کو نہیں چھوڑیں گے، سب کے خلاف کارروائی ہوگی۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کراچی میں ٹرانسپورٹ کے مسائل، غیرقانونی قبضہ، تجاوزات، کراچی سرکلر ریلوے (کے سی آر) سمیت مختلف معاملات سے متعلق کیسز کی سماعت کی، اس دوران صوبائی حکومت کے وزیر سعید غنی، میئر کراچی وسیم اختر، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فردوس شمیم نقوی پیش ہوئے۔دوران سماعت اٹارنی جنرل برائے پاکستان، ایڈووکیٹ جنرل سندھ، چیف سیکریٹری سندھ، سیکریٹری ریلوے اور دیگر حکام عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔سماعت کے آغاز پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے گزشتہ سماعت کا حکم پڑھ کر سنایا جبکہ ساتھ ہی انہوں نے کراچی ماس ٹرانسپورٹ پلان کی نقل بھی عدالت میں پیش کی۔انہوں نے بتایا کہ گرین لائن اور اورنج لائن منصوبے مکمل ہوچکے ہیں جبکہ دیگر پر کام ہورہا ہے، ورلڈ بینک اور ایشین ڈیولپمنٹ بینک رقم فراہم کر رہے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ خرچہ کرنا چاہ رہے تھے اور پیسہ بانٹا چاہ رہے تھے۔ساتھ ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جس طرح نقشے دیتے ہیں اس طرح کام بھی ہونا چاہیے، یہ مستقبل کا ٹرانسپورٹ پلان نہیں ہے۔اس پر اے جی سندھ نے کہا کہ ہم پھر یہ منصوبے بند کردیتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ ہماری بات سمجھ نہیں رہے، اس پر پھر اے جی سندھ نے بتایا کہ گرین لائن منصوبے سرجانی ٹاؤن سے شروع ہورہا ہے۔اے جی سندھ کی بات پر بینچ کے رکن جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ جو موجودہ انفرااسٹرکچر ہے اس کو بہتر بنائیں۔سماعت کے دوران حکومتی حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ گرین لائن منصوبہ تین سال پہلے شروع ہوا تھا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 3 سال میں تو پورے ایشیا میں سڑک بن جاتی۔چیف جسٹس نے کہا کہ پیسے ہیں، بندے ہیں، ایک سال میں تمام منصوبے کیوں مکمل نہیں ہوئے؟ ایک سال میں تو اتنی بڑی بڑی سڑکیں بن جاتی ہیں۔اس پر حکام نے بتایا کہ اورنج لائن اگلے سال تک آپریشنل کردیں گے، جس پر چیف جسٹس نے کہا اس ماہ کیوں آپریشنل نہیں ہوسکتی۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ لوگ پیسے نہیں دیتے، ٹھیکے دار چلے جاتے ہیں، ناظم آباد چلے جائیں (دیکھیں) کوئی کام نہیں ہورہا، ہر وقت کوئی نہ کوئی بدلتا رہتا ہے۔انہوں نے ریمارکس دیے کہ لوگوں کو خواب دیکھاتے رہتے ہیں، ان کی زندگی عذاب ہوگئی ہے، دھول مٹی پڑی ہوئی ہے، یہ سارے پروجیکٹ مٹی کا ڈھیر ہیں گر جائیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ لوگ مر رہے ہیں اور آپ لوگ بین بجا رہے ہیں، یہ چنگ چی بھی اب دوبارہ شروع ہوگئی ہے۔ساتھ ہی یہ ریمارکس بھی دیے کہ جو لوگ کراچی میں کام کر رہے ہیں ان کو کراچی کا کیا پتہ، جب تک ڈنڈا اوپر سے نہیں آتا کام نہیں کرتے ہیں۔دوران سماعت چیف جسٹس نے یہ بات بھی کہی کہ جتنے فلائی اوورز بنائے ہیں وہ گریں گے، 5 برسوں میں کیماڑی کا پل گرنے والا ہے، پھر کیماڑی کا کراچی سے رابطہ کٹ جائے گا۔چیف جسٹس نے اے جی سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سلمان صاحب آپ ایماندار ہیں مگر دن بدن حالات بدتر ہورہے ہیں۔انہوں نے ریمارکس دیے کہ شہید ملت روڈ کبھی دیکھنے لائق ہوتا تھا، یونیورسٹی روڈ ایک بڑا مذاق ہے۔عدالت کو اے جی سندھ نے بتایا کہ کام ہورہا ہے گرین اور اورنج لائن جلد آپریشنل ہوجائیں گے، 14 اگست کو ریڈ لائن بھی مکمل ہوجائے گی۔جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ بلیو اور پرپل لائن کا کیا ہے؟ جس پر اے جی سندھ نے بتایا کہ ان پر ابھی کام نہیں ہورہا۔اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ یونیورسٹی روڈ اور شاہراہ پاکستان پر ریڈ لائن منصوبہ بنایا جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں