سردار عطاء اللہ مینگل کی یاد داشتیں

میر جاوید مینگل
سردار عطاء اللہ مینگل کے فرزند میر جاوید مینگل نے اپنے والد محترم سردار عطاء اللہ مینگل کی پہلی برسی کے موقع پر اپنی یاداشتیں لکھتے ہوئے کہا ہے کہ والد کہتے تھے کہ انہیں سیاست کی طرف ایک واقعہ نے راغب کیا وہ کہتے تھے کہ 1956 میں وزیر اعظم بلوچستان اسٹیٹس یونین احمد یار کھنڈوہ اور دیگر حکومتی شخصیات علاقے میں روڈ کا افتتاح کرنے آرہے تھے اور ان کی ضیافت کا بندوست وڈھ میں تھا بیلہ سے ہم وڈھ روانہ ہوئے کیونکہ اْس زمانے میں شاہراہ وغیرہ کچھ نہیں تھیں ایک کچی سڑک قبیلے کی مدد سے سردار عطاء اللہ مینگل اور سردار فقیر محمد بزنجو نے بیلہ سے وڈھ تک بنائی تھی تاکہ لوگوں کو سفر کرنے میں دشواری پیش نہ آئے کیونکہ اس سے قبل سڑک کا نام و نشان تک نہیں تھا اکثر لوگ اونٹوں پر سفر کرتے تھے اور موجودہ شاہراہ کی بنیاد سردار عطاء اللہ مینگل نے قبیلے کے لوگوں کے ساتھ ملکر رکھی تھی، اس کچی سڑک پر سفر بہت دشوار گزار تھا، سردار عطاء اللہ مینگل نے اپنی گاڑی حکومتی قافلے کے آگے کردی تاکہ وہ بھٹک نہ جائیں جب یہ لوگ مینگل ہاؤس پہنچے اور کھانا لگ گیا تو اس دوران سردار عطاء اللہ مینگل کو بتایا گیا کہ اْن میں سے ایک آفیسر جن کا تعلق پنجاب سے ہے وہ کھانا نہیں کھا رہا، جب سردار عطاء اللہ مینگل نے ان کی ناراضگی کی وجہ پوچھی تو انہیں بتایا گیا کہ آپ کی گاڑی نے قافلے کو کراس کیا جس کی وجہ سے دھول و مٹی ان کی گاڑی پر پڑی اور اس لئے وہ ناراض ہوگئے ہیں تو اس پر والد نے لوگوں کو منع کیا کہ انہیں کھانے کے لئے کوئی منت و سماجت نہ کرے، انہوں نے کہا ہمارے وطن اور ہمارے علاقے میں آکر وہ ہمیں آنکھیں دکھاتے ہیں، وہ ہمارے ساتھ آقا و غلام کا رشتہ رکھنا چاہتے ہیں، والد کہتے تھے وہ ہی واقعہ تھا جس نے مجھے قوم پرستی کی سیاست کی جانب راغب کیا۔


ایک بار میں نے والد سے پوچھا کہ لوگ کیوں مفاد پرستی کا شکار ہو جاتے ہیں اور قوم پرستی کو چھوڑ کر لالچ اور سرکاری عہدوں کا شکار ہو جاتے ہیں؟ تو والد نے کہا کہ جب آپ وطن پرستی کی سیاست میں قدم رکھتے ہیں تو زندگی ایک فلم کے طرح آپ کے سامنے چلنے لگتی ہے آپ دیکھتے ہیں کہ اگر میں وطن پرستی، قوم دوستی کی سیاست کرونگا تو اس راہ میں بہت سی مشکلات ہونگی، جیل و شہادتیں، قربانیاں قدم قدم پر استقبال کرینگے جو لوگ ذہنی، فکری اور اعصابی طور پر مضبوط ہوتے ہیں پھر وہ راستے کے رکاوٹوں، مشکلات، اذیتوں کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے ہیں اور وہ ثابت قدم رہتے ہیں اور کچھ لوگ زندگی کی اس فلم میں دیکھتے ہیں کہ اگر وہ وطن اور قوم کے بجائے دوسری لائن میں لگ جائیں تو انہیں بڑے عہدے، مراعات اور ذاتی مفادات مل جائیں گے اور ذاتی زندگی انہیں خوبصورت دکھنے لگتی ہے پھر وہ وطن اور قوم کے لئے جدوجہد کرنے کے بجائے مفاداتی شان و شوکت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ والد صاحب نے کہا کہ نیپ کے زمانے میں ہم نے اسمبلی میں سرداری نظام کے خاتمے کا بل اس لئے پیش کیا تھا کیونکہ سرکار اسی نظام کو لے کر اپنے من پسند سرداروں کے ذریعے لوگوں کو لالچ دے کر اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتی ہے، والد صاحب نے کہا کہ جب لوگ اپنے سردار کے کہنے پر تحریک میں شامل ہوتے ہیں تو وہ سمجھتے کہ وہ یہ جدوجہد اپنے سردار کے لئے کررہے ہیں، جس کی ایک حد ہوتی ہے وہ اپنا فرض سمجھ کر ایک حد تک سردار کی خاطر تحریک میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ جتنی ہماری طاقت تھی ہم نے اپنا فرض ادا کیا، جو لوگ شعوری طور پر تحریکوں میں قدم رکھتے ہیں وہ اپنی جدوجہد کو کسی پر احسان نہیں سمجھتے بلکہ اپنا فرض سمجھ کر سرزمین کے لئے آخری سانسوں تک جدوجہد کرتے ہیں۔
1928 میں انگریز پولیٹیکل ایجنٹ سے اختلاف کے بعد انگریزوں نے خان آف قلات کے ذریعے ہمارے دادا کو زبردستی علاقہ بدر کرکے کرم خان مینگل کو سردار بنایا تھا تو ہمارے دادا وڈھ سے آکر لسبیلہ میں سکونت اختیار کرلی تھی، 1930 میں والد کی پیدائش لسبیلہ میں ہوئی تھی بنیادی تعلیم انہوں نے بیلہ میں حاصل کی پھر مزید تعلیم کے لئے سندھ مدرسہ کراچی چلے گئے، جب 1952 میں والد صاحب نے ایک دن دادا سے دریافت کیا کہ آپ کیوں وڈھ نہیں جاتے اور قبیلے کو نہیں سنبھالتے، آپ کی غیر موجودگی میں ہماری تمام جائدادیں اور زرعی زمینوں پر کرم خان قبضہ کرچکا ہے، دادا نے والد سے کہا کہ خان اور سرکار کی جانب سے میرے وہاں جانے پر پابندی ہے، اس دوران والد نے کہا کہ آپ پر پابندی ہے لیکن مجھ پر پابندی تو نہیں ہے میں وڈھ جاؤں گا، دادا نے انہیں کہا کہ کیسے وہاں جائیں گے نہ علاقے سے اور نہ ہی لوگوں سے آپ واقف ہیں، دادا سے والد نے پوچھا کہ آپ کے کتنے بیٹے ہیں، دادا نے کہا کیوں ایسے پوچھ رہے ہو، والد کے اصرار پر دادا نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ آپ مہر اللہ اور ضیاء اللہ یہ تین میرے بیٹے ہیں، والد نے انہیں کہا کہ میں جارہا ہوں اگر واپس آگیا تو ٹھیک ہے اگر نہیں آسکا تو سمجھنا کہ آپ کے تین نہیں دو بیٹے تھے اس طرح والد 1952 میں کراچی سے سارونا کے راستے وڈھ روانہ ہوگئے اور سمان کے مقام پر کیمپ کا قیام کیا، اس دوران مینگل قبیلے کے متعبرین سے رابطے کرتے رہے، جب کرم خان کو معلوم ہوا تو انہوں نے خان قلات کو پیغام بھیجا اور انہیں والد کے متعلق بتایا کہ وہ علاقے میں آگئے ہیں اگر انہیں یہاں سے نہیں نکالا گیا تو بہت خون خرابہ ہوسکتا ہے، خان نے والد کو علاقہ چھوڑنے کا پیغام بھیجا اور پھر والد وہاں سے مشکے سردار بلوچ خان محمدحسنی کے ہاں چلے گئے جو اْن کے ماموں تھے، سردار بلوچ خان نے جاکر خان کو سمجھایا کہ مینگل قبیلے کے لوگ کسی صورت کرم خان کو سردار تسلیم نہیں کرینگے اور انہوں نے خان کو تجویز دی کہ الیکشن کروائیں، قبیلے کے متعبرین جس کو سردار منتخب کریں، انہیں سردار مانا جائے پھر خان نے الیکشن کروانے کے لئے راضی ہوگئے اور جب الیکشن ہوئے والد کو 106 جبکہ کرم خان کو صرف 16 ووٹ ملے تھے اس طرح والد مینگل قبیلے کے سردار منتخب ہوئے۔ جنرل ایوب خان کے مارشل لاء کی والد نے مخالفت کی تو وہ پھر کرم خان کو سردار بنانا چاہتے تھے، قبیلے کے لوگ اس فیصلے کے خلاف مشتعل تھے انہوں نے کرم خان کو قتل کردیا اور اس الزام میں دادا سمیت ہمارے پورے خاندان کو قبیلے کے 400 افراد کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔ایوب خان کے زمانے میں والد اور میر غوث بخش بزنجو کراچی سینٹرل جیل میں قید تھے اور آج بھی مجھے یاد ہے جب پہلی بار ہمیں والد صاحب سے ملاقات کے لئے سینٹرل جیل لیجایا گیا۔
میر غوث بخش بزنجو، گل خان نصیر سمیت دیگر سیاسی رہنماء جب کراچی آتے تھے تو ہمارے گھر میں ٹہرتے تھے، گھر سیاسی سرگرمیوں کی آماجگاہ تھی، دادا ہمیشہ والد صاحب کو طنزیہ طور پر کہتے تھے آپ کے لاڈلے آئیں ہیں یہ آپ کے ساتھی پتہ نہیں کیا سیاست کرتے ہیں اور آپ کو پتہ نہیں کہاں لے جائیں، دادا کے انہی باتوں کی وجہ سے والد نے گھر الگ کیا کہ کہیں والد میرے دوستوں پر ناراضگی کا اظہار نہ کر دیں، پھر ہم ناظم آباد دوسرے گھر میں منتقل ہوگئے، جہاں گھر کا ایک حصہ میر غوث بخش بزنجو اور گل خان نصیر سمیت دیگر سیاسی اکابرین کے لئے مختص تھا اور نواب اکبر خان بگٹی اکثر والد سے ملنے آیا کرتے تھے۔
اسمبلی میں ایوب خان کے مارشل لاء کے خلاف 1962 میں والد نے تقریر کی تھی، جس کے وجہ سے ایوب خان کافی ناراض ہوئے تھے، اْس کے بعد ایک تقریب میں جہاں تمام اراکین اسمبلی بھی مدعو کئے گئے تھے، تقریب میں والد صاحب، نواب مری اور سردار بلخ شیر مزاری بھی موجود تھے، جب تقریب میں ایوب خان آئے تو تمام اراکین نے کھڑے ہوکر ان کا استقبال کیا لیکن اس دوران والد اپنی نشت پر بیھٹے رہے اس دوران ایوب خان نے ان کی طرف دیکھا اور نواب مری نے ان سے دریافت کیا کہ مینگل تمہارے دل میں کچھ ہے یا ہمیں آزما رہے ہو تو اس پر والد نے نواب مری سے کہا کہ میں کسی کو نہیں آزما رہا، بس میں اس کے استقبال کے لئے کھڑا نہیں ہونگا تو نواب نے کہا کہ اگر آپ نہیں اٹھتے تو میں بھی اپنی کرسی سے نہیں اٹھونگا، پھر ایوبی مارشل لاء کے خلاف کنکری گراؤنڈ کراچی میں تقریر کرنے کی پاداش میں والد کو گرفتار کیا گیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں