پی ٹی آئی اعلیٰ قیادت میں اختلافات ‘ صدر اور عمران خان کی بول چال بند

اسلام آباد :پاکستان تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کے درمیان اختلافات ابھرنا شروع ہو گئے ہیں، عمران خان اور صدر عارف علوی کے درمیان بول چال بند ہے کیونکہ عمران خان نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے اپنی ملاقات کے خواہش مند تھے جس کا اہتمام کرنے میں صدر علوی کامیاب نہ ہو سکے جس پر چیئر مین پی ٹی آئی نے صدر کی سخت سرزنش کی۔ایک رپورٹ کے مطابق یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب صدر عارف علوی نے عمران خان سے رابطہ کر کے انہیں معیشت کی بحالی اور آئی ایم ایف سے مذاکرات میں ریاست کا ساتھ دینے کا پیغام پہنچایا جس پر عمران خان برہم ہوگئے اور صدر عارف علوی سے انتہائی توہین آمیز لہجے میں مخاطب ہو کر کہا کہ آپ جس کا پیغام دے رہے ہیں اس کےساتھ میری ملاقات کا اہتمام کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ صدر علوی کی طرف سے بتایا گیا کہ نئے آرمی چیف کسی سے ملاقات نہیں کر رہے ہیں جس پر عمران خان نے کہا کہ میری ان سے ٹیلی فون پر بات چیت کا اہتمام کریں۔سینئر صحافی صدیق ساجد نے اپنے یوٹیوب چینل پر انکشاف کای کہ عمران خان کی آرمی چیف کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کی درخواست بھی مسترد کر دی گئی جس کے بعد عمران خان کے بیانیے کو تقویت ملی کہ ایک طاقتور طبقہ ان کو اقتدار سے نکالنے کے پیچھے ہے ۔صحافی صدیق ساجد کا کہنا ہے کہ عمران خان نے جیل بھرو تحریک کا اعلان کیا ہے لیکن وہ خود زمان پارک میں ڈر کر چھپے ہوئے ہیں جہاں باہر خواتین اور بچوں سمیت کارکن سخت موسم کی صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ عمران خان نے دو فروری کو صدر علوی سے کہا تھا کہ وہ انٹیلی جنس ایجنسیوں اور اسٹیبلشمنٹ کے کچھ دیگر حلقوں کی جانب سے سیاسی معاملات میں مداخلت کا نوٹس لیں عمران خان خیبر پختونخوا کے گورنر کے اس بیان پر نالاں تھے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ الیکشن کی تاریخ میں نہیں دے سکتا یہ اسٹیبلشمنٹ اور ایجنسیاں دیں گی ،عمران خان کے مطابق اگر الیکشن وقت پر ہوئے تو ان لوگوں کو خطرہ ہے کہ میں کامیاب ہو جاو¿ں گا تاہم اگر الیکشن کے انعقاد میں تاخیر کی گئی تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہو گی اور اس پر آرٹیکل سکس لگے گا ۔عمران خان نے صدر علوی سے پاکستان تحریک انصاف کے رہنماو¿ں اور کارکنوں کے خلاف زیر حراست تشدد اور دھمکیوں کا نوٹس لینے کا بھی مطالبہ کیا ۔انہوں نے اپنی جماعت کی منظورکردہ قرارداد کا ذکر کیا جس میں انٹیلی جنس ایجنسیوں اور اسٹیبلشمنٹ کے دوسرے حلقوں کی جانب سے سیاست میں بڑھتی ہوئی مداخلت کی نشاندہی کی گئی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں