جب میں اسلام آباد پہنچا !

تحریر از بصیر خان ہزارہ

دو دن فورٹ منرو میں ٹریفک جام کی وجہ سے پسے رہنے کے بعد جب تیسرا دن منزل کو پہنچا تو دیکھا کہ کہیں بڑی بڑی عمارتیں تو کہیں جھونپڑیاں اسلام آباد کی سڑکوں پر سرمایہ داروں اشرافیہ اور سرکاری عہدہ داروں کی لیگژری گاڑیاں تو اسی روڈ کے کنارے سواری کے انتظار میں بیٹھے غریب ٹیکسی ڈرائیور اور بائکیا یہ ہے سرمایہ داری کے بوسیدہ نظام اور اس نظام میں پِسے ہوئے لوگ ۔
پاکستان کے تمام تر سرمایہ کو اسلام آباد کی چند گلیوں پر وقف کردیا گیا ہے کُشادہ سڑکیں ، بلند و بالا عمارتیں اور بہترین صفائی کا نظام سب یہاں کی خوبصورتی میں چارچاند لگا دیتی ہے یہاں آکر یوں لگتا ہے کہ جیسے پاکستان کی شرح غربت ۲ فیصد ہے اور جب اپ شام کی ٹھنڈی ہواؤں سے لطف اندوز ہونے نکلتے ہو تو رستے میں اپ کو بے شمار غریب اور مزدور ملیں گے جو اپ کے زہن میں اک تجسس پیدا کرتا ہے کہ یہ سرمایہ اور آسائشیں یہاں کے غریب باشندوں کیلئے مُیسؔر کیوں نہیں ہے یہاں کی سرمایہ داروں کو تو سیلاب زدگان اور جھونپڑیوں میں غربت کی لکیر سے بھی نیچے کی زندگی بسر کرنے والوں کا پتا ہی نہیں وہ لوگ تو اپنے بینک بیلینس بڑھانے کی فکر میں لگی ہوئی ہے اور اگر دن میں کچھ فارغ وقت انہیں نصیب ہوتی ہے تو وہ لوگ سَن سیٹ کو انجوائے کرنے دامن کوہ چلے جاتے ہیں ۔
یہاں پر جگہ جگہ حد بندیاں اپ کو یہ یاد دلانے کیلئے ہے کہ اپ ایک طبقاتی معاشرہ میں رہ رہے ہیں اور اپنے حدوں سے تجاوز کرنے کی تو اپ سوچ ہی نہیں سکتے ۔ بیچارے بلوچستان کے سیلاب زدگان کو تو پتہ ہی نہیں ہے کہ یہاں انکے نام پر چندے اکٹھے کئے جارہے ہیں یہ چندے اکٹھے ہوکر کہاں جاتی ہے یہ تو کسی کو معلوم نہیں مگر میرے خیال میں یہ چندے بھی حد بندیوں کے اُس پار جاتی ہے جہاں عوام کے غم خوار نمائندے بیٹھے ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں