ایک اور راستہ

انور ساجدی
نگارخانے میں طوطی کی آواز کوئی نہیں سنتا یہی حال بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ کاہے ریاست میں اتناعلاقائی تفادت اور ایک دوسرے سے بیگانگی ہے کہ سب سے بڑے صوبہ سے تعلق رکھنے والے اکابرین اپنے ہی وفاق کی دیگر اکائیوں کے بارے میں بنیادی معلومات نہیں رکھتے اور نہ ہی وہ چھوٹی اکائیوں کے کسی بھی معاملہ کو لائق توجہ سمجھتے ہیں پارلیمنٹ کے حالیہ سیشن میں محترم عثمان کاکڑ نے کئی بنیادی معاملات اٹھائے جن میں 18ویں ترمیم وزیرستان کی صورتحال اورعارف وزیرکاقتل شامل ہے ادریس خٹک چونکہ انکی جماعت سے تعلق نہیں رکھتے تھے اس لئے لالہ عثمان ان کا ذکر بھول گئے اسی طرح پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے اکثر اراکین بلوچستان کے بنیادی مسائل سے چاہے وہ انسانی حقوق سے متعلق کیوں نہ ہوں صرف نظرکرجاتے ہیں۔
18ویں ترمیم کے بارے میں موصوف نے فرمایاکہ اگراسے ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو بنگلہ دیش سے بھی زیادہ مزاحمت ہوگی انہوں نے زیادہ تفصیل نہیں بتائی کہ کس طرح کی مزاحمت ہوگی کون کرے گا یہ مزاحمت اور یہ کہ انکی جماعت کاکیا رول ہوگا کیونکہ پشتونوں کی دونوں اہم جماعتیں اے این پی اورپشتون خواہ ملی عوامی پارٹی عدم تشدد کے فلسفہ پرکاربند ہیں اگر انہوں نے مزاحمت کی تو وہ جمہوری اور پرامن احتجاج ہوگا یعنی وہ اپنے اسٹریٹ پاور کو استعمال کرکے جلسہ یا ریلیوں کی شکل میں احتجاج کرسکتے ہیں پشتونخوا صوبہ اور اسکے لاحقوں میں اس سے ہٹ کرکبھی کوئی احتجاج نہیں ہوا اب جبکہ فاٹا ضم ہوگیاہے تو عین ممکن ہے کہ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں احتجاج کی کوئی اور مشکل رونما ہوجائے ہمارے مرکزی حکمران اتنے تو سیانے ہیں کہ وہ صوبہ پشتونخوا کانام تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے اسکے علاوہ وہ18ویں ترمیم کا حلیہ بدل کر آئین کو دوبارہ اسی حالت میں لے جائیں گے جہاں ضیاء الحق نے چھوڑا تھا اگرپشتونخوا کے نام کو چھیڑنے کی کوشش کی گئی تو یہ اے این پی کیلئے زندگی اور موت کا سوال ہوگا اور اس سے جو بن پڑا کرے گی اس ضمن میں پشتونخوا میپ اور آفتاب شیرپاؤ کی جماعت پر امن ذرائع پر اکتفا کریں گے کیونکہ انکی بساط اس سے زیادہ نہیں ہے جہاں تک وزیرستان کا تعلق ہے تو حیرت انگیز طور پر وہاں طالبان دوبارہ نمودار ہوگئے ہیں حالانکہ پہلے انہیں جنوبی اور بعدازاں شمالی وزیرستان سے نکالنے کیلئے ایک خونی آپریشن ہوا تھا اور اس میں ایک سے زائدعشرہ لگا تھا اسکی پوری آبادی باہر جاکر پناہ گزین ہوئی تھی اس دوران تمام عمارتوں اور کاروباری مراکز کو دھماکوں سے اڑایا گیا تھا طالبان یہاں سے نکل کر افغانستان گئے تھے اور وقتاً فوقتاً ڈیورنڈ لائن کو کراس کرکے اندر آجاتے تھے اور کوئی واردات کرکے چلے جاتے تھے جب پی ٹی ایم قائم ہوئی تو اس نے کھل کر طالبان کی مذمت کی اور انہیں افغان دشمن قراردیا۔پی ٹی ایم بنیادی انسانی حقوق کی پرامن تنظیم ہے چونکہ دونوں مرتبہ کی جنگ افغانستان کے دوران پشتون سیاسی جماعتیں مصلحت کی وجہ سے اپنے فرائض کی ادائیگی سے قاصر رہے تھے اس لئے نوجوانوں نے کسی پر تنقید کی بجائے اپنی تنظیم قائم کرلی اور بنیادی حقوق کی بنیاد پر پشتونوں سے ہونے والے مظالم کو اجاگر کیا اگرپی ٹی ایم کوئی بلوچ جماعت ہوتی تو سب سے پہلے وہ پرانی جماعتوں کو لتاڑتھی اسکے بعد آگے بڑھتی لیکن پی ٹی ایم کی نوجوان قیادت نے اسکے برعکس باچا خان کو اپنا رہبرقراردیا اور اسکے فلسفہ اور تعلیمات کی بنیاد پر اپنی حکمت عملی بنائی۔
باچا خان کے فلسفہ کے بارے میں دو رائے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ احمد شاہ کے بعد اس قوم نے کبھی باچا خان جیسی عظیم شخصیت پیدا نہیں کی انہوں نے بہت ہی نامساعد حالات میں پختون قوم کو اکٹھا کیا انکے لئے درسگاہیں کھولیں اور انگریزی سامراج کے خلاف پرامن جدوجہد کا آغاز کیا باچا خان کی خدائی خدمت گار تحریک کا بنیادی مقصد پشتونوں کوباشعور کرنا تھا اور اپنے وطن کوانگریز کی غلامی سے نجات دلانا تھا اس سلسلے میں باچا خان کو بہت ہی مشکلات کا
سامنا کرنا پڑا کیونکہ انگریزوں نے پشاور کو ایک بڑے کاروباری مرکز میں تبدیل کردیاتھا
جبکہ فوج میں بھرتی اور دیگر سرکاری ملازمتوں کاجھانسہ دیا تھا چنانچہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان سہولتوں سے فائدہ اٹھانے لگی اور پہلی مرتبہ پشتون سماج میں ایک مڈل کلاس نے جنم لیا انگریزوں نے اس نام نہاد مڈل کلاس کی خوب حوصلہ افزائی کی اور انہیں ترغیب دی کہ وہ مسلمانوں کی سیاسی جماعت مسلم لیگ میں جائیں ظاہر ہے کہ کانگریس کو تو انگریز اپنی دشمن سمجھتے تھے لہٰذا وہ اسکے مقابلے میں مسلم لیگ کی سرپرستی کرتے تھے باچا خان کے مشن کی راہ میں یہ حکمت عملی سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی لیکن1935ء کے آل انڈیا ایکٹ کے بعد دونوں مرتبہ ہونیوالے انتخابات میں باچا خان نے مسلم لیگ کو شکست فاش سے دوچار کردیا حالانکہ قیام پاکستان کے وقت بھی ڈاکٹر خان صاحب صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ تھے انہیں گورنر جنرل نے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے برطرف کردیا اور کشمیر سے درآمد شدہ رہنما المعروف خان عبدالقیوم خان کو نوزائیدہ مملکت کاایجنٹ مقرر کردیا انہی کے ہاتھوں بابڑہ کے مقام پر تاریخ کا بدترین تشدد ہوا جس میں باچا خان کے سینکڑوں پیروکار مارے گئے
پرامن مظاہرین پر تشدد کایہ واقعہ اسٹیٹ کی پہلی پالیسی تھی جس سے کبھی جان نہیں چھوٹ سکی
ایک اور اہم واقعہ یہ ہوا کہ کانگریس نے باچا خان کو دھوکہ دے کرتقسیم ہند کی منظوری دیدی اس طرح گاندھی اور نہرو نے انہیں اکیلا چھوڑ دیا وہ بھی ایسی ریاست میں جسکے قیام کی انہوں نے مخالفت کی تھی۔
باچا خان کے فلسفہ کے بارے میں ایک دوسری رائے یہ ہے کہ انہوں نے مسلح پشتونوں کوعدم تشدد کے راستے پرلگادیا اور صدیوں سے چلی آرہی انکی فطری قوت چھین لی اگرپشتون شروع سے ہی اپنے حقوق کیلئے مسلح جدوجہد کا راستہ اپناتے تو حالات یکسر مختلف ہوتے انگریزوں نے افغانستان سرزمین کے درمیان ایک لکیر کھینچ کر انہیں تقسیم کردیا تھا اور یہ تقسیم شائد کافی طویل عرصہ تک برقرار رہے اس کا حل ایک مضبوط افغانستان ہے لیکن افغانستان میں استحکام آنا ایک ایسا خواب ہے جس کی تکمیل کافی دیرتک ممکن نہیں۔اگردیکھا جائے تو ایک طرف اسلام دوستی افغان عوام کا ایک بڑا ہتھیار ہے تو دوسری طرف انکی سب سے بڑی کمزوری بھی یہی ہے چونکہ طالبان وطن کی بجائے ملت یاامت پریقین رکھتے ہیں اس لئے انکے اندر قوم پرستی کے ایسے جذبات نہیں ہیں جو عام پختون عوام میں ہیں طالبان نے افغان وارلارڈ کی شروع کردہ خانہ جنگی اگرچہ ختم کردی تھی اور ایک مستحکم افغانستان کی بنیاد رکھ دی تھی لیکن اس میں ان کا کمال زیادہ نہیں تھا بلکہ قرب وجوار کی تذدیراتی حکمت عملی کارفرماتھی۔
آثار بتارہے ہیں کہ امریکہ دوسری بارکابل کے حکمرانوں کو تنہا چھوڑ کر ایک دن جائیگا اگرایسا ہوا تو اسی دن سے اچھے اور برے طالبان کی تمیز ختم ہوجائے گی اور وہ ملک پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں گے طالبان کااستحکام پڑوسیوں کے حق میں ہے کیونکہ وہ زیادہ مسائل پیدا نہیں کرتے ڈیورنڈ لائن کو مانتے ہیں اور فاٹا کی تبدیل شدہ حیثیت کو بھی انکے لئے قابل اعتراض نہیں ہے۔
لیکن جس طرح افغانستان میں ایک کشت وخون منتظر ہے اسی طرح وزیرستان میں بھی ایک اور خون ریزی کاآغاز ہوچکا ہے متحارب قبائل اور طالبان مل کرپی ٹی ایم کی کمرتوڑنے کی کوشش کررہے ہیں حالانکہ پی ٹی ایم نے ابھی تک کوئی خلاف قانون مطالبہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی تشدد کا راستہ اپنایا ہے غالباً متحارب قبائل کا مقصد یہ ہے کہ پی ٹی ایم کو گھیرگھار کر تشدد کی طرف لایاجائے کیونکہ بعض عناصر اس خطے کوپرامن دیکھنا نہیں چاہتے جس کی تازہ مثال کابل میں واقع اس میٹرنٹی ہوم پر حملہ ہے جس میں ماؤں اور شیرخوار بچوں کو نشانہ بنایا گیا یہ اسپتال ہزارہ کمیونٹی کی آبادی میں واقع ہے افغانستان کا ہزارہ کمیونٹی پریہ مسلسل دسواں حملہ ہے نہ جانے خاص طور پر انکو نشانہ کیوں بنایاجارہاہے مشرف اور زرداری کے دور میں کوئٹہ میں اس کمیونٹی کوبہیمانہ طریقہ سے نشانہ بنایاگیا تھاجس میں سینکڑوں لوگ ہلاک ہوگئے تھے آج تک ان وجوہات کا کھوج نہیں لگایاگیا کہ جو اتنے بڑے کشت وخون کا سبب بن رہاہے
ایک توجہ طلب مسئلہ یہ ہے کہ دریائے آمو سے اس طرف گوادر تک پوراعلاقہ مصیبت میں کیوں ہے یہاں پر کس لئے اتنا خون بہہ رہا ہے اور یہ خون ایک ساتھ کیوں بہہ رہاہے۔
لگتا ہے کہ افغانستان اور متصل علاقہ میں ایک پرامن زندگی ایک دیرینہ خواب ہے جو مستقبل میں بھی پورا نہیں ہوگا۔
بھائی عثمان کاکڑ اور اسفندیارولی بوجوہ خوف میں مبتلا ہیں اور وہ حقیقی فیکٹر کو اجاگر کرنے کی جرأت نہیں رکھتے جس کی وجہ سے اس خطے میں زیادہ سنگین واقعات جنم لے سکتے ہیں جس کی وجہ سے مصلحت پسند سیاسی قوتیں ان حالات کی تاب نہیں لائیں گی اور لوگ متبادل تلاش کرنا شروع کردیں گے جیسے کہ بلوچستان میں ہورہا ہے یہاں کی تمام سیاسی جماعتیں اپنی وقعت کھوبیٹھی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں