سبی بچ گیا، بچانے والوں کو سلام

تحریر: شہباز بلوچ
حالیہ سیلاب نے ملک کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا، سڑکیں تباہ، گھر، دیواریں زمین بوس، جان مال جس قدر نقصان اس سیلاب نے پہنچایا اس کی نظیر نہیں ملتی،بلوچستان کا اگلے چند دہایوں تک اس سانحے سے نکلنا ناممکن ہے،اب یہ بات الگ ہے کہ امداد کی فراوانی ہے مگر امداد اگر بحال کرسکتے تو دوہزار پانچ کے زلزلہ زدگان کو بحال کردیتا دو ہزار دس کے سیلاب زدگان بحال ہوچکے ہوتے یہ اربوں روپے امداد کی مد میں ملنے والے کہاں جاتے ہیں، اس بحث میں پڑنا فضول ہے۔ سیلاب زدگان تک بیس کلو راشن کا تھیلا اور ایک ٹینٹ پہنچنا غنیمت ہے۔
اس تباہ کن صورتحال میں ہمیں معاشرے کے ہیروز کو یاد رکھنا چاہیے جنہوں نے قوم کی خدمت آڑے وقت میں ایسے کی کہ لوگ ہمیشہ یاد رکھیں گے، میں یہاں سبی کو سیلاب کی تباہ کاری سے بچانے والے شہر کے محسنوں کی بات کرنا چاہتا ہوں، بارشوں کے پانچوں سپلز تباہ کن رہے، بارش کے پہلے سپل میں تحصیل لہڑی کا علاقہ تریہڑ تباہ ہوا، تریہڑ کے درجنوں دیہات ملیا میٹ ہوگئے، اس تباہی کا جائزہ لینے ہم سبی سے لہڑی گئے چوبیس گھنٹے پریشان ہوئے مگر زیرو پوائنٹ پر نہیں پہنچ پائے، راستے میں لوگ بے یارو مددگار اور حکومتی بے حسی کا شکار ملے، لہڑی کی طرف جاتے ہی بختیارآباد کا بچاؤ بند ملا جس پر مقامی افراد پہرہ دیے ہوئے تھے، معلوم ہوا کہ انتظامی مشینری موجود نہیں، عوام حکومتی اہلکاروں پر بھروسہ نہیں کرتے، لہٰذا عوام اپنے جان و مال گھر بار کی حفاظت کے لیے بچاؤ بند پر پہرہ دیے ہوئے ہیں، اپنی مدد آپ لوگوں نے ٹریکٹرز کے ذریعے بچاؤ بند کو محفوظ بنانے کا بیڑا اٹھا رکھا تھا، یہ سفر گگی کے مقام تک جاری رہا، گگی سے آگے راستہ بند تھا، حکام نے بارش کی بری خبر سناتے ہوئے کہا کہ آگے جانا خطرناک ہے، واپسی ناممکن ہوگی، کیونکہ پک ڈنڈی بھیگ جانے کی صورت میں اس پر گاڑی کا چلنا ممکن نہیں ہوگا۔ لہٰذا ہمیں واپسی اختیار کرنا پڑی، وہاں لوگ ندی پار کر کے کھانے کی اشیا اپنے علاقے لے جارہے تھے، معلوم ہوا انتظامیہ نے یہاں کچھ نہیں پہنچایا، یہ لوگ بازار سے راشن خرید کر لائے ہیں۔
بارش کا پانچواں سپل تباہ کن رہا، بولان سبی میں بارش نے تباہی مچا دی، بولان کی تباہی نے پورے صوبے کو متاثر کردیا، بولان شاہراہ تین مقامات پر بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی، پنجرہ پل صفحہ ہستی سے مٹ گئی، بی بی نانی پل متاثر ہوا جبکہ دربی کے مقام پر شاہراہ کو سیلاب نے ادھیڑ کے رکھ دیا، تادم تحریر شاہراہ کی مرمت کا کام جاری ہے، شاہراہ کے متاثر ہونے سے ملک بھر سے سفر کرنے والے ہزاروں افراد متاثر ہوئے، سیکڑوں مال بردار گاڑیاں سبی میں پھنس گئیں، مسافر گاڑیوں میں سوار سیکڑوں بچے، خواتین، بزرگ پھنس کر رہ گئے، بھوک پیاس نے لوگوں کو ہاتھ پھیلانے پر مجبور کردیا۔
پانچواں سپلز سبی شہر کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتا تھا مگر انتظامیہ اور شہریوں کی بروقت کاوشوں نے اسے بڑی تباہی سے بچایا، ایریگیشن کے عملے نے جانفشانی سے کام کیا، محکمہ ایریگیشن کے عاصم لونی و دیگر قابل افسران نے اپنی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بپھرے ہوئے دریائے ناڑی کا رخ موڑ کر شہر کو بچایا، دو لاکھ کیوسک کا بپھرا ہوا سیلاب سبی ٹاؤن سے کوئی ایک کلومیٹر کی دوری تک آن پہنچا، سات مرلہ ڈوب چکا تھا، ایسے میں ایریگیشن حکام مقامی افراد نے کمال مہارت سے مختلف جگہوں پر کٹ لگا کر پانی کا رخ شہر سے موڑ دیا۔ انتظامیہ کو بھرپور تعاون مقامی ماہر خوطہ خوروں اور آبی ماہرین کا رہا، یہی شہر کے بچاؤ کا باعث بنے، مقامی افراد نے پانی کا رخ اپنی زرعی زمین کی طرف موڑ کر اپنی زراعت کا نقصان کرکے شہر کو بچایا۔ اس کے علاوہ مقامی ماہر غوطہ خوروں نے درجنوں جانیں بچائیں، حکومت کے پاس غوطہ غور کی اسامی نہیں۔ ڈی سی کچھی عمران ابراہیم سیلاب میں پھنسے تو لونی گاؤں کے غوطہ خوروں کی ٹیم نے انہیں بچایا، سوچنے کی بات ہر بار یورپ کی مثالیں دینے والے یہ بتائیں اگر یورپ میں سیلاب آتا تو عوام اسطرح انتظامیہ کا بازو بنتی؟ وہ تو کہتے ہیں ہم ٹیکس دیتے ہیں، کام تمہیں کرنا ہے اس کا ٹیکس لیتے ہو، مگر یہاں یہ مقامی افراد زراعت سمیت ہر مد میں ٹیکس دینے کے باوجود مشکل کی گھڑی میں بغیر کسی معاوضے کے اپنی خدمات کے ذریعے شہر کے بچاؤ کا باعث بنے، بہرحال مشکل کا پہلا دور عبور ہوچکا۔
ابھی مشکل وقت ٹلا نہیں، فی الحال حکومت متاثرین کی ریلیف کی طرف توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے مگر ان لاکھوں متاثرین کی بحالی ایک لمبہ اور مشکل ترین مرحلہ ہے، اللہ کرے کے حکومت بروقت ان متاثرین کی مشکلات کا ازالہ کرنے میں کامیاب ہوجائے۔
حکومت کو ان متاثرین کے ساتھ ساتھ ان تمام افراد کو یاد رکھنا اور ان کی خدمات کو سراہنا ہوگا، جنہوں نے بغیر کسی معاوضے کے اپنی جان لگا دی، اس آفت سے نمٹنے میں جس طرح سبی کے نوجوانوں نے شہر کو بچانے میں جان لگا دی، اسی طرح ملک بھر میں لاکھوں افراد نے اپنا کردار ادا کیا، انسانیت کی بقا کی اس جنگ میں، حکومت ان بہادروں کو طمغوں سے نوازے، جنہوں نے جرأت و بہادری کی مثالیں قائم کیں۔