بلوچ سیاسی قیادت

تحریر : نصیر بلوچ
پیمرا کی جانب سے بول نیوز کے نشریات پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ میڈیا پر پابندی کا یہ سلسلہ کچھ نیا نہیں ہے البتہ بلوچستان پر میڈیا بلاک آوٹ روزِاول سے نافذ ہے حالیہ سیلابی صورتحال میں بلوچستان کا 80 فیصد تباہ ہوچکا ہے جبکہ امدادی سامان کی رفتار و مقدار اس تناسب کے حساب سے کافی کم ہے۔ بلوچ قدرتی آفات سے پیش مصنوعی مسائل اور آفت میں بری طرح گھرا ہوا ہے۔ دیگر ممالک سے ملنے والے امدادی سامان کی ابھی تک متاثرین کو منتقلی یقینی نہیں بنائی گئی ہے۔ عوام کی نظریں وفاقی حکومت پر ہیں جبکہ باقی صوبوں میں مانگے تانگے کی حکومت ہے جنہیں عوامی مسائل سے کوئی سروکار نہیں۔ بلوچستان حکومت نااہل ہے جو دوبارہ وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے بعد ابھی تک اپنے حلقہ آواران کا دورہ کرنا تک گوارہ نہیں کیا۔ یہ بات احمقانہ ہے کہ عبدالقدوس بزنجو کے زیرِ سایہ بلوچستان ترقی کے پہاڑ چڑھے گا۔ سیلابی ریلوں میں بہہ جانے والے گھروں کی تعمیرات کے لئے فنڈز مختص کیے جائیں۔ آفت میں سیاست کی رونق چھائی ہوئی ہے، آرمی چیف کی تعیناتی پر عمران خان کے منتازعہ بیان پر چیف جسٹس اطہر من اللہ کا ردعمل غور طلب اور ناقابل بخشش ہے لیکن پھر بھی عمران نیازی پر ہاتھ ڈھیلا رکھا گیا یہ بیان اگر علی وزیر، محسن داوڑ دیتے تو انکا وہ حشر کیا جاتا کہ وہ زندگی بھر اس سے بری الذمہ نہیں ہوپاتے۔
موجودہ دور کو بلوچستان تاریخ کا سب سے بدترین دور کہا جاسکتا ہے۔ 1935ءکوئٹہ کے المناک زلزلے کے بعد سب سے بڑی قدرتی آفات موجودہ سیلاب کو قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایک طرف وفاق میں بلا جواز سیاسی بھول بھلیاں چل رہی ہیں جبکہ بلوچستان اپوزیشن کا متحرک ہونا وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے لیکن اسکے باوجود بلوچستان کی اپوزیشن میں ایک گہری خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں سے لیکر دیگر مسائل پر اپوزیشن کو کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
پارلیمان اور اسمبلی میں بیٹھے بلوچ لیڈرز کو یہ احساس تک نہیں کہ بلوچ کو کن مسائل کا سامنا ہے۔ احتجاج کے علاوہ انکے پاس اور کوئی چارہ نہیں اور احتجاج کا حق بھی بلوچوں کو لاحاصل ہے۔ یقین مانیں بلوچ مسائل کی جانب عدم توجہ اور انکے متعلق بات نہ کرنا دراصل بلوچ سیاسی لیڈرز کی بلوچ مسائل پر عدم ترجیح ہے۔ البتہ موجودہ الائنس حکومت میں اگر بلوچ سیاسی قیادت بلوچ مسائل پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی تو مسائل کافی حد تک حل ہوسکتے۔