بلوچ قومی اتحاد کی اہمیت و افادیت

تحریر جی آر مری بلوچ

بلوچ قوم کی تاریخِ پس منظر پہ نظر دوڑائی جائے تب ہم بلوچ قوم کو ہمیشہ دشمن کے خلاف یکجاہ ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ البتہ بلوچ قوم نے آپس میں ہمیشہ جنگیں لڑیں، اور یہ آپس کی جنگیں ہمیشہ آپسی انا، ضد، خود پرستی اور ذاتیت کی وجہ سے وجود میں آئیں۔ مگر یہ بدبختی صرف بلوچ قوم میں نہیں رہا بلکہ افغانستان کے پشتوں سیکنڑوں سالوں سے آپسی رنجشوں کو لے کے لڑتے رہے۔ کُردوں کا بھی یہی حال رہا اسی طرح ایرانیوں میں بھی یہ بدبختی پائی گئی، مگر بلوچ قوم نے دشمن کے خلاف ہمیشہ اپنی آپسی، رنجشوں، ضد و انا اور ذاتیت کو ترک کرکے ایک ہی صفے میں ڈٹ کر کھڑے رہے اور کئی جنگیں جیت کر سُرخ رو ہوئے جن میں 1840ء کی جنگیں جو انگریزوں کے خلاف بلوچوں کے مری اور بُگٹی قبائل نے مل کر لڑیں حالانکہ کے آپسی طور پر وہ ہمیشہ کسی چھوٹے یا بڑے معاملے کی وجہ سے اختلاف رکھتے تھے مگر دشمن کے خلاف جنگ کو سب سے بالاتر سمجھ کر تاریخ رقم کرنے میں سُرخ رو ہوئے۔

ہر قوم میں مشترکہ طور پر کردار ادا کرنے والی تنظیمیں اور سیاسی پارٹیاں موجود رہی ہیں اور فردی طور بھی کئی ایسی مثالیں ہمیں ملتی ہیں جنہوں نے اپنی قوم و سرزمین کے لئے کردار ادا کی ہیں، جیسا کہ چی گویرا، فیڈرل کاسترو، نیلسن منڈیلا، ماؤزے تنگ، لینن وغیرہ اسی طرح اگر ہم بلوچ قوم کے انقلابی رہنماؤں کی بات کریں تب ہمیں چند نام سرفہرست میں ملتی ہیں جنہوں نے انفرادی طور پر بہت بڑی قربانیاں دیں اور اپنی سرزمیں و بلوچ قوم کے لئے اہم کردار ادا کیں، جن میں بابائے بلوچ قوم نواب خیر بخش مری، شہیدِ وطن ڈاڈائے بلوچ نواب اکبر خان بُگٹی، مرحوم سردار عطاء اللّٰہ مینگل، پہاڑوں کا شہزداہ شہیدِ وطن نواب بالاچ خان مری اور شیر محمد مری کا کردار سرفہرست پہ آتے ہیں۔

البتہ ان کرداروں کے علاوہ بھی کئی ایسے انقلابی رہنماء ہیں جو ہمارے لئے کتابوں کی مانند ہیں اور اُن کا کردار ہمیں عزت بخشتی ہیں، ہمارے جزبوں کو توانا بناتی ہیں، ان انقلابی رہنماؤں نے تو اپنا کردار ادا کیا ہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم کیا کررہے ہیں؟ آیا ہم ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں؟ کیا ہم ان کی قربانیوں کی قدر کررہے ہیں ؟ کیا ہم ان کی قربانیوں کی طرح قربانیاں دینے کی طاقت و ارادہ رکھتے ہیں ؟ اگر ہم کُچھ بھی نہ کرسکیں، قربانی تک بھی نہ دیں سکیں تو کم از کم ان کی قربانیوں کے برخلاف عمل پیرا نہ ہوں۔ البتہ ان رہنماؤں کے کردار اور قربانیوں کے علاوہ بلوچ تاریخ ادھوری ہے۔

بلوچ قوم میں ہمیشہ سرداروں کا ذِکر ہوتا ہے جن میں بابائے بلوچ قوم نواب خیر بخش مری، شہیدِ وطن نواب اکبر خان بُگٹی اور سردار عطاء مینگل سرفہرست میں آتے ہیں ان کے علاوہ بلوچ قوم کسی کو سردار نہیں مانتا اور نہ ہی اب کوئی سرداری کا لبادہ اوڑھ کر خود کو بلوچ کا رہنماء منوا کر بلوچ قوم کے ساتھ دھوکہ کرسکتا ہے۔ اب کسی کی سرداری اور دُکانداری نہیں چلنے والی ہے اور نہ ہی کوئی سردار حقیقی معنوں میں وجود رکھتا ہے البتہ بِھکے ہوئے نمونے بہت ہیں جو شاید خود کو بلوچ قومی رہنماء سمجھتے ہیں مگر بلوچ نوجوان ان کی شیطانی چہروں سے بخوبی واقف ہیں۔

نیشنلزم کے نظریے کو لے کر تمام بلوچ سیاسی پارٹیاں اور طلبا تنظیمیں خود کو بلوچ کا وارث سمجھتے ہیں مگر سوال یہ اُٹھتا ہے کہ آیا ان کا کردار، عمل و فکر بھی بلوچ نیشنلزم سے ملتے جُلتے ہیں یا نہیں؟ جو سیاسی پارٹیاں اور طلبا تنظیمیں خود کو نیشنلزم کے لبادے میں اوڑھ کر قوم کے ساتھ دھوکہ و فریب کررہے ہیں اُن سے بھی بلوچ نوجوان بخوبی واقف ہیں، اب مزید نیشنلزم کے چادر میں کوئی خود کو اوڑھ کر بلوچ قوم کو دھوکے میں نہیں رکھ سکتا۔ اگر حقیقی معنوں میں کوئی ایک بھی سیاسی پارٹی بلوچ نیشنلزم کے نظریے پر حقیقی معنوں میں کارفرما ہوتا تو آج بلوچ قوم کبھی پسماندگی کا شکار نہیں ہوتا، سیندک اور ریکوڈک سے بلوچ قوم کو فائدہ ملتا، گودار پورٹ کے ہوتے ہوئے بلوچ قوم ایک بوند پانی کیلئے نہیں ترستے، سوئی سے نکلنے والی گیس سے مقامی لوگوں کو استفادہ ضرور پہنچتا، بحر بلوچ ہر غیر ضروری ٹرالنگ کے زریعے بلوچ مچھیروں کی حق تلفی نہیں کیا جاتا، اسکے علاوہ حالیہ سیلاب سے بلوچستاں تباہ نہیں ہوتا جو لوگ حالیہ سیلاب کو خُدا کی آفت سمجھتے ہیں تو میں اُن سے مخاطب ہوں کہ میں اس سیلاب کو بھی بلوچ قوم کی غلامی سمجھتا ہوں، اگر بلوچ قوم غلام نہ ہوتی تب بلوچستان ایسی تباہی سے دوچار نہیں ہوتا اور نہ ہی ہمیں کسی بھی غیر مُلکی فنڈز کی ضرورت ہوتی بلکہ ہم اپنے وطن کے سائل و وسائل کو بروئے کار لاکر غیر مُلکیوں سمیت ان لوگوں کو بھیک دیتے جو آج ہماری حقوق پر غاصب ہیں، یہ جو سیلاب زدگان کے نام پہ عربوں،کھربوں کے ریلیفس کا اعلان ہورہا ہے کیا یہ بلوچ سیلاب زدگان کے لئے بروئے کار لائے جائیں گے یا یہ بلوچ قومی مفادات کے برخلاف استعمال ہونگے؟ جو کئی عرصوں سے قومی مفادات کو نقصان پہنچا رہے ہیں، نام نہاد ہارٹیاں بہت ہیں لیکن کوئی ایسا بلوچ سیاسی پارٹی موجود ہے جو انکا حساب رکھتا ہو اور ان پر تحقیقات کی ہو کہ یہ فنڈز اور سائل وسائل کہاں اور کیسے استعمال ہو رہے ہیں؟ کیا ان فنڈز سے بلوچ نوجْوانوں، بوڑھوں، عورتوں اور بچّوں کی زندگی ترقی کی طرف لے جائی جا رہی ہے یا انکی زندگی کو اجیرن بنایا جا رہا ہے؟

ڈاکٹر فاروق بلوچ اپنی کتاب بلوچ سماج میں قبائلی سماج اور قوانین کے بارے چند قوانین لکھتے ہیں جن پر تمام بلوچ قوم کو کاربند رہنا ہے جن میں، "سیاہ کار اور سیاہ کارہ(مرد و عورت) کو پناہ نہ دینا، باہوٹ کی حفاظت کرنا اور حتیٰ الوسع فریقین کے درمیان سمجھوتہ کرنا، ہمراہی (ہمسفر) پر اگر اس کا کوئی دشمن حملہ آور ہوتو ہمراہی کا ساتھ دینا، قول و زبان (وعدہ و قرار) کی پابندی کرنا، مجلس و کچہری میں ننگے سر نہ بیٹھنا، گھر میں داخل ہوتے وقت جوتے باہر نکالنا، سادات کا احترام کرنا، مجلس میں پاؤں نہ پھیلانا، خواتین کے سامنے ناشائستہ کلام اور نازیبا حرکت نہ کرنا، جھوٹ نہ بولنا اور جھوٹی افواہیں نہ پیھلانا، دچمن کو للکارنا اور اپنا نام و نسب اور وجہ قتال(قتل کی وجہ) ظاہر کرکے حملہ کرنا، پیٹھ پیچھے دشمن پر حملہ نہ کرنا، عورتوں اور بچوں پر ہاتھ نہ اُٹھانا، بھاگ جانے والے دشمن کا تقاقب نہ کرنا، لڑائی کے دوران جب کوئی سید درمیان میں آجائے تو جنگ سے ہاتھ روکنا۔ اگر دشمن کی عورتیں باہر نکل کر لڑائی روکنے کی درخواست کریں تو انکا احترام کرنا، کمتر ذات کے لوگوں اور ہندوؤں کو قتل نہ کرنا اور جنگ میں گرفتار ہونے والے قیدی کو نہ تو قتل کرنا اور نہ اذیت دینا شامل ہے”۔ یہ علم نہیں کہ یہ قوانین کب اور کس نے مرتب کیے لیکن یہ بات حتمی ہے کہ انکی پاسداری ہر بلوچ اپنا فرضِ عین سمھجتا ہے۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اب ان کی پاسداری نہیں ہورہی ہے ہم نے خود ان قوانین کی پاسداری چھوڑ دی ہے۔ ہم نے اپنا ثقافت و تہذیب سے منہ موڑ لیا ہے۔ ہمیں کیا کرنا ہے اور ہم کیا کر رہے ہیں۔ ہمیں جاگنا ہے، ہمیں اُٹھنا ہے، یکجاہ ہونا ہے، ان قوتوں کے خلاف لڑنا ہے جو ہماری حقوق پر قابض ہیں
البتہ اتحاد و اتفاق میں برکت ہے بطور بلوچ سیاسی کارکُن میرا یہ ماننا ہے کہ اگر ہماری سیاسی پلیٹ فارم الگ ہیں لیکن ہمیں مجموعی مفادات اور درپیش قومی مسائل کیلئے کچھ نقاد پر اتحاد کرنی ہے، کیونکہ یہ مسائل قومی مسائل ہیں ان مسائل کو حل کرنے کیلئے تمام طلباء تنظیمیں اور سْیاسی پارٹیاں ایک الائنس کی صورت میں جدوجہد کریں، اختلافات کو سیاسی حد میں رکھا جائے قومی سطح پہ ہمیں ایک ہونا ہے، تمام طلباء تنظیموں کو قومی مسائل پر ایک الائنس بنانی ہے ہم اس الائنس کے تحت اپنے قومی مسائل کو لیکر تاریخی کردار ادا کرسکتے ہیں، طلباء تنظیموں کے ساتھ ساتھ بلوچ سیاسی پارٹیوں کو بھی قومی سطح پر یکجاہ ہونا ہے جو حقیقی معنوں میں خود کو نیشلزم کے ماننے والے ہیں یا خود کو بلوچ قوم پرست سمجھتے یا تصور کرتے ہیں۔ اب وقت کا تقاضہ ہے کہ ہمیں بطورِ بلوچ قوم، مجموعی قومی مسائل پر الائنس بنانی ہے اور اپنے سائل وسائل کےلیے آواز اُٹھانا ہے،
اگر تنظیموں اور پارٹیوں نے آپس میں الائنس بنائی تو وہ ایک مثبت پیش رفت ثابت ہوسکتا ہے، جنکے مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، شاید اس قوت کے ساتھ ہماری مائیں، بہنیں، بچّے، نوجْوان اور پیر مرد کو تحفظ ملکر موجودہ بحرانوں سے چھٹکارہ حاصل کرسکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں