بلوچستان یونیورسٹی مسائل کا گڑھ بن چکی ہے

تحریر : عطاءالرحمن بلوچ
بلوچستان یونیورسٹی میں آئے زور طالب علموں کو نئے مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ دوسرے ممالک کے یونیورسٹیوں میں طلبہ کو علم حاصل کرنے کیلئے تمام سہولیات آسانی سے دی جاتی ہیں۔ بد بختی سے ہماری یونیورسٹی میں بلا وجہ ہمیں تعلیم سے دور رکھا گیا۔ طلباءو طالبات کو انکی بنیادی سہولیات نہیں دی جارہی ہیں۔ چائے وہ اسکالرشپ کی صورت میں ہو۔ یا لیپ ٹاپ کی صورت میں ہو۔ طلباءکو نہیں دی جاتی ہے۔ جو بھی وائس چانسلر تعینات ہو جاتا ہے۔ ان کا رویہ طلبہ کیساتھ ظالم بادشاہ کی طرح ہوتا ہے، وہ اپنی من مانی چلاتا ہے۔ طالب علموں کو تعلیم کی طرف گامزن نہیں کرتا بلکہ انہیں مزید پسماندگی کی طرف دھکیل دیتا ہے اور مکمل طور پر اپنی طاقت جما لیتا ہے۔ ظلم اور جبر کی نئی داستان شروع کرتا ہے۔ 2 دن پہلے بلوچستان یونیورسٹی کے طلباءآﺅٹ آف کورس ٹیسٹ کیخلاف پر امن احتجاج کررہے تھے۔ وائس چانسلر کے کہنے پر پولیس نے انتہائی بے دردی کیساتھ طلباءپر تشدد کرکے انہیں شدید زخمی کرنے کے بعد گرفتار کرکے جیل منتقل کردیا۔ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے پہلے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں۔ 2013ءسے لیکر 2019ءتک ایک ظالم اور درندہ نما شخص نے وائس چانسلر کے عہدے پر فائز ہوکر طالب علموں پر مظالم شروع کیا اور طلباءتنظیموں پر مکمل پابندی عائد کی اور اپنا قبضہ جمالیا۔ پھر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وائس چانسلر خود مجرم نکلا۔ ان کے کارنامہ سب کے سامنے عیاں ہیں۔ وائس چانسلر نے یونیورسٹی میں خفیہ وڈیوز بنانے اور طالبات کو ہراساں کرنے میں سر فہرست تھا۔ بلوچستان یونیورسٹی کی معصوم بچیوں کو ظلم اور جبر کا نشانہ بنایا۔ انکا وہ عمل قابل مذمت نہیں بلکہ ناقابل معافی جرم تھا۔ FSC کرنے کے بعد بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے طالب علم داخلہ لینے کے لئے بلوچستان یونیورسٹی کا رخ کرتے ہیں۔ یونیورسٹی کے سربراہ کے ناروا رویے کی وجہ سے انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بلوچستان کی 70 فیصد آبادی غربت کی لیکر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ بلوچستان کے بسنے والے غریب لوگوں کے دل میں یہی خواہش پیدا ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کو پڑھایا جائے۔ لیکن غریبی کی وجہ سے پڑھانے کی طاقت نہیں رکھتے۔ غریبی کے وجہ سے اکثر طلباءپرائیویٹ امتحان دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے پرائیویٹ امتحان دینے کے لئے انہیں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پرائیویٹ بی اے کی امتحانی فیس 7500 روپے ہے۔ 7 دن کے بعد فیس 10500 ہوجاتی ہے۔ 20 دن کے بعد فیس 17500 روپے تک پہنچ جاتی ہے۔ امتحان دینے کے بعد 70 فیصد اچھے اور لائق طالب علم فیل ہوجاتے ہیں۔ وائس چانسلر نے اپنا بیلنس بڑھانے کے خاطر یونیورسٹی کو ایک کاروباری مرکز سمجھ رکھا ہے۔ نا انصافی کی انتہا یہ ہے۔ کہ ایک پیپر میں فیل ہوجائے تو پھر بھی 7500 روپے فیس جمع کرانا پڑتی ہے۔ اس طرح کے ظلم اور ناانصافی کی وجہ سے بہت سے طالب علم تعلیم کو خیر باد کہہ گئے ہیں۔ بلوچستان کی واحد یونیورسٹی ہے جس سے لوگوں کے امیدیں جڑی ہوئی ہیں لیکن اس یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے بلوچستان کے طلباءو طالبات بہت سی مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں۔ حکام بالا سے پرزور اپیل کرتے ہیں کہ خدارا یونیورسٹی آف بلوچستان میں ایک بہترین تعلیمی نظام بحال کیا جائے، جو تعلیم کے نام پر لاکھوں روپے کی کرپشن کرتے ہیں انہیں سزا دی جائے، ایماندار اور مخلص وائس چانسلر تعینات کیا جائے۔ ہمارے حکمرانوں کی عدم توجہ کی وجہ سے ہم اس طرح در بدری کی زندگی گزار رہے ہیں۔ حکمرانوں کو چاہیے اہل بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئے کلیدی کردار ادا کریں تاکہ ہمارا تعلیم نظام بہتر سے بہتر ہوجائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں